وجود

... loading ...

وجود
وجود

مچھ سانحہ اِداروں کا امتحان

هفته 09 جنوری 2021 مچھ سانحہ اِداروں کا امتحان

مچھ سانحہ سے پورے ملک میںغم واندوہ کی کیفیت ہے کوئٹہ سے جنوب کی سمت مچھ کے مقام پر ہونے والی انسان کشی سے سبھی سوگوار ہیں بظاہر آنسو رواں نہیں دل خون کے آنسو رورہے ہیں یہ گیارہ کان کنوں کی ہی نہیں انسانیت کی موت ہے دن بھر کی محنت و مشقت سے تھکے ماندے سوئے مزدوروں کو جگا کرسفاکانہ طریقے سے زبح کرنے کی ذمہ داری داعش نے قبول کرلی ہے اِس ظلم و بربریت کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے یہ سانحہ ثابت کرتا ہے کہ دہشت گردوں کاابھی مکمل خاتمہ نہیں ہوا باقیات دوبارہ منظم ہوکر سرگرم ہو چکی ہیں جن کا خاتمہ اِداروں کی استعداد کا متحان ہے ۔

تین جنوری کو پیش آنے والے مچھ سانحہ سے ایف سی اور لیویز کے زمہ داران کو صبح آگاہی ملی اور چار جنوری سے ہزارہ کمیونٹی لاشیں سڑکوں پر رکھ کردھرنا دیے انصاف کی طلبگار ہے صوبائی حکومت کی بے حسی سے معاملات مزید بگڑے سانحہ کے وقت وزیراعلٰی جام کمال اگر نجی دورے پر دبئی میں دعوتیں اُڑا رہے تھے تو وزیرِ داخلہ میر ضیا اللہ لانگو آرام کرنے اسلام آباد تھے کوئٹہ میں موجود کسی وزیر یا مشیر نے متاثرہ خاندانوں سے ملناتک گوارہ نہ کیا جس سے مظاہرین سیخ پا ہوئے اور صوبائی حکومت کے وفد سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا دھرنے کے شرکا نے وفاقی نمائندوں وزیرِ داخلہ شیخ رشید اورڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی طرف سے قاتلوں کی گرفتاری کی یقین دہانی ،دس لاکھ فی کس ادائیگی اور متاثرین کو ساتھ لے جاکر وزیراعظم سے ملاقات کی پیشکش بھی مسترد کردی سانحہ کا تقاضہ تو یہ تھا کہ عمران خان مصروفیات چھوڑ کر کوئٹہ جاتے اور غم واندوہ میں ڈوبے مقتولین کے ورثہ کو پُرسہ دیتے لیکن انھوں نے دوغیرسنجیدہ افراد کو بھیج کرلاپرواہی کی انتہاکردی بعد میں وزیراعظم نے اپناطیارہ دیکر وفاقی وزیر علی زیدی اور زلفی بخاری کو کوئٹہ بھیجا مگر دھرنے کے شرکانے وزیراعظم یا آرمی چیف کے آنے تک لاشیں دفن کرنے سے انکار کردیا ،لگے کاری زخموں پر مرہم کی بجائے حکومتی بے حسی دراصل اشتعال کا باعث ہے۔

بلاول اور مریم جیسے اپوزیشن رہنمائوں نے دھرنے میں آکر سوگوار خاندانوں سے تعزیت کی لیکن عمران خان کب کوئٹہ آئیں گے کچھ واضح نہیں ابہام ہے وزیر اعظم کے نہ آنے کا نقصان یہ ہوا ہے کہ غم سے چور دھرنے کے شرکا کو اِداروں کے خلاف بڑھکانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور مطالبات میں کچھ غیر متعلقہ نکات شامل کرادیے گئے ہیں نیزمچھ سانحہ سے فرقہ وارانہ کشیدگی پیداکرنے کا خطرہ پیدا ہونے کا خدشہ ہے نیوزی لینڈ میں ہونے والی دہشت گردی کے بعد مقتولین کی دلجوئی کرنے خاتون وزیرِ اعظم مسلمانوں کے پاس جا سکتی ہیں تو ہمارے دلیر وزیرِ اعظم ہمدردی ویگانگت کے دوبول بولنے سے جانے کیوں قاصر ہیں ؟جتنی تاخیر ہوگی ملک میں اتحاد و یگانگت کی فضا کو نقصان پہنچے گا۔

مچھ سانحہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے یہ ایسی وحشت ودرندگی ہے جس کا ذمہ دار انسان کہلانے کا حقدار نہیںمزید ظلم یہ کہ اپنے ہی اِداروں پر اُنگلیاں اُٹھائی جارہی ہیں یادرکھیں ملک میں داعش جیسے شدت پسند گروہ اگر متحرک ہیں تو اُن کی پشتبان بدنامِ ِزمانہ خفیہ ایجنسیاں را، این ڈی ایس ہیںمقصد پاکستان کو غیر مستحکم کر نا ہے پاک فوج کی بے پناہ قربانیوں سے ملک میں انتہا پسند عناصر کی کمر ٹوٹ چکی اسی لیے اب وہ سامنے کی بجائے چُھپ کر وار کرنے لگی ہیں جن سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے پاکستان کسی ایک فرقے یا مزہب کا ملک نہیں یہاں ہر بسنے والا برابر اورلائق تکریم ہے ہمارآئین سب کی جان ومال کا تحفظ دیتاہے اِس لیے شر پسند عناصر کے مزموم اِرادوں کوناکام بنانے کے لیے اپنے اِداروں کا ساتھ دیں۔

بلوچستان کو گزرے پندرہ بیس برس سے وقفے وقفے سے دہشت گردی کا سامنا ہے جس میں بلاشبہ بھارتی ہاتھ ہے ،حکومت اورادارے اعتراف کرتے ہیں افغان ایجنسیاں سہولت کارہیںاِس لیے بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کا مجرم اگر بھارت ہے تو افغانستان بھی کسی طوربری الزمہ نہیں باصلاحیت دفاعی اِداروں کو چاہیے کہ تمام وسائل بروئے کار لائیں اور ملک و عوام دشمن عناصر کا خاتمہ کریں وردی کو دہشت گردی کا باعث سمجھنے والے اغیارکے کارندے ہیں جن کو فوری کچلاجائے یہ سنپولیے اگر زہریلے ناگ بن گئے تو ملک کے پُرامن شہریوں کی جان و مال کولاحق خطرات میں اضافہ ہوجائے گا ۔

کوئٹہ میں لاشیں رکھ کر دھرنا دینے کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلوچستان میںہزارہ کمیونٹی کے علاوہ پختونوں ،پنجابیوں اور سندھیوں کو قتل کرنے کا سلسلہ کئی برس سے جاری ہے مگر فرقہ وارانہ رنگ دینا غلط ہے زمینی راستوں سے یورپ جانے والوں کو بلاتفریق قتل کیا گیا بی ایل اے جیسی تنظیم نے 2012میں سات پختون کان کنوں کو اغوا کرنے کے بعد قتل کیا تو بلوچستان ہائی کورٹ کے باہر میتیں رکھ کر دھرنا دیا گیا 2013میں علمدار شاہراہ پر ہونے والے ایک خودکش دھماکے میں ہلاک ہونے والے چھیاسی افرادکی لاشوں کے ساتھ بھی دھرنا دیا گیا اسی پاداش میں نواب اسلم رئیسانی کو وزارتِ اعلٰی سے ہٹا کر دومہینے کے لیے گورنر راج لگایا گیا مگر گورنر راج کے دوران ایک اور خود کش حملے میں 100افراد ماردیے گئے 2017میں کوئٹہ سے ہی اغوا ہونے والے دو چینی باشندوں کو بازیاب کرانے کے لیے سیکورٹی اِداروں نے بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا تو مستونگ کے پہاڑی سلسلے میں داعش جیسی شدت پسند تنظیم کے مرکزکا پتہ چلا ابھی حال ہی میں یو این کی ایک رپورٹ میں بھی اِس تنظیم کے بھارت میں کیمپوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ 2018 کی انتخابی مُہم کے دوران نواب سراج رئیسانی کو خود کش حملے میں ماردیا گیا جس سے صاف ظاہر ہے کہ امن پسند اور محب الوطنوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے ضرورت اِس امر کی ہے کہ بلوچستان کے امن کو یقینی بنانے کے لیے وطن دشمن عناصر کے خلاف اپنے اِداروں کا ساتھ دیا جائے ۔

ہمارے اِداروں کی استعداد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں محدود وسائل کے باوجودانھوں نے محیرالعقول نتائج دیے ہیں لیکن کچھ ناسمجھ لوگ مچھ سانحہ کا سیکورٹی اِداروں کو ذمہ دارٹھہرا رہے ہیں حالانکہ مچھ سانحہ سے قبل دہشت گردوں نے ہرنائی کے علاقے شاہرگ کی ایف سی چیک پوسٹ پر حملے کے دوران سات اہلکاروں کو خون میں نہلا تے ہوئے کسی نے کسی سے مسلک دریافت نہیں کیا یہ سیکورٹی اہلکار بھی کسی کے بیٹے اوربھائی تھے کسی سہاگن کے سرکاتاج اور کسی ماں کے کلیجے کی ٹھنڈک تھے مچھ جیسے روح فرسا سانحے کی شدت الفاظ میںبیان نہیں کی جا سکتی مگرسیکورٹی اِداروں پر تنقیدبہت ہی غلط روش ہے ایسا کرنا موقع کی تاک میں بیٹھے دشمن کے کارندوںکو ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے ہاتھ بٹانے کے مترادف ہے کیو نکہ دشمن ہمیں اپنے اِداروں سے بدظن کرناچاہتا ہے ا اِس لیے فرقہ واریت کا رنگ دے کرمسائل بڑھانے اور ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی بجائے اپنے اِداروں پراعتماد کیا جائے تاکہ وہ زیادہ یکسوئی اور اعتماد سے دشمن کو کارندوں سمیت نیست و نابود کرسکیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

بھارت، سنگھ پریوار کی آئیڈیالوجی کالونی وجود جمعرات 18 اپریل 2024
بھارت، سنگھ پریوار کی آئیڈیالوجی کالونی

ایرانی حملے کے اثرات وجود بدھ 17 اپریل 2024
ایرانی حملے کے اثرات

دعائے آخرِ شب وجود بدھ 17 اپریل 2024
دعائے آخرِ شب

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر