وجود

... loading ...

وجود
وجود

سونے کا آدمی

جمعه 15 جنوری 2021 سونے کا آدمی

’’نام تو سنا ہی ہوگا۔۔‘‘ اگر یہ جملہ کسی ایک شخصیت پر پوری طرح سے صادق آسکتا ہے تو بلاشبہ اُس شخص کا نام سیٹھ عابد ہی ہوسکتاہے۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ کو ڈھونڈنے سے بھی ملک بھر میں کوئی شخص ایسانہیں مل سکے گا ،جس نے کبھی سیٹھ عابد کا نام نہ سنا ہو ،یا جسے سیٹھ عابد کی ذات سے منسوب کوئی افسانوی قصہ ازبر نہ ہو ۔ سیٹھ عابد نے ساری زندگی ایک جیتے جاگتے دیومالائی کردار کی طرح گزاری ،کسی کے نزدیک وہ ہیرو تھا توکسی کے نزدیک ایک ولن ۔کسی نے اُسے سونے کا اسمگلر جانا، تو کسی نے سونے کا بیوپاری۔کوئی اُسے محب وطن سمجھتا تھا تو کوئی اُسے اپنا محسن۔کسی نے ساری زندگی سیٹھ عابد سے حسد کیا تو کسی نے رشک ہی رشک۔یوں سمجھ لیجئے کہ محبت و نفرت ،شہرت و گمنامی ، نیک نامی اور بدنامی کے جتنے پھیکے اور شوخ رنگ دستیاب ہوسکتے تھے ، سیٹھ عابدکی پرکشش تصویر میں وہ سب کے سب بدرجہ اتم پائے جاتے تھے ۔

شخصی شہرت کی آخری حد اور معراج تو یہ ہے کہ پاکستان میں سیٹھ عابد کا نام اکثر وبیشتر ضرب المثل کے طور پر بھی لیا جاتاہے ، یعنی جب بھی کوئی شخص اپنی دولت کی نمائش کرنے کے لیے شیخی بگھارنے کی کوشش کرتا ہے تو اُسے طنزاً کہہ دیا جاتا ہے کہ ’’ ہم جانتے ہیں کہ تم کتنے بڑے سیٹھ عابد ہو‘‘۔ افسوس صد افسوس کہ رواں ہفتے دست اجل نے اپنے سفاک قلم سے اُسی بڑے سیٹھ، سیٹھ عابد کی داستانِ حیات کی آخری سطر بھی رقم طراز کردی اور یوں تمام عمر زمانے بھر کو حیرت استعجاب میں مبتلا رکھنے والا شخص، ایک رات کراچی میں انتہائی خاموشی کے ساتھ اپنے خالق حقیقی سے جاملا۔سیٹھ عابد کی زندگی کی طرح اُن کی اچانک موت بھی سب کے لیے حیرانی و پریشانی کا باعث تھی ۔ سیٹھ عابد کے انتقال پرملال پر وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کی جانب سے ٹوئٹ کیے جانے والے تعزیتی کلمات سے اندازہ لگانا کافی سہل ہوگا کہ اُن کی موت دردِ دل رکھنے والے پاکستانیوں کے لیے کتنا بڑا سانحہ ہے۔

دراصل سیٹھ عابد سونے سے بنے ہوئے ایک ایسے آدمی تھے ،جن کی طبیعت اور فطرت میں ذرہ برابر بھی کھوٹ شامل نہیں تھا ۔منافقت اور ریاکاری اُن میں نام کو بھی نہ تھی ۔وہ جیسے تھے ،ویسے ہی نظر آنا چاہتے تھے ۔سیٹھ عابد کاپیشہ ہی نہیں بلکہ اُن کی نیکیاں بھی پراسراریت کے دبیز پردوں میں چھپی ہوتی تھیں۔ یہ ہی وجہ ہے وطن ِ عزیز پاکستان میں بننے والے ہر بڑے عوامی و فلاحی منصوبے کی بنیاد میں وافر حصہ اُن کی کمائی کا بھی ضرور شامل ہوتا تھا لیکن خبر کم ،کم لوگوں کو ہی ہوتی تھی۔ شوکت خانم کینسر اسپتال میں اُن کی جانب سے کیے جانے والی مالی اعانت کا اعتراف تو خود عمران خان اپنے تعزیتی ٹوئٹ میں کرہی چکے ہیں ۔ لیکن کراچی میں عباسی شہید اسپتال ،جناح پوسٹ گریجویٹ اسپتال اور گونگے ،بہرے بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے حمزہ فاؤنڈیشن جیسے اَن گنت انسان دوست اداروں کا قیام بھی سیٹھ عابد کی فیاضانہ طبیعت کے ہی مرہون ِ منت ممکن ہوسکا۔

سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ انہوں نے بے پناہ دولت ،طاقت ور حیثیت ،عالمگیر شہرت اورزبردست اثرو رسوخ ہونے کے باوجود بھی کبھی براہ راست یا بلاواسطہ عملی سیاست میں قدم رکھنے کی کوشش نہیں کی ۔کہا جاتاہے کہ سیاست دانوں کے ساتھ اُن کے ستارے ملتے ہی نہ تھے،مثال کے طور پر سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے سیٹھ عابدکو گرفتار کرنے کے لیے ایک خصوصی ٹریبونل بھی قائم کیا اور انہیں گرفتار کرنے کے لیے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا ’’موسٹ وانٹڈ ‘‘آپریشن بھی لانچ کیا ۔مگر لاکھ کوشش کے باوجود بھی انہیں کوئی بھی حکومت زیردام لانے میں کامیاب نہ ہوسکی ۔تا آنکہ 1977 میں سیٹھ عابد نے اپنی مرضی سے صدر ضیاء الحق کی حکومت کے سامنے رضاکارانہ طور پر ہتھیار ڈال دیئے ۔ یہ ہی وہ وقت تھا جب اُن کا نام پہلی بار پاکستان کے جوہری پروگرام کے ساتھ گونجنے لگا ۔زبان زدِ عام ہے کہ ایٹم بم بنانے کے خواب کو عملی تعبیر میں بدلنے میں سیٹھ عابد کی بین الاقوامی ’’ہنرمندی‘‘ کا بھی بہت بڑا اور ناقابل فراموش کردار رہاہے۔
واضح رہے کہ سیٹھ عابد کے ساتھ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے بغض و عناد نے بھی اُنہیں پاکستان میں ایک ہیروکے درجے پر فائز ہونے میں خوب مدد بہم پہنچائی ۔بھارت میں موسٹ وانٹڈ ہونے کے بعد وہ پاکستان میں موسٹ فیورٹ بن گئے اور پاکستانی ان کا تذکرہ اپنی نجی محفلوں میں ایک فلمی ہیرو کی طرح کرنے لگے۔ ایک ایسا ہیرو جو تاریک دنیا کا باسی ہوتے ہوئے بھی اُن کے ملک کے دشمنوں کو دنیابھر میں رسوا اور شرم سار کررہاہے۔ ویسے اس طرح کی سینہ گزٹ کہانیاں، کافی حد تک ،مبنی بر حقیقت بھی تھیں۔کیونکہ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق سیٹھ عابد دنیا بھر میں سونے کے کاروبار میں بھارت کی اجارہ داری ختم کرنے کا بنیادی سبب تھے ۔ خود بھارتی میڈیا بھی کئی بار اس بات کا برملا اعتراف کرچکا ہے کہ سیٹھ عابد نے سونے کی اسمگلنگ کو بامِ عروج تک پہنچا کر کے اُن کے تجارتی مفادات کو شدید ترین نقصان پہنچایا ہے۔علاوہ ازیں خود سیٹھ عابد بھی اپنے سونے کے بیوپار کے بارے میں کہا کرتا تھا کہ ’’میں سونے کا اسمگلر نہیں ہوں ، میں توبس ! اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی شادی کے لیے سستا سونے فراہم کرنے کی ایک کوشش کرتاہوں ‘‘۔کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ’’ جب سے سیٹھ عابد نے اپنا پیشہ ترک کیا ہے ،تب سے ہی گویا ملک میں سونے کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں ۔ کیونکہ سونے کو امیروں کی تجوری سے نکال کر غریب کی دہلیز تک پہنچانے کو بدنام زمانہ ہنر فقط انہیں کے پاس تھا‘‘۔

سیٹھ عابد سے منسوب اتنی ساری کہانیوں اور افسانوں میں کس قدر سچ یا کتنا جھوٹ موجود ہوگا ۔کوئی نہیں جانتا اور شاید اَب کوئی جان بھی نہ سکے کیونکہ جس نے اَن سارے راز وں سے پردہ اُٹھا نا تھا، اَب و ہ خود ہی منوں مٹی تلے محوخرام ہے۔ بہرحال ایک بات طے ہے کہ سیٹھ عابد کل بھی ہماری پراسرار گفتگو کا ایک اہم جز تھا اور یقینا آئندہ بھی رہے گا۔دراصل سیٹھ عابد سے منسوب جھوٹی سچی ساری کہانیاں اتنی دلچسپ ،محیرالعول اور وطن کی محبت میں شرابور سی لگتی ہیں کہ ان قصوں کو جب بھی کوئی سنائے گا، سننے والے کو لطف ضرور آئے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر