وجود

... loading ...

وجود
وجود

کیا طالبان جیت چکے ہیں ؟

منگل 06 اپریل 2021 کیا طالبان جیت چکے ہیں ؟

(مہمان کالم)

ایڈم نوسیٹر

طالبان میں پایاجانے والا احساسِ تفاخر بے جا نہیں ہے۔ان کے ڈپٹی کمانڈر کی جارحانہ تقریر جس میں اس نے اپنی فتح کا دعویٰ کرنے کے ساتھ غیر ملکی ا?قائوںپر طنز بھی کیا ہے‘ سے لے کر طالبان کی ویب سائٹ پر افغان حکومت کو ناجائز قرار دیا جا رہا ہے۔’’ہم یہ جنگ پہلے ہی جیت چکے ہیں ‘‘اور ان کا یقین جس کی جڑیں عسکری اور سیاسی حقائق میں پیوست ہیں افغانستان کے نازک حال کی عکاسی کر رہا ہے۔افغانستان کے مستقبل پر اسی مہینے ترکی میں ہونے والے مذاکرات میں ہاتھی کمرے میں گھس آیا تھایعنی نیم مسلمہ حقیقت کہ طالبان کو برتری حاصل ہے اس لیے وہ امریکا کی پاور شیئرنگ کی تجویز پر کمپرومائز کرنے کے لیے تیا رنہیں ہیں۔کابل میں مقیم ایک سینئر مغربی سفارت کار کا کہنا تھا کہ طالبان کی موجودہ بڑھک بازی محض ایک پروپیگنڈا ہے مگر یہ مایوسی میں ڈوبی کابل حکومت اور ان مذاکرات کے عالمی سہولت کاروں کے لیے بھی ایک مشکل صورتحال ہے۔افغانستان سے درجنوں سکیورٹی چیک پوائنٹس کا خاتمہ ہوچکا ہے اور ہر مہینے تین ہزار قربانیاں دینے والی افغان سکیورٹی فورسز پہلے ہی شدید دبائو کا شکار ہیں۔طالبان اپنا یہ تفاخر بالکل نہیں چھپاتے کہ انہوں نے اپنے بیس سال پرانے حریف امریکا کو مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کر دیا تھا جس کے نتیجے میں گزشتہ سال ایک معاہدے پر دستخط ہوئے کہ امریکا یکم مئی 2021ء تک افغانستان سے اپنی تمام فوجیں نکال لے گا۔اس کے بدلے میں طالبان مغربی ممالک کی افواج پر حملے نہیں کریں گے اور القاعدہ سمیت تما م دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ اپنے روابط ختم کر دیں گے۔

صدر جو بائیڈن کی حکومت کو ابھی یہ بتانا ہے کہ کیا وہ چند ہفتے دور مکمل انخلا کی ڈیڈ لائن کی پاسداری کرے گی ؟طالبان کے ڈپٹی کمانڈر سراج الدین حقانی نے حال ہی میں اپنی تقریر میں کہا تھا کہ کسی مجاہد نے ایسا کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک دن وہ اتنی بہتر صورتحال دیکھے گا یا یہ کہ وہ ان باغی بادشاہوں کے تکبر کو یوں خاک میں ملا دے گا۔ تقریباًروزانہ ہی طالبان کی ویب سائٹ پر ایسی رپورٹس پیش کی جارہی ہیں کہ کس طرح لوگ حکومت سے ٹوٹ کر ان کے ساتھ مل رہے ہیں۔ان باتوں میں مبالغہ آرائی سے کام لیاجا رہا ہے کیونکہ طالبان او رکابل حکومت دونوں ایک دوسرے کی ہلاکتوں کے بارے میں جھوٹ بول رہے ہیں۔ایک ہیڈ لائن میں کہا گیا ہے کہ 59 مخالف فوجی داعش کے ساتھ آملے ہیں۔

طالبان سمجھتے ہیں کہ انہوں نے امریکہ کو نکال باہر کیا تو باقی کس کھیت کی مولی ہیں۔ایک افغان تجزیہ کار جواد کوہستانی کہتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں چونکہ انہوں نے امریکا کو شکست سے دوچارکیا ہے ا س لیے وہ دیگر افغان فورسز کو بھی شکست دے کر پورے ملک پر اپنا کنٹرول حاصل کر لیں گے۔افغان طالبان جو 1996-2001ء کے عرصے میں ملک کے بڑے حصے پر حکومت کر چکے ہیں شرکتِ اقتدار پر آمادہ نہیں ہیں۔وہ اپنی اسلامی امارات کی بحالی کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور اقتدار میں آکرکرپشن اور زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کو سنگین سزائیں دینا چاہتے ہیں۔ مگرطالبان امور کے ماہر انٹونیو گسٹوزی ا س بات سے اختلا ف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ضروری نہیں طالبان پہلے کی طرح سخت گیر اسلامی حکومت قائم کریں۔ جب وہ سیاسی معاہدے کی رو سے اقتدار حاصل کرلیں گے تو ان کے پاس آپشن ہوگا کہ امارات اور جمہوریت کے امتزاج کو ترجیح دیں۔ان کا اصل مقصد بالادستی حاصل کرنا ہے۔ طالبان یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ بیرونی امداد کے محتاج ہیں۔ ان کے 80 فیصد سے زائد اخراجات عالمی امداد سے پورے ہوتے ہیںا س لیے وہ دنیا سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتے۔اگرچہ طالبان سوشل میڈیا اور آن لائن پروپیگنڈا کے استعمال میں کافی ماہر ہو چکے ہیں۔ایک انگریزی ویب سائٹ کے مطابق پھر بھی ابھی تک اپنے زیر قبضہ علاقوں میں انہوں نے ا سمارٹ فون کے استعمال پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

فیصلہ کن عسکری کامیابیوں کے بعد ان کی زبان میں بھی احساس ِتفاخر نظر آتا ہے۔تجزیہ کاروں کے خیال میں آج سے تین سال پہلے اس طرح کی بات کا تصور بھی محال تھا۔امریکی مذاکرات کار اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ مصالحت اور شراکتِ اقتدار کا راستہ اپنایا جائے مگر سرکاری حکام بھی اس بات کی مزاحمت کر رہے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں ایک عبوری سیٹ اَپ قائم کرنے کے لیے ضروری ہوگا کہ افغان صدر اشرف غنی اپنی صدارت چھوڑیں جبکہ وہ اس بات پر سوچنے کے لیے بھی تیا رنہیں ہیں۔الٹا حکومت ایسی زبان استعمال کررہی ہے جس سے عندیہ ملتا ہے کہ ملک میں خونریزی میں اضافہ ہوگا۔ مارچ کے شروع میں سخت پہرے میں صدارتی محل کے اندر ایک سینئر عہدیدار نے رپورٹرز کو بتایا تھا کہ امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد کی طرف سے دونوں فریقوں کے لیے مصالحت اور مخلوط حکومت کے قیام کی تجاویز محض ایک ٹروجن ہارس ہیںجسے طالبان اقتدار پر قبضے کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔اس عہدیدار کے خیال میں طالبان کی ذہنیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایسا سوچنا بہت ہی غیر حقیقت پسندانہ ہوگا کہ شورش پسند ان کی باتوں کو مان لیں گے۔تاہم ان کا مزیدکہنا تھا کہ بہترین کی امید رکھتے ہیں اور بدترین صورتحال کے لیے تیار ہیں۔

اشرف غنی کی حکومت کے کمزور اور مایوس کن رویے سے پتہ چلتا ہے کہ طالبان نے ملک کے کافی حصے پر قبضہ کر لیا ہے۔دسمبر میں طالبان کے گڑھ قندھار میں افغان سکیورٹی فورسز کی دو سو سے زائد چیک پوسٹس ختم کر دی گئیں۔مسٹر گسٹوزی کا کہنا ہے کہ طالبان کے کامیابیوںکے دعووں میں نوے فیصد صداقت ہے۔یہ تو واضح ہو چکا ہے کہ جنگ ہاری جا چکی ہے۔صورتحال غلط سمت میں چلی گئی ہے۔اشرف غنی سے حالات سنبھالے نہیں جا سکے۔ٹرینڈ طالبان کے حق میں ہے۔یہی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ جہاں طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ فتح یاب ہیں وہیں اس تنازعے کے دیگر فریق انہیں ملک پر اتنی آسانی سے قابض نہیں ہونے دیں گے۔پچیس سال پہلے بھی یہی ہوا تھا جب طالبان نے وارلارڈز کے خلاف شمالی اور مشرقی افغانستان میں جنگ شروع کی تھی تو وہ پورے ملک پر قبضہ کرنے میں ناکام ہو گئے تھے۔وسطی افغانستان میں ایک وار لارڈ عبدالغنی علی پور نے حکومت کے خلاف ایک جنگ شروع بھی کر دی ہے اور طالبان سے دفاع کی غرض سے وہ اپنے گرد ہزاروں جنگجو اکٹھے کر سکتا ہے۔دیہات میں آباد لوگوں کو پر امن اور خاموش رکھنے کے لیے طالبان خوف کا ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔اپنے کنٹرول میں علاقوں میں طالبان نے لڑکیوں کے ا سکولوںکو کام کرنے کی اجازت دے رکھی ہے مگر تجزیہ کاروں کے خیال میں یہ اجازت سیاسی مقاصد کے لیے ہے ورنہ طالبان کے نظریات میں کوئی نرمی نہیں آئی۔طالبان امور کے ایکسپرٹ ایشلی جیکسن کے خیال میں طالبان سمجھتے ہیں کہ میدانِ جنگ میں وہ پہلے سے بھی زیادہ طاقتور ہو چکے ہیں۔شراکتِ اقتدار اور جمہوریت ان کے سیاسی کلچر میں ممنوع ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر