وجود

... loading ...

وجود
وجود

صدر جو بائیڈن کے پہلے 100دن

بدھ 05 مئی 2021 صدر جو بائیڈن کے پہلے 100دن

(مہمان کالم)

میشل کوٹل

کسی بھی ملازم کی طرح صدر جو بائیڈن کو وقفے وقفے سے اپنی کارکردگی کے جائزے سے گزرنا پڑرہا ہے۔جمعرات کو انہیں صد ربنے ایک سو دن ہوگئے ہیں او ریہ وہ عرصہ ہوتا ہے جب دنیا ایک صدر کے اقدامات کا بغور جائزہ لیتی ہے۔ اس نے کتنے بل پا س کروائے ہیں ؟ کس کس کی تقرری کی ہے؟ کتنے ایگزیکٹو ا?رڈرز پر انہوں نے دستخط کیے ہیں؟ کون کون سا وعدہ توڑا ہے؟ وغیرہ۔جو بائیڈن نے ان غیر معمولی حالات میں اپنا منصب صدارت سنبھالا تھا جب چار سال کے دوران ہمیںمتنوع بحرانوں کا سامنا تھا یعنی مہلک کووڈ کی وبا ‘معاشی بے یقینی ‘ماحولیاتی تبدیلی اور نسلی ناانصافیوںکا دور۔اس وقت جرا?ت مندانہ پالیسی اقداما ت کی ضرورت تھی۔یہ وہ زمانہ تھا جب ٹرمپ عہد کی زہریلی سیاست کا سامنا تھا جب ری پبلکن کے ا رکان کی اکثریت کا ا س جھوٹ پر پورا یقین تھا کہ 2020ئ￿ کے امریکی الیکشن چرا ئے گئے ہیں۔ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ایک 78 سالہ دھیمے مزاج کے بوڑھے ا?دمی پر ان تین مہینوں میں کافی بوجھ پڑگیا ہے مگرجو بائیڈن کے خمیر میں یہ بات شامل ہے کہ وہ ہمیشہ مشکل حالات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے ہیں۔تاہم ان کے پہلے سو دن نقائص سے پاک تو نہیں کہے جا سکتے مگر اس امر کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں کہ انہیں امریکا کا صد رکیوں منتخب کیا گیا تھا اور امریکی عوام اب ان سے کیسی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں؟
فصدر جو بائیڈن نے بہت تیز رفتار آغاز کیا اور اپنے سب سے بڑے چیلنج کے سامنے ڈٹ گئے یعنی صحت عامہ اور کوو ڈکے زمانے میں درپیش سنگین معاشی بحران کا سامنا۔انہوں نے فوری طور پر کانگرس سے ایک کھرب نوے ارب ڈالرز کے ریلیف پیکیج کی بات کی اور کانگرس نے انہیں ایک کھرب نوے ارب ڈالر ز کا ریلیف پیکیج دے بھی دیا۔کیا ری پبلکن ارکان نے بھی اس پیکیج پر دستخط کر دیے تھے؟ نہیں انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ا س بل کو پیش کرنے کا مقصد بچوں والے خاندانوںکے لیے مستقل ا?مدنی کی ضمانت فراہم کرنا تھا اور اسے دونوں جماعتوں کی طرف سے بہت زیادہ عوامی سپورٹ بھی مل گئی۔یہ سب کچھ وائٹ ہائوس کی نیک نامی کے لیے کافی تھا۔صدر جوبائیڈن یہ با ت بھی اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں کہ عوام کی توقعات پر کیسے پورا اترنا ہے یعنی کم سے کم وعدے اور وعدوں سے زیادہ کام اور کارکردگی۔انہوں نے ابتدا میں وعدہ کیا تھا کہ منصب ِصدارت سنبھالنے کے ایک سو دن کے اندر اندر وہ کم از کم کووڈ ویکسین کی 100ملین خوراکوں کا بندوبست کریں گے۔امریکی قوم نے یہ چیلنج مارچ کے وسط تک پورا کر لیا تھا جس سے صدر جو بائیڈن کو یہ موقع مل گیا کہ اپنی صدارت کے ایک سو دن مکمل ہونے تک انہوں نے کووڈ ویکسین کی 200ملین ڈوزز کا ہدف ا?سانی سے پورا کر لیا ہے۔اس کی راہ میں حائل ا?خری رکاوٹ بھی پچھلے ہفتے ہٹا دی گئی۔امیگریشن جیسے مسئلے میں جوبائیڈن کا بھی حصہ شامل تھا۔وائٹ ہائوس میکسیکو کی سرحد پر تارکین وطن کے بچوں کی ا?مد جیسے مسئلے کا سامنا کر رہا تھا اور وہاں ریکارڈ تعدا د میں بچوں کی ا?مد جاری تھی۔یہ بات بھی درست ہے کہ انہیں ایک غیر فعال حکومت ورثے میںملی مگر بعض ڈیموکریٹ ارکان نے بھی یہ شکایت کی ہے کہ ان کی حکومت اس مسئلے پرکوئی واضح پالیسی او رپلان دینے میں ناکام رہی۔ری پبلکن ارکان ا س موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے فوری طو رپر آگے بڑھے اور ان کے کئی ارکان نے سرحدی علاقے کے دورے بھی کیے۔اس دوران وہ ایسے لوگوں سے بھی ملے جو Duck Dynastyسیریز سے نکالے ہوئے لوگ لگ رہے تھے۔امریکی سرحد پر جاری بے چینی نے جو بائیڈن کو مہاجرین کے داخلے کے مسئلے پر کافی پریشان کررکھا ہے۔صدر ٹرمپ نے مہاجرین کو داخلے کی اجازت کی حد پندرہ ہزار تک محدود کررکھی تھی جسے انہوں نے بڑھا کر 62500کر دیاتھا‘مگر سولہ اپریل کو وائٹ ہائوس نے اعلان کیا ہے کہ صد رٹرمپ والی پابندی بر قرار رہے گی۔ اس پر رد عمل یقینا آئے گا۔چند گھنٹے بعد وائٹ ہائوس نے اعلان کر دیا کہ اس ڈائریکٹو کے بارے میں ایک کنفیوڑن پائی جاتی ہے اور مئی میں مہاجرین کے داخلے کے لیے ایک بڑی تعداد مقرر کی جائے گی۔
بہت سے ووٹر ز کے نزدیک صدر جوبائیڈن کی مقبولیت کا انحصار پالیسیز پر نہیں تھا۔وہ تو ان کی طرف ا س وقت مائل ہوئے تھے جب انہیں اتفاق ‘اتحاد اور صدر ٹرمپ کی طرف سے پیدا کیے گئے انتشار اور تلخی کے خاتمے جیسے وعدے سننے کو ملے۔ ان سب باتوں نے سادہ لوح افراد کوزیادہ متاثر کیا تھامگر جو بائیڈن کا زیادہ جھکائو منفرد قسم کی ترقی کی طر ف ہی دکھائی دیا۔ وہ صدار ت کے منصب کو مزید بیزار کن بھی بنا رہے ہیں۔اگروہ ایسا کرتے ہیں تو یقینا ان کا مذاق بھی اڑے گا۔تھکے ہارے امریکیوں نے ا س ا سٹائل کا بھی خیر مقدم کیا تھا۔ایگزیکٹو ٹائم اور ٹوئٹر پر ٹوئٹس اور فاکس نیو ز پر ٹرمپ کے جمہوریت پر حملوں کے زمانے لد گئے ہیں۔جو بائیڈن ذرا دھیمے مزاج سے کام کرنے کے عادی ہیں اور عام طورپر کیمروں کی روشنیوں سے دور رہنے والے انسان ہیں۔وہ سرجھکائے اپنی پالیسیوں پر خاموشی سے عمل پیرا ہوکر ا?گے بڑھتے رہتے ہیں۔وہ ملازمتوں میں انسانیت کو فروغ دے رہے ہیں۔پولیس فائرنگ سے مرنے والے ہوں یا کووڈ جیسے مہلک وائرس سے مرنے والوں کی بڑھتی ہوئی شرح اموات یا امریکی عوام کے روزمرہ کے معاشی مسائل ‘صد رجو بائیڈن ہر چیلنج کو بڑی ہمدردی اور شائستگی سے قبول کرتے ہیں۔وہ اشتعال میں ا?نے کے بجائے ہمیشہ پرسکون رہ کر معاملات کو دیکھتے ہیں۔ممکن ہے بہت سے لوگوں کے لیے یہ کوئی بڑی بات نہ ہومگر ہم ابھی ابھی ٹرمپ کو بھگت کر آرہے ہیں۔اگرچہ انہوں نے قومی امور پر ری پبلکن پارٹی کے اراکین کانگرس کو بات چیت کی دعوت دی ہے مگر انہوں نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ وہ ان کی حمایت حاصل کرنے کیلیے کوئی غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کریں گے نہ کرنے دیں گے۔ انہوں نے بارک اوباما کے دور میں یہ ضرور سیکھا ہے کہ وہ خرگوش کے بل میں نہیں گھسیں گے۔جو بائیڈن نے در حقیقت سینیٹ میں بعض اعتدال پسند ری پبلکن ارکان کو کسی حد تک ناراض کرلیا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ جو بائیڈن تعاون حاصل کرنے کی کوشش میں دوسروں کے احترام کا زیادہ خیال نہیں رکھتے۔ری پبلکن پارٹی کے سینیٹ میں بعض ایسے ارکان بھی ہیں جو اس وجہ سے دوجماعتی سیاست او رمصالحت پسندی سے اپنی محبت کا اظہار کرتے رہتے ہیںتاکہ کہیں وہ نامعقول انسان نہ دکھائی دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر