وجود

... loading ...

وجود
وجود

امریکا کی افغانستان سے واپسی

هفته 17 اپریل 2021 امریکا کی افغانستان سے واپسی

(مہمان کالم)

ایڈم نوسیٹر

وہ بین الاقوامی کانفرنسز میں شرکت کرتے ہیں، سفارت کاروں سے ملتے ہیں، حال ہی میں انہوں نے ایک ڈیم کا افتتاح کیا ہے جہاں حب الوطنی سے لبریز تقریر میں طالبان کے خلاف اپنے ملک کا دفاع کرنے کا عزم دہرایا مگر خطرات میں گھرے اپنے ملک کے مستقبل پر صدر اشرف غنی کو کس حد تک کنٹرول حاصل ہے؟ سیاستدانوں، تجزیہ کاروں حتیٰ کہ عام شہریوں میں بھی ان کے اپنے مستقبل کے بارے میں بحث جاری ہے بلکہ اب تو بڑی حد تک یہ سوال واضح ہو چکا ہے۔ جانز ہاپکنز، برکلے، کولمبیا کے تعلیم یافتہ‘ عالمی بینک اور اقوام متحدہ میں کام کرنے جیسا شاندار پس منظر رکھنے کے باوجود ا?ج کل اشرف غنی تنہائی اور گمنامی میں جا رہے ہیں۔

اشرف غنی آج کل مٹھی بھر مشیروں کے محتاج ہیں اور ٹی وی پر خبریں دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔ ان کے اتحادی بڑی تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ ان باتوں سے اس ملک کی مشکلات کی عکاسی ہو رہی ہے جہاں شدت پسندی کو عسکری لحاظ سے برتری حاصل ہے، یو این او کے مطابق جہاں کی نصف سے زائد آبادی بھوک اور افلاس میں پھنسی ہوئی ہے، جہاں حکومتی اخراجات کا بڑا حصہ بیرونی امداد سے پورا ہوتا ہے، جہاں حکومت کمزور ہے اور ملک کرپشن کے دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ دوسری طرف امریکا اپنی بچی کھچی فوج بھی افغانستان سے نکال رہا ہے جس کے نتیجے میں افغان سکیورٹی فورسز کے شکست کھانے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ صدر جو بائیڈن کے نائن الیون تک اپنی فوج نکالنے کے پلان سے افغانستان کی طویل جنگ کے خاتمے کے اشارے مل رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے عسکری مشیروں کے مشورے بھی مسترد کر دیے ہیں کہ اس انخلا سے دہشت گردی کے وہی خطرات پھر سے سر اٹھا لیں گے جن کے خاتمے کے لیے ہم نے بیس سال پہلے کئی ملین فوجی یہاں بھیجے تھے۔ اشرف غنی کے بارے میں افغان انٹیلی جنس سروس کے سابق سربراہ رحمت اللہ نبیل کہتے ہیں کہ وہ ایک مایوس کن صورتحال میں پھنس چکے ہیں۔ ’’ہم کمزور سے کمزور تر ہوتے جا رہے ہیں۔ سکیورٹی بہت ہی کمزور ہے، ہر چیز کمزور تر ہو چکی ہے اور طالبان اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں‘‘۔ امریکا نے بھی خود کو اشرف غنی سے دور کر لیا ہے۔ ان کے ہوتے ہوئے طالبان، افغان وار لارڈز اور خطے کے پاور بروکرز کے ساتھ معاہدہ کر لیا ہے۔ افغان پارلیمنٹ دو مرتبہ ان کا بجٹ مسترد کر کے ان پر عدم اعتماد کر چکی ہے۔ ان کے حریف طالبان اشرف غنی سے ڈیل کرنے کی پیشکش مسترد کر چکے ہیں۔ انہیں ملنے والا مینڈیٹ شروع دن سے ہی کمزور تھا، ان کی انتخابی فتح کے موقع پر ووٹرز کا ٹرن آئوٹ صرف18.7 فیصد تھا جو مزید سکڑ چکا ہے۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے امریکی حکام کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو چکا ہے۔ ان کے قریبی ساتھی بھی ان سے متنفر ہو چکے ہیں کیونکہ وہ اپنے حریفوں کے ساتھ نرمی برتنے کے مشورے کو مسلسل مسترد کر رہے ہیں۔ ان کے سیاسی مرتبے کو اکثر لوگ ’’ڈیڈ مین واکنگ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے انہیں جو خط لکھا ہے اس میں انتہائی توہین آمیز زبان استعمال کی گئی ہے۔ اس طرح کی زبان کسی سربراہ ریاست تو درکنار کسی ا سکول کے طالبعلم کے ساتھ بھی نہیں بولی جاتی۔ ’’مسٹر پریذیڈنٹ، میں آپ پر واضح کر دینا چاہتا ہوں۔ میں تم پر زور دیتا ہوں، آپ اپنا اثرو رسوخ کھو چکے ہیں‘ وغیرہ‘‘ ایک افغان تھنک ٹینک کے سربراہ اور سابق صدر حامد کرزئی کے کزن حکمت خلیل کرزئی کہتے ہیں ’’ایک افغان کے طور پر اس توہین کے آپ خود ذمہ دار ہیں مگر میں یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ آ پ اسی کے مستحق تھے‘‘۔ جو بائیڈن حکومت اس وقت کثیر ملکی مذاکرات کو ترجیح دے رہی ہے جو اس مہینے کے آخر میں استنبول میں ہو رہے ہیں تاکہ اس پر مزید پیشرفت ہو سکے۔ امریکی حکومت کی پوری کوشش ہے کہ افغانستان میں سردست ایک عبوری حکومت قائم ہو جائے جو اگلے الیکشن ہونے تک ملک کا نظم و نسق چلائے۔ اس سلسلے میں ایک ڈرافٹ لیک ہوا ہے جس کے مطابق عبوری حکومت میں طالبان اور موجودہ افغان حکومت کے ارکان پاور شیئرنگ کریں گے۔ اس قسم کا سیٹ اپ قائم کرنے کے لیے اشرف غنی کا منصب اقتدار سے دستبردار ہونا لازمی ہے مگر وہ اب تک اس تجویز پر غور کرنے کے بجائے اسے یکسر مسترد کر چکے ہیں۔ اس کے جواب میں اشرف غنی نے اپنا الگ پلان تیار کیا ہوا ہے جسے وہ جلد ریلیز کرنے والے ہیں۔ اس پلان کے مطابق سب سے پہلے جنگ بندی ہو گی جس کے بعد ایک عبوری حکومت برائے امن قائم ہوگی‘ اس کے بعد الیکشن کرائے جائیں گے جس میں اشرف غنی حصہ نہیں لیں گے۔

ستمبر 1996ء کا تصور کریں جب طالبان کسی مزاحمت کا سامنا کیے بغیر کابل میں داخل ہو گئے تھے۔ 83 ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے صدارتی محل جس کے گرد سات حفاظتی حصار قائم کیے گئے ہیں‘ کے اندر مقیم اشرف غنی کے قریبی ساتھیوں اور رفقا کا حلقہ تنگ سے تنگ تر ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ مہینے جب ایک ملیشیا نے فوجی ہیلی کاپٹر مار گرایا تو انہوں نے اپنے وزیر داخلہ کو برطرف کر دیا تھا۔ انہوں نے اپنے وزیر خزانہ کو بھی برخاست کر دیا ہے۔ ایک سابق اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ وہ حقائق سے بالکل بے خبر ہیں کہ اس وقت ملک میں کیا ہو رہا ہے؛ تاہم صدر غنی کے مشیر حمد اللہ محب اس تجزیے کو مسترد کرتے ہیں۔یہ تنقید بھی اس سیاسی اشرافیہ کی طرف سے ہو رہی ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ اسے اقتدار سے بالکل دور کر دیا گیا ہے۔ بعض سابق حکام کے خیال میں اشرف غنی کو کم اہم اور معمولی امور مملکت میں الجھا دیا گیا ہے مثلاً وہ عسکری معاملات میں ملوث ہو رہے ہیں اور اس ضمن میں مقامی پولیس چیف کی تقرری جیسے فیصلے ذاتی حیثیت میں کر رہے ہیں۔ گزشتہ کئی مہینوں سے کابل میں سرکاری فوج اور اقلیتی گروہ کے وار لارڈز کے درمیان جنگ جاری ہے جس کے دوران مارچ میں ایک افغان فوجی ہیلی کاپٹر بھی مار گرایا گیا۔ ایک سینئر افغان سکیورٹی عہدیدار کا کہنا ہے کہ ’’اسی وجہ سے ہم ایسی صورتحال سے گریز کر رہے تھے۔ ہم پہلے ہی وسیع تر جنگ میں الجھے ہوئے ہیں اورا?پ یہاں ایک نئی جنگ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ اگر امریکا اپنی فوج یہاں سے نکال لیتا ہے اور کوئی سیاسی معاہدہ بھی نہیں ہوتا تو ہم شدید مشکل صورتحال میں گھر جائیں گے‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر