وجود

... loading ...

وجود
وجود

بدلتے تیور

بدھ 03 مارچ 2021 بدلتے تیور

امریکی صدرکی تبدیلی سے ایران کی بجائے سعودی عرب کے لیے مسائل بڑھنے لگے ہیں ٹرمپ نے صدر کے ساتھ اسلحہ کے تاجر بھی رہے مگر اب لگتا ہے نئی قیادت کے پیش نظر معاشی اہداف کے ساتھ انسانی حقوق کا تحفظ بھی ہے یہ الگ بات ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی صرف ایسے ممالک میں نظر آتی ہے جہاں مفادات کم ہوں جوتزویراتی حلیف ہوں وہاں قتلِ عام ہو یا گرفتاریاں لب کشائی سے گریز کیا جاتا ہے یہ دوہرا معیار ہی جنوبی ایشیا میں واضح نظر آتا ہے۔

مشرقِ وسطیٰ میں شاہ فیصل کے بعدسعودی قیادت نے ہمیشہ امریکی طرفدارہو کر منظورِ نظر کا درجہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرقِ وسطیٰ کا قصد کیا تو سعودی عرب نے اسلحے کی بڑی ڈیل سے مہمان کادل جیتنے کی کوشش کی کیونکہ دس ارب ڈالر سے امریکی اسلحہ ساز فیکٹریوں میں بڑے پیمانے پر کام شروع ہوا مگر اب امریکی تیور بدل رہے ہیں دونوں ممالک کے تعلقات میں سردمہری اور کھنچائو سا ہے قطر کے بائیکاٹ کے ایام میں بھی سعودی قیادت کوامریکی رویے سے شاک لگاواشنگٹن نے دوحہ سے فاصلہ رکھنے کی بجائے قربت بڑھائی اب بھی باربارحملوں کے باوجودریاض کے تقاضے پرامریکا نے حوثی باغیوں کو دہشت گرد قرار نہیں دیا بلکہ اب تو ایسی افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ حوثیوں سے امریکا مراسم اُستوار کر چکاہے تاکہ علاقے میںبحری قزاقوں کو قدم نہ جمانے دیا جائے اور سمندری تجارت بلاروک ٹوک جاری رہے اٹھائیس فروری اور یکم مارچ کوچوبیس گھنٹوں کے دوران سعودی عرب پر سات ڈرون اور میزائل حملے ہوئے جس کی امریکا نے مذمت تک نہیں کی جو سے دونوں ممالک میں بڑھتے فاصلے کاثبوت ہے سعودی عرب کو اسلحے کی فراہمی میں تعطل آنے لگا ہے وجہ کیا ہے عالمی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین جواب کے حوالے سے مخمصے کا شکار ہیں کیونکہ اتنی جلدی دوقریبی اتحادیوں کے تعلقات میں بگاڑخلافِ توقع ہے برسوں سے خطے میں امریکی مفادات کے محافظ سے اچانک بے رُخی کی بادی النظر میں کوئی وجہ نظر نہیں آتی مگر ریاستوں کے تعلقات اصول یا کسی ضابطہ اخلاق کی بجائے مفادات کے تابع ہوتے ہیں اسی لیے وقت کے ساتھ تعلقات میں اُتارچڑھائو آتارہتا ہے ۔

وائٹ ہائوس کی ترجمان جین سکی نے رواں ہفتے ہی یہ عزم ظاہر کیا کہ دیرینہ تعلقات کی بناپراگر سعودی عرب پر حملہ ہوتا ہے تو ہم سعودیہ کا ساتھ دیں گے اور اِس حوالے سے جلد خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے صدرجوبائیڈن رابطہ کرنے کا ارادہ ہے مگر امریکی نبض شناس کہتے ہیں کہ جو بائیڈن کے رابطے کی بڑی وجہ ترکی میں سعودی عرب کے سفارتخانے میں مارے جانے والے معروف صحافی جمال خاشقجی کا قتل ہوسکتا ہے کیونکہ پہلی بارامریکی انٹیلی جنس نے کانگرس کو پیش کی جانی والی رپورٹ کے مندرجات میں ولی عہدشہزادہ محمدبن سلیمان کانام لیا ہے جسے سعودی عرب نے مسترد کرنے میں تاخیر نہیں کی دوسری طرف متحدہ عرب امارات ،کویت ،بحرین ،خلیجی تعاون کونسل اور عرب پارلیمنٹ نے بھی امریکی رپورٹ پر سعودی موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودیہ کی وجہ سے علاقائی امن برقرارہے مگر امریکاکا خیال مختلف ہے بظاہر وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن نے بھی رپورٹ پیش ہونے کے بعد سعودی عرب سے تعلق کو اہم قراردیتے ہوئے مشترکہ مفادات کے لیے مملکت کے دفاع کا عزم ظاہر کیا ہے لیکن بیان اور عمل میں کافی تضاد ہے خطے پر نظر رکھنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ امریکی قیادت کے لہجے میں آنے والی تلخی کی وجوہات میں ایک سعودی عرب میں بڑے پیمانے پر ہونے والی پکڑدھکڑ بھی ہے کیونکہ کچھ ایسے افراد پر بھی سختیاں کی گئی ہیں جو امریکا کے منظورِ نظر ہیں لیکن ولی عہد شہزادہ محمد نے سختی کرتے ہوئے کاِس پہلو کو قطعی اہمیت نہیں دی انھوں نے بدعنوانی کے نام پر اقدامات سے نہ صرف مستقبل میں اقتدار کے لیے خطرہ کا باعث بننے والوں سے جان چھڑالی ہے بلکہ نیوم کے نام سے نیا شہر بسانے کے لیے بھی اربوں ریال کا بندوبست کر لیاہے جس پرمریکی ناخوش ہیں اور ولی عہد پر دبائو ڈال کر امریکیوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے والوں سے نرمی چاہتے ہیں ۔

یمن میں آئینی حکومت کے دفاع کے لیے قائم عرب اتحادی فوج کا کہنا ہے کہ دس فروری کو حوثی باغیوں نے ابہاکے بین الاقوامی ہوئی اڈے پر جو میزائل حملے کیے جس میں ایک سویلین مسافر طیارے کو نقصان پہنچا تاہم حکام نے جہاز پر لگنے والی آگ اور دیگر نقصان پرچاہے جلد ہی قابو پا لیا مگربڑے پیمانے پر حملوں کی طاقت کسی تیسری قوت کے بغیر ممکن نہیں عرب اتحاد کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ حوثی باغیوں کو ہتھیار اور مالی مدد میں ایران ملوث ہے وگرنہ طویل لڑائی کی صلاحیت اور اہلیت نہ تھی مگر خدشات والزامات کی نئی امریکی انتظامیہ کو کوئی پرواہ نہیں بلکہ اُلٹا وہ ایران سے جوہری معاہدے کے احیا کے لیے کوشاں ہے حوثیوں پر پابندی سے گریز اور ایران کے خلاف کسی نوعیت کی کاروائی سے پرہیز سے سعودی قیادت کو پریشانی لاحق ہے کہاں ایران سے جوہری معاہدے میںسعودیہ کردار کا خواہشمند تھا کہاں کردار دینا تو درکنا راب سرے سے الگ تھلگ کر دیاگیا ہے جس سے ولی عہد اور شاہ سلمان ناخوش ہیں اور امریکی انتظامیہ کو اپنی طرف مائل کرنے کی کاوشیں ثمر آور نہ ہونے کی بنا پر عارضی طور پر ہی سہی کا سلسلہ روک چکے ہیں ۔

امریکااور اسرائیل دونوں ہی ایران کو جوہری ہتھیاروں سے روکنے پر بظاہرمتفق ہیں لیکن عملی طور پر کچھ کرنا نہیں چاہتے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے دوٹوک لہجے میں کہا ہے کہ صبر کی بھی حدود ہیں ایران پر عائدپابندیاں نہیں اُٹھائیں گے مگر ساتھ ہی معاملہ سفارتکاری اور بات چیت سے حل کرنے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں جب ایرانی جنرل قاسم سلمانی کو بغداد ائرپورٹ کے قریب نشانہ بنایا گیا تو ایران نے جوابی کاروائی کے دوران میزائل برسائے جس پر امریکا نے حیران کن صبروتحمل کا مظاہرہ کیا لیکن سعودی عرب کی بات ہو تو دس ارب ڈالر کا اسلحہ خریدنے کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ نے دفاع کی طاقت سے محرومی کا الزام لگاکرتضحیک کی اسی روش پر موجودہ انتظامیہ بھی گامزن ہے اسرائیلی وزیرِ دفاع بینی گینٹز بھی ایران کو جوہری ہتھیاروں سے روکنے کی تیاری کا کام ذاتی جنگ نہیں اتحادیوں سے مل کر کام کرنے کے لیے پُرعزم ہیں اور یہ اتحادی کون ہیں ظاہر عرب امارات کے سوا اور کون ہو سکتا ہے؟مگر شام پرفضائی حملوں کے دوران املاک اور سویلین آبادی کو بے دریغ نشانہ بنایا جاتا ہے مطلب ہے قول وفعل میں تضاد ہے ایرانی حکام جوہری سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے اِدارے آئی اے ای اے سے تعاون ختم کرنے کی دھمکی دیتے ہیں تو جواب میں مزمتی بیان سامنے آنے کے سوا خاموشی رہتی ہے ممکنہ طورپر امریکہ اور اسرائیل کومسلم امہ میں تفرقہ بڑھانے سے غرض ہے اسی لیے وہ کوئی ایسا قدم اُٹھانے کو تیار نہیں جس سے ایران کمزور ہوبلکہ مضبوط ایران کی موجودگی مشرقِ وسطیٰ میں اہداف کے حصول کے لیے ذیادہ اہم ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ سعودی قیادت دبائوکا سامنا کرنے کے لیے ثابت قدم رہتی ہے یا ملک سے قدامت پسندی ختم کرنے اور امریکی کٹھ پتلی کا کرداراداکرنے پر آمادہ ہوجاتی ہے بادی النظر میں امریکی تیوربدل چکے ہیں اور سعودیہ کو ایران جبکہ ایران کو سعودیہ کاخطرہ دکھا مفادات کے حصول کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار وجود منگل 19 مارچ 2024
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار

نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر وجود منگل 19 مارچ 2024
نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر

اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل وجود منگل 19 مارچ 2024
اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل

اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر وجود پیر 18 مارچ 2024
اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

نازک موڑ پر خط وجود پیر 18 مارچ 2024
نازک موڑ پر خط

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر