وجود

... loading ...

وجود
وجود

ہاتھی اور ڈریگن کا رقص کب تک جاری رہے گا؟

پیر 22 فروری 2021 ہاتھی اور ڈریگن کا رقص کب تک جاری رہے گا؟

جنگ کے بارے میں عموماً ایک مسلمہ اُصول یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ’’جنگ میں پہلی گولی کس نے چلائی ہے یہ تو سب ہی کو معلوم ہوتا ہے لیکن آخری گولی کس کی طرف سے اور کس مقام پر چلائی جائے گی ،اس بارے میں کسی کو کچھ خبر نہیں ہوپاتی‘۔یاد ش بخیر ! کہ چین نے جنگ کے بارے میں کہے گئے برسوں پرانے ا س مقولے کو وادی گلوان میں بھارت کے ساتھ ہونے والے معرکہ میں مکمل طور پر غلط ثابت کردیا ہے ۔جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ وادی لداخ میں بھارتی افواج کے خلاف جنگ کی پہلی گولی چین نے چلائی تھی اور اَب تازہ ترین خبر موصول ہوئی ہے کہ اس معرکہ کی آخری گولی بھی چین نے ہی چلادی ہے ۔ جبکہ پہلی گولی اور آخری گولی کے درمیان بھارتی افواج اور بھارت کی سیاسی قیادت کو عسکری اور سفارتی محاذ پرکس طرح سے اُلجھا کر ہزیمت اور شکست سے دوچار کرنا ہے ۔یہ سب روزِ اول ہی سے چین کے علم میں تھا۔مگر چین کی بہترین جنگی حکمت عملی ،سفارتی دُور اندیشی اور زبردست منصوبہ بندی نے بظاہر پیچیدہ عالمی سیاسی حالات میں ناممکن دکھائی دینے والی جنگی فتح کو ممکن بنادیا اور بھارت ،چینی افواج کے قبضے میں اپنا ہزاروں کلومیٹر کا علاقہ چلے جانے کے باجود بھی’’سفارتی اُف ‘‘ تک کرنے کی پوزیشن بھی نہیں رہا ۔حیران کن بات تو یہ ہے کہ بھارتی سرکار اُلٹا اپنی عوام کو میڈیا کے ذریعے بہلاوا دینے کی ناکام کوشش کررہی ہے کہ ’’ بھارت کی شکست ،دراصل چین کی شکست ہے‘‘۔

ہوسکتا تھا کہ بھارتی وزیراعظم نریندری مودی کے لایعنی قسم کے اس مبنی بر جھوٹے دعوی کو بھارتی عوام درست تسلیم بھی کر لیتے ،مگر مودی سرکار کے لیے مصیبت یہ ہوئی کہ بھارتی افواج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے والے سابقہ افسران نے بھارتی حکومت کی جانب سے وادی گلوان کے بارے میں پیش کیے گئے جھوٹ کا پردہ یہ کہہ کر فاش کردیا کہ ’’ چین نے وادی لداخ میںبھارتی افواج کو جنگ کے میدان میں نہ صرف بُرے طریقے سے شکست سے دوچار کیا ہے بلکہ ہزاروں کلومیٹرز پر محیط بھارتی علاقے پر قابض بھی ہوچکاہے اور چین کے قبضے میں چلے جانے والا یہ وہ اہم ترین علاقہ ہے ، جس پر مستقبل میں بھارت کے دفاع کا تمام تر انحصار تھا‘‘۔نیز بھارت کے چند عسکری ماہرین کا تو یہ تک کہنا ہے کہ ’’ عموماً جو جنگیں میدان میں ہار دی جاتی ہیں ،انہیں مذاکرات کی میز پر جیت لیا جاتا ہے مگر نریندرمودی اس قدر نااہل اور بزدل نکلے کہ وہ چین سے وادی لداخ کے عسکری میدان میں تو خیر سے ہار ے ہی تھے ،مگر شومئی قسمت کہ مذاکرات کی میز پر بھی چین سے بُرے طریقے سے ہار چکے ہیں‘‘۔اگرچہ اس طرح کی باتیں کرنے والوں کی بھارتی میڈیا میں خوب کردار کشی کرتے ہوئے انہیں غدار تک ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مگر اس کے باجود بھارتی عوام کی اکثریت یہ ہی سمجھتی ہے کہ چین کے ساتھ وادی لداخ میں ہونے والی جنگ پر نریندر مودی جھوٹ بول رہے ہیں اور درست موقف وہی ہے جو بھارتی افواج کے سابق افسران سوشل میڈیا یا بلاگز کے ذریعے بھارتی عوام کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

دوسری جانب چین نے بھی رواں ہفتے بھارتی فوجیوں کے ساتھ وادی گلوان میں ہونے والی جھڑپ اور تصادم کی ویڈیو جاری کر دی ہے۔چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز پر جاری کردہ اس ویڈیو میں چین اور بھارتی فوجیوں کو رات کے اندھیرے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے اور چینی فوجیوں کے ہاتھوں کیلوں والے ڈنڈوں ،نوکیلے پتھروں سے بھارتی فوجیوں کی برے طریقے سے درگت بنتے ہوئے صاف ملاحظہ کیا جاسکتاہے۔نیز اس ویڈیو میں ہلاک ہونے والے ان چار چینی فوجیوں کو سلامی پیش کرنے کا منظر بھی شامل ہے، جو بھارتی افواج کے ساتھ تصادم میں شدید زخمی ہونے کے بعد ہلاک ہوگئے تھے۔ علاوہ ازیں چین کی جانب سے جاری کردہ اس ویڈیو میں بھارتی سرحد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ’ ’اپریل کے بعد سے ہی بھارتی فوج پرانے طے شدہ معاہدوں کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ انھوں نے پل اور سڑکیں بنانے کے لیے سرحد کو پار کیا اور چینی سرحد پر صورتحال تبدیل کرنے کے لیے من مانی کوششیں کیں جس کے نتیجے میں سرحد پر کشیدگی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔جس کے جواب میںدونوں ملکوں کے درمیان معاہدوں کا لحاظ کرتے ہوئے ہم نے بات چیت سے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی لیکن جب بھارتی افواج باز نہیں آئیں تو پھر ضروری اقدامات اُٹھانا ہم پر لازم ہوگیا ہے‘‘ ۔ چین کی جانب سے اس ویڈیو کے جاری ہونے کے بعد عالمی ذرائع ابلاغ میں اہم ترین سوال یہ اُٹھایا جارہاہے کہ آخر چین نے یہ ویڈیو ایک ایسے وقت میں ہی کیوں جاری کی ہے۔ جبکہ چین اور بھارت کے درمیان حال ہی میں ’’ڈس اینگیج ‘‘کے نام سے ایک معاہدہ طے پایا ہے۔
ہمارے خیال میں چین اس ویڈیو کے ذریعے کم ازکم تین واضح پیغامات دنیا بھر کو خاص طور پر بھارت اور نئی امریکی حکومت تک پہنچانا چاہتاہے اول یہ کہ ’’چین کے عالمی حریف اس ویڈیو میں یہ دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ ہم نے کس مہارت اور کامیابی کے ساتھ بغیر جدید اسلحے کے اپنے خلاف لڑنے والی فوج کا بھرکس نکال دیا ہے اگر ہم اسلحہ استعمال کریں گے تو مخالف فوج کے سپاہیوں کی کیا درگت بناسکتے ہیں ‘‘۔دو م یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ ’’ چینی قوم کے بارے میں یہ مغالطہ ذہن سے نکال دیا جائے کہ وہ صرف تجارت اور کاروبار کے راستے سے ہی نئی عالمی طاقت بننے کی منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں ‘‘۔ تیسرا پیغام ویڈیو میں یہ واضح ہے کہ ’’چین بہر صورت اپنے اُن تمام علاقوں کو اپنے قبضہ میں لے کر رہے گا ،جن مقامات پر چین کا کبھی بھی دعویٰ رہا ہے‘‘۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چینی ذرائع ابلاغ پر جاری ہونے والی اس نئی ویڈیو میں زیادہ تر وہی مناظر ہیں جو سوشل میڈیا پر موجود اس حوالے سے بنائی جانے والی پرانی ویڈیوز میں شامل ہیں ۔ مگر اس کے باجود بھی اس ویڈیو کو دنیا بھر اس قدر دلچسپی سے دیکھا جارہا ہے۔ جیسے یہ واقعہ گزشتہ برس جون کے مہینے میں نہیں بلکہ رواں ماہ فروری میں کسی دن رونما ہوا ہے ۔ دراصل چینی فوجیوں کے ہاتھوں بھارتی فوجیوں کی بننے والی درگت کی ویڈیوز مختلف حیلے بہانوں سے بار بار عالمی ذرائع ابلاغ پر شائع ہونے سے بھارتی افواج کامورال بھی خطرناک حدتک زوال کا شکار ہوتاہے اور یہ ہی وہ بنیادی ہدف ہے جس کے حصول کے لیے چین کی جانب سے یہ ویڈیو عالمی ذرائع ابلاغ کو جاری کی گئی ہے۔
اگرچہ چین اور بھارت کے مابین طے پانے والے ’’ڈس اینگیج ‘‘ کے معاہدہ کو مودی سرکار اپنی ایک بڑی سفارتی کامیابی کے طور پر پیش کررہی ہے اور بھارت کے سفارتی حلقوں کی جانب سے تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ جیسے چین اپنے موقف سے دستبردار ہوکر اپنے قبضے میں لیے گئے بھارتی علاقے سے اپنی افواج کو پیچھے ہٹانے میں رضامند ہوگیا ہے۔ یقینا مذکورہ بالا معاہدہ کی رو سے بھارت اور چین دونوں ملکوں کی افواج ہی اپنی اپنی موجودہ پوزیشنوں سے پیچھے ہٹائی جارہی ہیں لیکن یاد رہے کہ چینی افواج کے پیچھے ہٹنے کے بعد جس سرحدی علاقے پر معاہدہ کی رو سے چینی افواج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے براجمان ہو جائے گی وہ علاقہ بھی بھارت کا ہی ہوگا ۔یوں سمجھ لیجئے کہ اگر گزشتہ برس چین نے900 مربع کلومیٹر کا بھارتی علاقہ پر بذور طاقت قبضہ کیا تھا تو معاہدہ کے نتیجہ میں چینی افواج چند کلومیٹر ضرور پیچھے کی جانب ہٹ جائیں گی لیکن چین کے پاس اَب بھی بھارت کا تقریباً 800 مربع کلومیٹر سے زائد کا سرحدی علاقہ قبضہ میں رہے گااور وہ بھی بھارت کی مرضی اور منشا سے ۔ یعنی بادی النظر میں دیکھا جائے تو لائن آف ایکچوئل پر ہونے والے تصادم میں جیت بہرحال چین کو ہی حاصل ہوئی ہے اور لائن آف ایکچوئل کا وہ سرحدی علاقہ جو اونچائی پر ہونے کی وجہ سے ماضی میں بھارت کے لیئے زبردست عسکری اہمیت کا حامل ہوا کرتا تھا، اَب مکمل طورپر چین کے زیرانتظام جاچکاہے۔

جس کی وجہ سے بھارتی افواج اور اُن کی عسکری تنصیبات ہمہ وقت چینی افواج کی زیرنگرانی رہیں گی اور اگر کبھی دوبارہ سے چین اور بھارت کے درمیان کسی بھی قسم کے عسکری تصادم کے امکانات پیدا ہوتے ہیں تو غالب امکان یہ ہی ہے کہ چینی افواج کے اونچائی پر ہونے کی وجہ سے بھارتی افواج کو ہونے والے ممکنہ جانی اور مالی نقصانات پچھلے برس کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوں گے۔نیز بھارت اور چین کے درمیان طے پانے والے اس نئے معاہدہ سے یہ بات بھی پوری طرح سے واضح ہوگئی ہے کہ بھارت ،چین کے ساتھ کسی بھی محاذ پر اُلجھنے کی نہ تو صلاحیت رکھتا ہے اور نہ ہی ارادہ ۔شاید اسی لیے بھارتی ہاتھی نے چینی ڈریگن کو وادی لداخ میں مل جل کر رقص کرنے کی دعوت دی ہے ۔ بظاہر مل کر ساتھ رقص کرنے کی یہ دعوت چینی ڈریگن کی جانب سے قبول کرلی گئی ہے لیکن بھارتی ہاتھی اور چینی ڈریگن کا یہ رقص کب تک جاری رہے گا۔ اس کا سارا درامدار پاکستانی شاہین کے ساتھ روا، رکھے جانے والے بھارتی ہاتھی کے رویے پر ہوگا۔ کیونکہ ایک بات تو ساری دنیا جانتی ہے کہ چینی ڈریگن اپنے دوست پاکستانی شاہین سے دوستی نبھانے کے لیے صرف ایک ہاتھی ہی کیا پورے جنگل کو بھی آگ لگاسکتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر