وجود

... loading ...

وجود
وجود

رہتا ہے مگر ایک عجب خوف سا دل کو

بدھ 17 فروری 2021 رہتا ہے مگر ایک عجب خوف سا دل کو

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اقتدار کی مدت اور نوعیت پر اُٹھائے گئے سوال سے واضح ہے کہ وہ بھی طویل مدتی اقتدار کی خواہش میں مبتلا ہوچکے۔ عام طور پر یہ آرزو نظام سے زیادہ فرد کی ناگزیریت کی نفسیات سے آلودہ ہوتی ہے۔اسی نفسیات کی تہ داریوں سے انگریزی محاورے نے مختلف شکلیں اختیار کرتے ہوئے پھر یہ الفاظ اپنائے:
The graveyards are full of indispensable men
(قبرستان ناگزیر لوگوں سے بھرے پڑے ہیں)۔
برصغیر کی عمومی نفسیات یہی ہے۔ یہاں بت پرستی کے غلبے نے تمام مذاہب کو متاثر کیا۔ یہاں تک کہ اسلام کے نام لیوا بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکے۔ اس نفسیات نے یہاں مقابر پرستی اور اکابر پرستی کے امرض بوئے۔ توحید ورسالت کا جگمگاتا پیغام بھی تقلید کی تحویل میں چلا گیا۔ اچھے بھلے لوگ نظمِ مذہب کے بجائے افراد کی قید میں دکھائی دیتے ہیں۔ سیاست میں بھی یہ مرض اپنی پوری خباشتوں، رکاکتوں اور حقارتوں کے ساتھ پھل پھول رہا ہے۔ یہاں رہنما دیوتا بن گئے۔ سیاسی جماعتیں مختلف خاندانوں کا نجی کاروبار بن گئیں۔ ٹکٹوں کی تقسیم ایسے ہوتی ہے جیسے منڈی میں اشیاء کی فروخت۔ سینیٹ کے تازہ انتخاب میں یہ مکروہ منظر پوری طرح آشکار ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود پر حد سے زیادہ ایمان رکھتے ہیں۔ دوسری طرف سیاست کو خاندانوں کی قید سے آزاد دیکھنے کے خواہش مندعمران خان کے متاثرین کو اُن کے دورِ حکومت میں کوئی تسلی، تشفی نہ مل سکی۔ اب عمران خان یہ فرما رہے ہیں کہ ملک کا مستقبل پانچ سال کی منصوبہ بندی سے نہیں بنتا۔ اگر عمران خان اپنی ناکامی کو مدت کے مسئلے سے جوڑتے ہیں تو بالواسطہ وہ اپنے سیاسی حریفوں کے مستقل خاندانی کردار پر مہر تصدیق ثبت کردیتے ہیں۔ ایک طرف عمران خان زرداروں اور شریفوں کے باری باری، باری لینے کے خلاف کھڑے ہوئے اور اُنہیں مستقل اقتدار کی سیاست میں مبتلا ہونے پر نشانہئ تنقید بناتے رہے، جبکہ دوسری طرف وہ ترقی کے نام پر اپنا یہی کردار چینی طرزِ حکمرانی کے ماڈل پر طلب کرنے لگے ہیں۔ یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔

وزیراعظم عمران خان کو یاد کرنا چاہئے کہ وہ اقتدار میں آنے سے پہلے اس حوالے سے کیا ارشاد فرماتے تھے۔ وہ تب تبدیلی کے لیے سو دن ہی کافی قرار دیتے تھے۔ پھر اُنہوں نے یہ مدت چھ ماہ تک بڑھائی۔ عمران خان نے سریر آرائے اقتدار ہونے کے بعد انتہائی گرمجوشی سے وزراء کی کارکردگی جانچنے کے لیے مدت کا تعین بھی کردیا۔ عوام کو یہ بھی خوشخبری دی کہ ہر ماہ وزراء کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا۔ جو وزراء کارکردگی نہ دکھا سکے، اُنہیں مناصب سے علیحدہ کردیا جائے گا۔ اب خود وزیراعظم کو بھی یاد نہیں رہا کہ وہ اس حوالے سے کیا فرمایا کرتے تھے۔ وزیراعظم کا مدینہ کی ریاست کا بیانیہ بھی عملی طورپر آبرو مند نہیں ہوسکا۔ اُنہوں نے طرزِ حکومت کے حوالے سے اب چینی ماڈل کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا شروع کردیا ہے۔ یہ اقتدار کے تحفظ کی بے پناہ شدید خواہش کا نتیجہ ہے۔ درحقیقت عمران خان نے جتنی جلدی اپنے خیالات سے نجات پائی ہے، اس سے تو لگتا ہے کہ وہ مدینہ کی ریاست کے بجائے میکاؤلی کے تصور ِ حکومت پر عمل پیرا ہے۔ میکاؤلی نے اپنے حکمرانوں کو سمجھایا کہ وعدہ اگر آپ کو نقصان پہنچائے تو اُسے کبھی نہ پورا کرو۔لوگوں کو خود سے مبتلائے محبت رکھنے کے بجائے اُنہیں ڈر سے باندھو۔ کبھی اُصولوں یا قدروں کی پروا نہ کرو۔ حالات کے ساتھ خود بھی بدلتے چلے جاؤ کہ قسمت ایک طوفانی دریا ہے۔ کیا وزیراعظم نے اب تک ایسا ہی نہیں کیا؟وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی سے تبدیل کرنے سے لے کر گورنر ہاؤسز بند کرنے تک اُنہوں نے یوٹرن لینے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ اور یہی میکاؤلی سیاست کی ”روحانیت“ ہے۔
عمران خان جس طویل مدتی اقتدار اور چینی نمونے پر طرزِ حکمرانی کے حیلے ڈھونڈ رہے ہیں وہ بھی ناقص تصورات ہیں۔ دنیا میں اکثر ممالک نے طویل مدتی اقتدار کے مزے لوٹے ہیں، مگر اس سے کسی ملک کی قسمت نہیں بدلی۔ یہاں تک کہ خود چینی ماڈل بھی افراد پر انحصار نہیں کرتا، نظام پر کرتا ہے۔ عمران خان اس حوالے سے جیف ملگن (GEOFF MULGAN) کی کتاب ”گڈ اینڈ بیڈ پاؤر“ کا مطالعہ فرمائیں تو اُن پر طویل مدتی اقتدار کے نقائص واضح ہوجائیں گے۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں پاکستان بھی اُن آٹھ ممالک میں شامل تھا، جہاں سیاسی قیادت طوالت کے اعتبار سے زیادہ محفوظ تھی۔ مگر کانگو، عراق، میانمار، سوڈان، انڈونیشیا، شام، برونڈی اور پاکستان کرپٹ ممالک میں سرفہرست آتے رہے۔ سیاسی قیادت کی طوالت نے ان ملکوں کو کرپٹ ممالک سے نہیں نکالا، نہ اِ نہیں طویل مدتی منصوبوں میں کامیاب ممالک کی فہرست میں یادگار بنایا۔ بیسویں صدی کے آخری عشروں میں دنیا کے جو وسیع خطے خصوصاً مشرقِ وسطیٰ استحکام و تسلسل کے جس اقتدار کو دیکھ رہے تھے وہ عوام کے لیے باعث ابتلاء سمجھے گئے۔ عمران خان کا یہ موقف نہایت ناقص ہے اور خود پاکستان کی اپنی تاریخ سے بھی غلط ثابت ہوتا ہے۔ عمران خان اور کچھ بھی نہ کرپاتے، مگر اپنے عمل سے عوام کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوجاتے کہ وہ تبدیلی کے موقف پر دل سے کاربند ہے، تو عوام میں اُن کی پزیرائی کم نہ ہوتی۔ اس کے لیے اُنہیں طویل مدتی منصوبوں کی ضرور ت نہیں تھی۔ بہت چھوٹے چھوٹے اقدامات سے بھی وہ یہ یقین دلاسکتے تھے۔ وزیراعظم اور کچھ نہ کرتے اپنے اعلان کے مطابق گورنر ہاؤسز عوام کے لیے کھول دیتے۔ وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی کا درجہ دے دیتے۔ یہ اعلانات درست تھے یا غلط، اس بحث کو جانے دیجیے مگر یہ وزیراعظم کی زبان کے اعتبار کو تو بڑھاتے۔وہ اور کچھ نہ کرتے، اپنی کابینہ کے انتخاب سے اپنے ایجنڈے کی کامیابی کا یقین دلاتے۔ کیا چند وزراء کا انتخاب بھی ملک کے مستقبل کے طویل مدتی منصوبوں سے جڑا ہے؟ آخر کون سی مجبوری اُنہیں فیصل واوڈا اور علی زیدی ایسے لوگوں کے انتخاب پر مجبور رکھتی ہے۔ اُنہیں فواد چودھری سے بہتر کوئی متبادل کیوں نہیں ملتا؟اُن کی کابینہ میں کوئی ایک نام بھی ایسا پیش کیا جائے جو قابلِ دفاع ہو۔ کیا اس کے لیے بھی چینی طرزِ حکمرانی نافذ کرنے کی ضرورت پڑے گی۔

وزیراعظم کے جن ذاتی اوصاف کا ذکر کیا جاتا ہے، وہ کارریاست میں معاون ثابت نہیں ہوں گے۔ اگر تاریخ کے سینے میں اتر کر حکمرانوں کے ذاتی اوصاف اور ان کی کامیابیوں کے درمیان کوئی تناسب یا ربط قائم کرنے کی کوشش کی جائے تو مغربی جمہوریتوں کے تجربات میں ایک ناکامی کا سامنا ہوگا۔سابق امریکی سیکریٹری خارجہ جارج شلز کی سرگزشت میں یہ جملہ ہمیں چونکاتا ہے کہ ”یہ بات کبھی میرے پلے نہیں پڑی کہ صدر ریگن اتنی کم علمی کے باوجود اس قدر زیادہ کامیابی کیونکر حاصل کرپائے“۔ ایک کامیاب مصنف اور ذہین وفطین نکسن بمشکل ہی خود کو امریکا میں مواخذے کی کارروائی سے بچا پائے تھے۔ اُنہیں عہدہئ صدارت سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔عمران خان کے لیے اسٹیبشلمنٹ کی مستقل حمایت کوئی جادوئی نتیجہ پیدا نہیں کرسکے گی۔

ہر چند سہارا ہے ترے پیار کا دل کو
رہتا ہے مگر ایک عجب خوف سا دل کو

عمران خان کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ زرداروں اور شریفوں کے خلاف نفرت اُن کی حمایت کا مستقل اثاثہ کبھی نہیں رہ سکتی۔ یہ ”اثاثہ“ ایک حکمت سے خرچ کیا جانا چاہئے تھا۔ مگر عمران خان نے اپنا پورا زورِ حکومت اسی کو خرچ کرنے پر صرف کیا۔ حضرت علیؓ نے ارشاد فرمایا تھا: جس کی حکمت نہیں چلتی اُس کی حکومت بھی نہیں چلتی“۔ عمران خان کی حکومت نہیں چل رہی۔ حکمت قوتِ بازو کا متبادل ہوتی ہے۔ افلاطون نے اسے خدائی عطیات میں سب سے بڑھ کر قرار دیا تھا۔ حکمت کا پہلا اظہار زبان سے ہوتا ہے۔ دوسری صدی عیسوی کے یونانی ماہر فلکیات بطلیموس (Ptolemy)نے اس مضمون پر عجیب بات کہہ رکھی ہے: حکمت کا درخت دل سے اُگتا ہے، اور زبان سے پھل دیتا ہے“۔عمران خان کی زبان کے پھل سے سب ہی آشنا ہے، اور دل کے تو کیا ہی کہنے!!اگر عمران خان اس سے آگاہ ہوتے تو اس قدر مہنگائی اور ناکام حکومت کے تجربے کے بعد کم ازکم طویل مدتی اقتدار کی پھلجڑی چھوڑنے کے لیے یہ وقت منتخب نہ کرتے۔
٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر