وجود

... loading ...

وجود
وجود

درپیش خطرات پر یکساں موقف کی ضرورت

جمعرات 21 جنوری 2021 درپیش خطرات پر یکساں موقف کی ضرورت

جمعہ13جنوری کو بلوچستان کے ضلع لورالائی میں پاکستان جمہوری تحریک کے تحت بڑا و بھر پورجلسہ ہوا۔عوام بڑی تعداد میں شریک ہوئی تھی۔ مولانا فضل الرحمان ایک روز پہلے کوئٹہ پہنچے بعد ازاں سڑک کے راستے لورالائی گئے ۔ جلسہ میں محمود خان اچکزئی شریک تھے۔ اسی روز افواج پاکستان کے سر براہ جنرل قمر جاوید باجوہ کوئٹہ میں تھے۔ سدرن کمانڈ کے اندر ان کی مصروفیت اہم نوعیت کی تھی۔ ہزارہ برادری کے سیاسی اکابرین ، علماء اور مچ واقعہ میں قتل ہونے والے ہزارہ مزدوروں کے اہل خانہ سے ملاقا ت کی۔ ان سے خطاب کیا۔ صوبے کے اندر امن وامان اور افغانستان سے جڑے سراحدات بارے انہیں بریفنگ دی گئی ۔ کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی شریک تھے۔ ملک کو درپیش تخریب کاری اور دہشت گردی کے سدباب کے لیے فوج اور انٹیلی جنس اداروں کی خدمات گراں قدر ہیں۔ فورسز اس جنگ میں بھاری نقصان اٹھاچکی ہے۔ اس بات میں شک نہیں کہ معاشرے کے دوسرے طبقات کے ساتھ فوج اور اس کے ماتحت ادارے بھی دہشتگردوں کے ہدف ہیں۔ ملک کو غالباً تین عشروں سے دہشتگردی کا سامنا ہے، مگر بد قسمتی سے سیاسی سطح پر ایک رائے قائم نہ ہوسکی ہے۔ سیاسی جماعتیں سیاست میں فوج اور اداروں کے کردار پر معترض ہیں۔ ان کے رویوں سے ایسا بھی لگتا ہے کہ دہشتگردی و امن اور ملک کی سلامتی فوج و سیکورٹی اداروں ہی کا درد سر ہے ۔

یقیناا افواج سمجھتی ہیں کہ ملک کی سلامتی ، تحفظ اور امن کے قیام پر وہ کسی صورت سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ اورجب حساس نوعیت کے معاملات پر مصلحتوں کے چادر اوڑھے جائیں گے، سکوت کا وطیرہ اپنایا جائے گا، تو ایسے میں لا محالا ریاست ایسے اقدامات پر مجبور ہوتی ہے کہ جہاں قانون اور عدل کے تقاضے بہ امر مجبوری پیش نظر نہیں رہتے ۔ اگر سول حکومتیں اور سیاسی جماعتیں درپیش نازک صورتحال پر قومی مصالح کے تحت واضح اقدام و موقف اپنائے گی تو متفقہ قومی رائے سامنے آئے گی۔ یوں دائرہ کار و حدود ر واضح ہو ں گی۔عوام کے سامنے حقیقی منظر نامہ صاف ہوگا ۔ بیرون و اندرون سے کسی کے لیے خلل و تخریب کی گنجائش نہیں رہے گی ۔یعنی فاٹا کی صورتحال ، افغانستان کے اندر سے پاکستان مخالف عملیات اور بلوچستان کی صورتحال پر ایسی ہی سیاست ہوئی ہے۔ بعض جماعتوں نے فی الواقع ریاست متصادم ترجیحات اپنا رکھی ہیں۔ گویا ریاست مخالفت میں سیاست کرتی ہے۔ پی ڈی ایم کے اندر علی الخصوص پشتونخوا ملی عوامی پارٹی جیسے کابل حکومت کی ترجمانی پر بھی مامور ہو۔ بلوچستان نیشنل پارٹی سے شدت پسندوں کی حمایت کا تاثر ابھر تا ہے ۔ مچھ میں مزدور وں کا دہشتگردوں نے قتل کردیا بجائے دہشتگردوں کی مذمت کے ریاست اور سیکورٹی اداروں کی طرف موڑنے کی کوششیں ہوئیں یعنی سیاسی جماعتیں اگر صدق دل سے سیاست اور جمہوری عمل میں کسی قسم کی مداخلت وو قدغنوں کے آگے سیسہ چلائی دیوار بنیں ۔لازم ہے کہ سر حد پار سے مداخلت ، دہشتگر دی علیحدگی شدت و انتہا پسندی جیسے مسائل بھی اپنی بات اور پالیسیوں کا حصہ بنا ئیں ،اسے اپنی ذمہ داری سمجھیں۔ یوں کسی کو درپیش ان مسائل کو جواز بنانے کا موقع نہ ملے گا ۔

پی ڈی ایم کے اندر کی جماعتوں کے خیالات ، نظریات اور مقاصد میں بعدالمشرقین ہے۔بعض کے جملے متنازع ٹھرے ہیں۔ یہ اتحاد ملک کے اندر آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی ، شفاف انتخابات کی درست طور بات کرتی ۔ مگرا نہوں نے ملک کو ہمسایہ مملک سے درپیش مسائل و مشکلات کو حقیقت کی نظر سے بیان نہیں کیا ہے ۔ آئے روز سرحد پار بھارت اور افغانستان کی طرف سے حملے ہوتے ہیں ، سپاہی گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔دہشت گردی کے طرح طرح کے واقعات ہوتے ہیں۔ پوری دنیا پر عیاں ہے کہ افغانستان نے اپنے اندر پاکستان مخالف مذہبی ، نسلی و لسانی گرو ہ پال رکھے ہیں۔ جمعہ15جنوری2021ء کو افغانستان کے شمال مشرقی صوبے کنڑ کے علاقے شنکرئی میں ٹی ٹی پی کے دو اہم کمانڈر نور گل جو مسلم یار مومند کے نام سے بھی پکارے جاتے تھے، اور رشید عرف ماماسڑک کنارے نصب بم دھماکے میں ہلاک ہوئے ۔ دونوں جماعت الاحرار کے لوگ تھے ۔ اول الذکر کے پاس تنظیم کے مالی امور کی ذمہ داری تھی ۔دوسرا نائب امیر تھا۔ پچھلے سال اگست میں جماعت الاحرار اور حزب الاحرار نے ٹی ٹی پی کے ساتھ انضمام کرلیا تھا۔ ایک کمانڈر وحید گل کے زخمی ہ ہونے کی اطلاع ہے۔ یہ گروہ، داعش اور بلوچ شدت پسند تنظیمیں افغانستان میں آزادانہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوئی ہیں۔ بلکہ کابل نے تو پشتون علاقوں میں نئی قوم پرست جماعت متعارف کرائی ہے ۔پی ڈی ایم کے اندر بعض جماعتیں کابل میں بھار ت کے اثر و رسوخ کی حامی ہیں۔جو نہیں چا ہتیںکہ امن کی ایسی صورت بنے کہ جس کے نتیجے میںبعد امریکی و نیٹو فورسز کی انخلائ،بھارت اور اس کے خفیہ ادارے کی بے دخلی ہو۔ البتہ توجہ کے لائق یہ پہلو بھی ہے کہ کیوں ملک کی بڑی جماعتیں علی الخصوص مسلم لیگ نواز ، جمعیت علماء اسلام اور پیپلز پارٹی ان اہم و حساس معاملات میں حکومت اور سیکورٹی اداروں سے دوری پر جاچکی ہیں ۔ یہ صورت انتشار ، بد مزگی ،ا بہامات،مشکوک اور بد اعتمادی کا موجب بنی ہے ۔ قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہوں گی ۔ حدود و اختیارات سے تجاوز کی بجائے اس کی پاسداری ہونی چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر