وجود

... loading ...

وجود
وجود

امریکا کووڈ کے خاتمے میںمدد کر سکتا ہے

جمعه 30 اپریل 2021 امریکا کووڈ کے خاتمے میںمدد کر سکتا ہے

(مہمان کالم)

مشیل گولڈ برگ

 

گزشتہ جولائی میں جوبائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران یونیورسل ہیلتھ کیئر کے ایڈووکیٹ ایڈی برکان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ کورونا وائرس کی ویکسین تک عالمی رسائی کے خلاف انٹلیکچوئل پراپرٹی قوانین کا استعمال کریں گے۔ برکان کا کہنا تھا ’’کووڈ کے علاج کے لیے عالمی تعاون کو فروغ دینے کی مہم میںعالمی ادارہ صحت غیر معمولی کردار ادا کر رہا ہے مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کوشش میں شامل ہونے سے انکار کر دیا اور اس طرح امریکا کو باقی دنیا سے الگ تھلگ کر دیا گیا۔ اگر امریکا سب سے پہلے کووڈ کی ویکسین بنا لیتا ہے تو کیا آپ باقی ممالک کے ساتھ اپنی یہ ٹیکنالوجی شیئر کریں گے اور کیا آپ اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ کسی قسم کے پیٹنٹس بڑے پیمانے پر لائف سیونگ ویکسین بنانے والے ممالک اور کمپنیوں کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے؟‘‘ جو بائیڈن کا موقف بڑا واضح تھا، انہوں نے ٹرمپ کی ویکسین آئسولیشنزم کے حوالے سے کہا ’’یہ تو انسانی وقار کے منافی بات ہو گی، ہم یہ کیا کر رہے ہیں؟ چنانچہ اس کا جواب ہے ہاں، ہاں، ہاں۔ یہ محض ایک اچھا کام ہی نہیں بلکہ ایسا کرنا ہمارے مفاد میں بھی ہے‘‘۔
اب وہی جو بائیڈن اقتدار میں ہیں۔ اب ان کا ’’ہمارے مفاد‘‘ کا تصور اتنا واضح نہیں ہے۔ گزشتہ سال بھارت اور جنوبی افریقہ نے درخواست کی تھی کہ WTO انہیں کووڈ کی وبا سے نمٹنے سے متعلق ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے انٹلیکچوئل قوانین میں رعایت دے۔ اب تک کئی دیگر ترقی یافتہ ممالک بھی ان کے ساتھ شامل ہو چکے ہیں۔ امریکا سمیت امیر ممالک اس استثنا کی مخالفت کر رہے ہیں مگر بہت سے ممالک سمجھتے ہیں کہ اگر اس ضمن میں امریکا اپنا موقف تبدیل کرتا ہے تو وہ بھی اس کی پیروی کریں گے۔ ڈیموکریٹ سینیٹرز نے جو بائیڈن سے بھارت اور جنوبی افریقہ کو یہ رعایت دینے کی بات کی ہے۔ الی نائے سے سینیٹر جان شیکووسکی نے ایوان کے ارکان کی طر ف سے ایک مشترکہ خط لکھنے کی مہم شروع کر رکھی ہے اور اس پر ایک سو سے زائد ارکان دستخط بھی کر چکے ہیں۔
ڈاکٹرز ود آئوٹ بارڈرز، پارٹنرز ان ہیلتھ، ہومین رائٹس واچ اور آکسفم انٹرنیشنل سمیت صحت اور انسانی حقوق کی کئی تنظیمیں بھی استثنا کی اس مہم میں شامل ہو گئی ہیں۔ ہیلتھ گلوبل ایکسیس پروجیکٹ کی ڈائریکٹر آسیہ رسل کا کہنا ہے ’’میں سمجھتی ہوں کہ وعدہ شکنی کی یہ پہلی مثال ہے‘‘۔ آسیہ رسل نے بائیڈن حکومت کی طرف سے انکار کو ٹرمپ حکومت کی طرف سے مہاجرین کو استثنا نہ دینے کے مترادف قرار دیا۔ ’’اپنے وعدے کے بالکل برعکس کیا گیا۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا، ہم اس وقت کورونا وبا کا سامنا کر رہے ہیں۔ اگر اب نہیں تو ہم یہ کب کریں گے؟‘‘ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ معاملہ مہاجرین کو اجازت دینے سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ بگ فارما کی طرف سے اس دلیل کو مسترد کرنا بہت آسان ہے۔ شیکووسکی کا کہنا تھا ’’ویکسین کی تیاری ممکن بنانے میں ٹیکس دہندگان کی بھاری رقوم ستعمال کی گئی ہیں‘‘۔ مگر دیگر دلائل کو بھی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ بیلر کالج آ ف میڈیسن میں قائم نیشنل سکول ا?ف ٹراپیکل میڈیسن کے ڈین ڈاکٹر پیٹر ہاٹیز جو ویکسین کے بھی ایکسپرٹ ہیں‘ یہ استثنا دینے کے مخالف نہیں مگر ان کا خیال ہے کہ انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹس ویکسین تک رسائی کی راہ میں بڑی رکاوٹ نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا ’’اگر ا?پ کو کل پیٹینٹ کی پابندیاں نرم بھی کرنا پڑیں تو میں نہیں سمجھتا کہ اس سے کووڈ پر کوئی فرق پڑے گا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس راہ میں بڑی رکاوٹ تکنیکی جانکاری ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ان کے پاس کافی تعداد میں تربیت یافتہ ورک فورس ہی دستیاب نہیں ہو گی تو دوسرے ممالک کو محض ویکیسن کا فارمولا دینا کافی نہیں ہوگا۔
پیٹر ہاٹیز ایک بھارتی کمپنی کے ساتھ مل کر ویکسین کی ایک ارب ڈوز تیار کر رہے ہیں اس ویکسین کو عوامی ویکسین یا کووڈ کا کم لاگت علاج کہا جا سکتا ہے اور یہ دوسرے مرحلے کے ٹرائلز کے قریب پہنچ چکی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ امریکی حکومت اس ویکسین کی پانچ ارب خوراکیں تیار کرنے میں بھارتی حکومت کی مد دکرے۔ ’’نئی ٹیکنالوجی سے بننے والی یہ نئی ویکسینز بڑی زبردست اور جدید ہیں جو ایک برینڈ نیو ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار ہوںگی، زیرو سے پانچ ارب تک پہنچنا اتنا ا?سان نہیں ہوگا‘‘؛ تاہم WTO کی طرف سے ویکسین تیار کرنے کے لیے استثنا کافی نہیں ہوگا البتہ اس سمت میں ایک سفر ضرور شروع ہو جائے گا۔ ایک ایکٹیوسٹ گروپ کے نام اپنے خط میں WTO کے ڈائریکٹر جنرل نے یہ اعتراف کیا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ویکسین بنانے کی بے پناہ استعداد موجود ہے۔ انٹلیکچوئل پراپرٹی اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے بعد اس استعداد کو بڑھانے میں بڑی مدد ملے گی۔
دنیا بھر کی صحت عامہ سے متعلق معروف شخصیات یہ رائے رکھتی ہیں کہ اس سمت میںکام کا آغاز کرنے کے لیے یہ استثنا پہلا قدم ہو گا۔ آسیہ رسل کہتی ہیں ’’ترقی پسند پالیسیوں پر عمل کرنے میں ایک دن کی تاخیر بھی کئی قیمتی جانوں کو ضائع کرنے کے مترادف ہے کیونکہ آپ محض ایک سوئچ دباکر ایک رات میں یہ سب کچھ نہیں کر سکتے، اس کام کا آغاز کرنے کے لیے آپ کو چھ مہینے، ایک سال یا اس سے بھی زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ اسے کسی بھی پہلو سے دیکھ لیں‘ یہ استثنا ہمیشہ کے لیے نہیں ہے‘ مگر ہم اس حوالے سے جتنی باتیں کریں گے اس میں اتنا ہی مزید وقت ضائع ہو گا۔ اس پرواقعی بہت زیادہ وقت لگے گا‘‘۔
اب بڑے پیمانے پر تیار ہونے والی ویکسین سے امریکا کو ایک سال کے خوف اور تنہائی سے آزادی ملی ہے حالانکہ کورونا کی ایک نئی لہر نے برازیل اور بھارت میں آج بھی تباہی مچا رکھی ہے۔ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کہتے ہیں کہ عالمی تجارتی قوانین میں عارضی تبدیلی سے انہیں اپنا دفاع اور حفاظت کرنے میں مدد ملے گی۔ کیا جو بائیڈن کی حکومت واقعی ان کے خلاف کھڑی ہونا چاہتی ہے؟ آپ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ امریکا کو چاہئے کہ وہ پوری دنیا کو ویکسین لگانے میں مدد کرے تاکہ ہم کووڈ کی نئی اقسام کا بھی قلع قمع کر سکیں۔ اس وقت ہمیں عالمی لیڈر شپ کا بھی جائزہ لینا ہے جب دوسری طرف روس اور چین بڑی مستعد ویکسین ڈپلومیسی میں مصروف ہیں۔ ان ممالک کی بہترین مدد اس طرح ہو گی کہ جو بائیڈن اور ایڈی برکان اپنے وعدوں کے مطابق انہیں کووڈ سے نمٹنے میں مدد فراہم کریں۔ انہوں نے کہا ’’یہی انسانی کام ہے جو دنیا کو کرنا چاہئے۔ لہٰذا انہیں یہ ضرور کرنا چاہئے‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر