وجود

... loading ...

وجود
وجود

سچ سے خوف

پیر 05 اپریل 2021 سچ سے خوف

کوئی مانے، نہ مانے،بہانے تلاش کرے،لاکھ عذر تراشے، الفاظ کے گورکھ دھندے میں الجھاکررکھ دے یا جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے کا ہنر جانتاہویا پھر واقعات کے سیاق وسباق بدلنے پر قادرہو اس سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ سچ ایک بہت بڑی قوت ہے سچائی کو وقتی طورپر دبایا جا سکتاہے لیکن دوام اسی کو حاصل ہے یہ الگ بات کہ دنیا دار کاغذکے پھولوں سے خوشبو تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ سقراط نے اپنے ہاتھوں زہرکا پیالہ پی لیا، عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب کیا گیا نبی ٔ اکرم ﷺکے دندان مبارک شہید کردئیے گئے،کہتے ہیں سرمدنے اپنا پوش اتاردیا تھا،منصور بھی معتوب ٹھہرا درحقیقت دنیا میں ہمیشہ سچ کے ساتھ ایسا ہی سلوک روا رکھا گیا ہے ۔لوگ سنتے، سمجھتے اور دیکھتے ہیں اس کے باوجود بیشتر سچائی کا ساتھ دینا پسندنہیں کرتے امام حسینؓ کوخود لوگوںنے مکتوب بھیجے،ساتھ دینے کاعہدکیا لیکن عملاًبے وفائی کے مرتکب ہوئے اورآج بھی کوفیوں کے اس کردارکو پسندنہیں کیا جاتا جبکہ نیزے پر قرآن کی تلاوت کرنے والا سربلندہے درحقیقت وقت کے ساتھ ساتھ سچ کی عظمت میں اضافہ ہوتاچلا جارہاہے لیکن سامنے کی بات اکثر لوگوںکی سمجھ میں نہیں آتی کہ آج دنیاکا ماحول ہی ایساہوگیاہے سچ پر جھوٹ اس قدر غالب ہے کہ حقائق مسخ ہوتے چلے جارہے ہیں ہم دنیا داروںمیں سچ سننے،بولنے اوربرداشت کرنے کا حوصلہ نہیں سچی بات تو یہ ہے کہ ہم سب سچ سے خوفزدہ ہیں،ہمیں ڈر لگتاہے سچ بولاتو نہ جانے کون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی ۔
آج دنیاپر جھوٹ کی حکمرانی ہے، جھوٹ کا کاروبار عروج پرہے،جھوٹ بلکہ سفید جھوٹ اچھا لگتاہے سچ بیشترکو پسندہی نہیں۔ازل سے جھوٹ۔۔ سچ کے خلاف برسرِ پیکارہے۔۔خیراور شرکی جنگ جاری ہے حالات جیسے بھی ہوں، نتیجہ جو بھی نکلے تاریخ کے صفحات اٹھاکر دیکھ لیجئے فتح ہمیشہ سچ کی ہوئی ہے اللہ تعالیٰ کا توحکم ہے کہ سچ کو جھوٹ کے پردے میں مت چھپائو ۔۔۔لیکن ہر جگہ جھوٹ کی حکمرانی ہے عدالتوںمیں جھوٹے گواہ اورجھوٹے مقدمے افراط میں ہیں حکمران، جج، وکیل ،سائل،مدعی سب کچھ جانتے ہوئے بھی بے بس ہیں اس استحصالی نظام نے اس اندازسے سسٹم کوجکڑرکھاہے کہ کوئی پرنہیں مار سکتاپس جھوٹا سچا اور سچا جھوٹا بن گیاہے اور اس پر اترانا فیشن بن گیا یہ سب کچھ اللہ کے احکامات کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔پاکستانی معاشرے میں تو جو جتنا جھوٹ بولے اتنا کامیاب سمجھا جاتاہے چندماہ قبل ایک سیاستدان نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ میں سچ بولوںگا حالانکہ اس کے لیے الفاظ کی تکرارکی ضرورت نہیں قومی رہنمائوںکو ہر حال میں سچ بولنا اور سچ کا ساتھ دینا چاہیے اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ سیاستدان رات دن جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں اور انہیں اس میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی اورسیاسی کارکن ہیں کہ وہ اپنے لیڈرکی ہر سچی جھوٹی بات کا دفاع کرتے دکھائی دیتے ہیں یہ اس سے بھی بڑا المیہ ہے کہ انہیں سچ بولنے کی توفیق ہی نہیں ہوتی سناہے جب انسان مسلسل جھوٹ بولنا اپنا شعار بنا لیتاہے تو پھراس کے دل و دماغ پر مہر لگادی جاتی ہے۔۔ جبکہ سفیدجھوٹ بولنا پاکستانی حکمرانوںکا وطیرہ بن چکاہے ،جھوٹے وعدے،بلند و بانگ دعوے اور سبزباغ دکھانا ان کی گھٹی میں پڑاہواہے ان کے اس طرز ِ عمل نے کرپشن کو بے انتہافروغ دیاہے بیوروکریسی،فوجی ڈکٹیٹروں، افسرشاہی ، بیشتراپوزیشن رہنمائوں، اکثرمذہبی سیاستدانوں، کئی سرمایہ داروں اور روایتی جاگیرداروں پر مشتمل اشرافیہ بھی کسی سے پیچھے نہیں ان تمام کے تمام نے اس ملک کو جی بھرکر دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور اربوں کھربوں بیرون ممالک منتقل کردئیے اور ستم بالائے ستم کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔۔ ہر وقت جمہوریت،پاکستان اورمذہب اور اخلاق کا راگ الاپنے والوں نے اس قوم کو اتنے دھوکے دئیے ہیں جس کی نظیر دنیا کے کسی خطے میں نہیں ملتی ہوگی یہ لوگ اتنے جھوٹے ہیں کہ جھوٹ بھی ان کو دیکھ کر منہ چھپا لیتاہے ،جھوٹ پر جھوٹ بولنے والوںکو شیطان کا پیروکارکہا جاتاہے کمال ہے یہ لوگ پھر معزز اور ہمارے آئیڈیل ہیں ان کے حق میں دلیلیں دیتے ہیں،بحث و مباحثہ کرتے ہیں ، احتجاجی مظاہروں کی رونق دکھائی دیتے ہیں،کبھی ریلیاں نکالتے ہیں، جلسے جلوسوں میں شرکت کرتے ہیں زندہ باد کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے لیکن یہ غور نہیں کرتے کہ ان کی ’’حیرت انگیز ترقی‘‘ کے پیچھے کون سا راز پوشیدہ ہے؟ ۔۔۔یا ان کے پاس کون سی گیڈر سنگھی ہے کہ ان کی دولت بڑھتی ہی چلی جاتی ہے جبکہ عام آدمی کی حالت کیسی ہے ؟ حالات دن بہ دن کیوں بگڑتے چلے جاتے ہیں؟ جھوٹ کا کاروبارکرنے والوںکے بچے بھی منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں ان کو غریبوںسے کیا سروکار؟۔۔ان کے حالات سے کیا غرض؟۔۔۔ٹٹول کر دیکھیں،سوچ سمجھ کر جواب دیں کاغذ پرنہ لکھیں چلو انگلیوںپرہی شمار کرلیں۔
پاکستان پرہی موقوف نہیں تیسری دنیا کو بھی چھوڑیں انسانی حقوق کی دن رات دعوے کرنے والے ممالک کو ہی لے لیجئے وہاں کی پارلیمنٹ،سینیٹ کے ممبران سے لے کر صدر ،وزیر ِ اعظم تک کسی ایک کا لائف ا سٹائل عام آدمی جیساہے۔۔۔ یقینا ایک بھی نہیں ۔۔پھر ان کا عوام سے محبت کا دعویٰ سراسر جھوٹا، من گھرٹ اور حقائق کے منافی ۔۔یہ پرلے درجے کے جھوٹے پھر ہمارے لیڈر۔۔ لوگوں کو ان کی حقیقت معلوم ہو جائے تو ان کو سنگسارکرنے سے بھی دریغ نہ کریں جھوٹ ایک بری عادت ہے اشرافیہ اسے ترک کرنے کوتیار نہیں حالانکہ اللہ رب العزت نے جھوٹوںپر لعنت بھیجی ہے لیکن ہم مسلمانوںکو تو غوروفکرسے کوئی سروکار ہی نہیں ہے ہم سب کو سوچنا چاہیے۔ایک اہم بات یہ ہے کہ قول و فعل کا تضادبھی جھوٹ کی علامت ہے، اسی لئے ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے100جھوٹ بولناپڑتے ہیں پھر بھی بات نہیں بنتی دراصل جھوٹ ہمارے معاشرے میں اس قدر سرایت کر چکاہے کہ کوئی سچی بات کرے لوگ یقین ہی نہیں کرتے۔انتخابات کے نتائج میں بھی جھوٹ کا سہارالیا جاتاہے ووٹ کسی کوپڑتے ہیں اور جیت کوئی اور جاتاہے اور ایسے شخص کو کیا کہیے مبارک بادیں وصول کرتے ہوئے بھی اس کا ضمیر نہیں جاگتا اب تلک پاکستان میں ہونے والے تمام بلدیاتی و عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے گئے ہارنے والوںنے نتائج تسلیم کرنے سے انکارکردیا درحقیقت دھاندلی ۔کو۔۔جھوٹ کی منظم کوشش کہا جا سکتاہے ایوب خان کے مقابلہ میں محترمہ فاطمہؒ جناح کو دھاندلی سے ہرا دیا گیا۔ذوالفقارعلی بھٹو نے عام انتخابات کروائے تو 9جماعتوںکے اتحادنے احتجاجی تحریک چلاکر ان کے اقتدارکا خاتمہ کردیا۔میاں نواز شریف نے بے نظیر بھٹو اور بے نظیر بھٹونے ایک دوسرے کے خلاف احتجاجی تحریک چلائی الغرض کہ ہر حکومت پر اپوزیشن نے دھاندلی کاالزام لگایا او ر یہ سلسلہ اب تک درازہے اس قوم سے جمہوریت، مذہب، سیاست اور اصلاحات کے نام پر دھوکہ کیا گیا عوام کو بے وقوف بنانا معمول بن گیا جھوٹ کی سیاست نے ملک کو اتنے مسائل سے دوچارکررکھاہے کہ اس کی تلافی ناممکن ہے ،یہ جھوٹ کی سیاست کاہی کیا دھرا ہے کہ حکمرانوںکی تجوریاں بھرتی جارہی ہیں اور عام آدمی دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان ہے اشرافیہ وسائل پر قابض ہے اس کا سارے سسٹم کی بنیادہی جھوٹ پر کھڑی کی گئی ہے ،اس معاشرے میں سچ کو ثابت کرنا پڑتاہے اسی بات کے باعث ثابت قدمی پر قائم رہنا مشکل ہے سچ کا ساتھ دینے والوں کا نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے یہی افراد انسانیت کے ماتھے کا جھومرہیں ہرشخص سچ سے خوف زدہ ہے جو زبان سے اقرار نہیں کرتا اس کا دل ضرور گواہی دیتا ہے سچ ایک بہت بڑی قوت ہے سچائی کو وقتی طورپر دبایا جا سکتاہے جھوٹ نے آخرکار فناہوناہے آپ بھی مان لیں آخری فتح سچ کی ہونی یقینی ہے یہ الگ بات کہ دنیا دار کاغذکے پھولوں سے خوشبو تلاش کرتے پھرتے ہیں دنیا میں منی لانڈرنگ کرنے والے ہوںیاپھر بلیک منی سے مال کمانے والے، ذخیرہ اندوز،ہوس کے مارے سرمایہ دار یاپھر ٹیکس چور اور ان کے حواری سب کے سب لاکھ تاویلیں دیں ،جتنے چاہے اپنے کرتوتوںپر پردہ ڈالیں وہ بے نقاب ہوجائیںتو کچھ حواس باختہ ہوجاتے ہیں اور کچھ انتہائی ڈھٹائی سے جھوٹ بولتے رہتے ہیں کہاجاتاہے ایک جھوٹ کو چھپانے کیلئے جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہوئے انہیں شرم نہیں آتی ہے وہ باتیں بنارہے ہیں لیکن وہ اپنے اندرکے خوف پریشان ہیں کہ کہیں چہروں سے عیاں نہ ہو جائے شاید اسی لیے نظریں ملاکر بات کرنے سے گریزاں ہیں کیونکہ بات ہی ایسی ہے آپ کا کیا خیال ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر