وجود

... loading ...

وجود
وجود

بھارت میں مذہبی آزادی کچلنے کے قوانین

منگل 12 جنوری 2021 بھارت میں مذہبی آزادی کچلنے کے قوانین

(مہمان کالم)

رام پنیانی

بھارت کے دستور نے ہمیں اپنے مذہب پر عمل اس کی تبلیغ کرنے اور دوسروں تک اپنے مذہب کو پہنچانے کا حق دیا ہے اور جہاں تک شخصی آزادی اور فرد کے حق کا معاملہ ہے اسے یہ حق حاصل ہے کہ بھلے کوئی بھی مذہب اختیار نہ کرے لیکن اب جبکہ ہمارا ملک گرتی ہوئی قومی مجموعی پیداوار، بدترین معاشی صورتحال، بڑھتی قیمتوں، بے روزگاری میں اضافے، کسانوں کی خودکشیوں اور سردست کسانوں کے احتجاج کا سامنا کررہا ہے‘ ایسے میں ہماری بعض ریاستیں ان تمام کی فکر کرنے کے بجائے بین المذہب شادیوں اور تبدیلی مذہب کو لے کر بہت زیادہ فکرمند ہیں۔ بعض ایسی ریاستیں ہیں جو تبدیلی مذہب کو روکنے کے لیے قوانین متعارف کروارہی ہیں یا قوانین بنانے میں مصروف ہیں۔ پچھلی چند دنوں سے تبدیلی مذہب کے مسئلہ پر جگ ہنسائی ہو رہی ہے، لیکن سردست اس طرح کی بین المذہب شادیوں کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ ان شادیوں کے پیچھے بھی ایک مقصد کارفرما ہے اور وہ تبدیلی مذہب ہے۔ بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں خاص طور پر اترپردیش تبدیلی مذہب کی کارروائی میں ملوث لوگوں کو سزا دینے کے لیے قوانین بنانے میں مصروف ہے۔ ایک طرف حکومت اس طرح کی کوششیں کررہی ہے اور دوسری طرف اس کے متوازی رکھشک جیسے گروپس بین المذہب شادی کرنے والے جوڑوں کو ہراساں کرتے جارہے ہیں۔ہندو مذہب سے کسی دوسرے مذہب میں داخل ہونے کا عمل ایک بار پھربھارت میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ اتر پردیش حکومت ان تنظیموں کے خلاف ایک آرڈیننس لانے کی بھی منصوبہ بندی کررہی ہے جو تبدیلی مذہب کے عمل میں ملوث ہیں۔ اس آرڈیننس کے مطابق تبدیلی مذہب میں ملوث تنظیموں کی رجسٹریشن منسوخ کردی جائے گی اور انہیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس آرڈیننس میں یہ کہا گیا ہے کہ تبدیلی مذہب سے دو ماہ قبل مقامی انتظامیہ کو نوٹس دیا جائے۔ مقامی انتظامیہ اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ آیا مذہب تبدیل کرنے کا اختیار ہے یا نہیں اور جو ارادہ کیا ہے وہ قانونی ہے یا نہیں؟ اور حد تو یہ ہے کہ تبدیلی مذہب کرنے والوں اور اس میں مدد کرنے والوں پر ثبوت فراہم کرنے کا بوجھ بھی ڈالا جائے گا۔ اس آرڈیننس میں خصوصی طور پر درجہ فہرست قبائل و طبقات اور خواتین کا حوالہ دیا گیا ہے۔ کئی ریاستیں اب انسدادِ تبدیلی مذہب قوانین لانے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ کئی ایسے انفرادی واقعات پیش آئے ہیں جہاں جوڑے اور ا ن کے رشتہ داروں کو تبدیلی مذہب کے نام پر مختلف گروپوں کی جانب سے ہراساں و پریشان کیا جارہا ہے۔ ریاستیں جن قوانین کے تحت مقدمات درج کررہی ہیں ان میں سے زیادہ تر دستورِ ہند کے منافی ہیں۔ آزادی کی جدوجہدمیں آریہ سماج نے ان تمام افراد کو ہندو مذہب میں واپس لانے کے لیے شدھی تحریک شروع کی تھی جنہوں نے ہندو مذہب ترک کرتے ہوئے دوسرے مذاہب قبول کیے تھے۔ اگر دیکھا جائے تو 20 ویں صدی میں تبدیلی مذہب کا سب سے بڑا واقعہ ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر اور ان کے حامیوں کا ہندو مذہب ترک کرکے بدھ مذہب اختیار کرنا ہے۔ تبدیلی مذہب کا وہ واقعہ ہمیں تبدیلی مذہب کی حقیقی وجوہات کے بارے میں بتاتا ہے۔ جہاں تک ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر کا ہندو مذہب ترک کرنے کا سوال ہے امبیڈکر اعلیٰ تعلیم یافتہ ایک دلت تھے اور بیرونِ ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب وہ واپس ہوئے تو انہیں اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کی جانب سے اختیار کردہ رویے اور چھوت چھات کے طریقے پر بہت دکھ ہوا۔ ان کے ساتھ اچھوتوں جیسا سلوک کیا گیا۔ سماجی انصاف کے لیے اپنی جدوجہد اور اپنے لیے ایک باوقار زندگی کے لیے انہوں نے واضح طور پر کہہ دیا کہ ہندو کبھی ایک قوم نہیں ہوسکتے کیونکہ ان میں ذات پات کی اونچ نیچ پائی جاتی ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ہندوازم پر برہمنی اقدار چھائے ہوئے ہیں، یہی وجہ سے وہ یہ اعلان کرنے پر مجبور ہوئے کہ میں ایک ہندو پیدا ہوا جو میرے ہاتھوں میں نہیں تھا لیکن میں ایک ہندو کی حیثیت سے نہیں مروں گا۔ امبیڈکر نے ببانگ دہل ہندو مذہب ترک کرتے ہوئے بدھ مذہب اختیار کیا۔ ان کے ساتھ ایک‘ دو نہیں بلکہ تین لاکھ سے زائد ہندوئوں نے بدھ ازم قبول کیا۔ اگر اس وقت موجودہ دور کے قوانین ہوتے تو پھر امبیڈکر اب تک سلاخوں کے پیچھے ہوتے۔ دستورِ ہند کے بانی ڈاکٹر امبیڈکر آزادی کے حامی تھے۔ ایسی آزادی جس میں اپنے عقیدے کے انتخاب کا حق حاصل ہو۔ اگر دیکھا جائے تو ماضی کی طرح جس طرح لوگوں نے اپنے پسند کے مذہب کا اور عقیدہ کا انتخاب کیا لیکن اب لوگ اس طرح کی پریکٹس سے متعلق اپنے حق کا استعمال کرنے سے گریز کررہے ہیں چونکہ ماضی میں لوگوں کو اپنے پسند کے مذہب و عقیدہ پر چلنے کی مکمل آزادی تھی اسی لیے ہندوستان میں اسلام، عیسائیت، سکھ ازم اور بدھ ازم کو پنپنے میں مدد ملی۔ مگر آج اگر کوئی بھارت میں اپنا مذہب تبدیل کرنے کا خواہاں ہوتا ہے تو اس کی راہ میں کئی رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں۔

حالانکہ تاریخ میں چھوٹے بڑے تمام کے دامنِ اسلام میں پناہ لینے کے بے شمار واقعات پائے جاتے ہیں۔ ہندوستانی تاریخ نے تبدیلی مذہب کا دو وجوہات کے باعث مشاہدہ کیا۔ ایک وجہ ذات پات کی بنیاد پر لوگوں کو حقوق سے محروم کرنا، سوامی وویکا نندا ہمیں بتاتے ہیں کہ ہندوستان کو محمڈن یعنی اسلام کے ماننے والوں نے محروم طبقات اور غریبوں کے نجات دہندہ کے طور پر فتح کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے لوگوں کا پانچواں حصہ اسلام کے ماننے والا بن گیا۔ یہ کسی تلوار کا کام نہیں تھا بلکہ مساوات کا درس تھا جس کے نتیجہ میں وہ لوگ مسلمان ہوتے گئے اور یہ سوچنا کہ یہ کام تلوار اور آگ کا ہے‘ پاگل پن کی انتہا کے سوا کچھ نہیں۔ اس کے علاوہ دوسری جو وجہ ہے غریب و محروم ہندوئوں کی خواہش کہ وہ زمین داروں اور پجاریوں کے تسلط سے آزاد ہوں۔یہی وجہ ہے کہ مغربی بنگال کے کاشتکاروں میں آپ ہندوئوں سے زیادہ مسلمانوں کو دیکھیں گے کیونکہ وہاں بہت زمیندار تھے۔

(سوامی وویکا نندا کی منتخب تحریریں، جلد نمبر 3، صفحہ نمبر 294، ایڈیشن نمبر 12، 1979ء )
مذہب تبدیل کرنے کے کئی واقعات روحانی سفر اور سکون کی تلاش کے ساتھ ساتھ سماجی روابط کے نتیجہ میں پیش آئے۔ یہاں تک کہ بعض فاتح بادشاہ شکست خوردہ بادشاہوں یا راجائوں کے لیے یہ شرط عائد کرتے تھے کہ وہ مذہب تبدیل کریں۔ جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے اس سرزمین پر صوفی سنتوں نے اسلام کو متعارف کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے حسنِ اخلاق اور سچائی کے باعث بے شمار انسانوں نے دامنِ اسلام میں پناہ لی۔ ایسی ہی ایک دلچسپ مثال دلیپ کی ہے جو ایک صوفی سنت کے ایسے معتقد ہوئے کہ وہ دلیپ کمار سے اے آر رحمن بن گئے۔ ہندوستان میں تبدیلی مذہب کی جو دوسری وجہ ہے وہ عیسائی مشنریز کی سرگرمیاں ہیں۔ یہ مشنریز دیہی علاقوں میں صحت و تعلیم کے مسائل پر کام کررہی ہیں۔ عیسائی پاسٹر گراہم ا سٹینس کو ان کے دو بچوں کے ساتھ 1999ء میں صرف اس لیے زندہ جلا دیا گیا تھا کیونکہ ان پر لوگوں کا مذہب تبدیل کروانے کا الزام تھا۔ اسی طرح 2008ء میں کندھامل جیسے علاقوں میں عیسائی دشمن تشدد برپا کیا گیا۔ عیسائیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے بڑے پیمانے پر مذہب تبدیل کروائے لیکن 2011ء کی مردم شماری کے مطابق ان کی آبادی میں عیسائیوں کی آبادی صرف 2.3 فیصد تھی۔ اب سیاسی طور پر دوسرے مذاہب اختیار کرنے والے ہندوئوں کو ہندو ازم میں واپس لانے کے لیے مختلف اقدامات کیے جارہے ہیں مثال کے طور پر آگرہ میں جھونپڑ پٹیوں میں رہنے والے لوگوں سے راشن کارڈ دینے کا وعدہ کیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

انتخابی منظرنامہ سے غائب مسلمان وجود پیر 22 اپریل 2024
انتخابی منظرنامہ سے غائب مسلمان

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 3) وجود اتوار 21 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 3)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر