وجود

... loading ...

وجود
وجود

دریائے نیل صرف مصر کا نہیں

پیر 04 جنوری 2021 دریائے نیل صرف مصر کا نہیں

(مہمان کالم)

تھم بیسافکوڈے

گرینڈ ایتھوپین ڈیم پر مصر، سوڈان اور ایتھوپیا کے مابین سیاسی کشیدگی تاحال جاری ہے۔ دریائے نیل پر 4ارب ڈالر کی لاگت سے بننے والا یہ ہائیڈروالیکٹرک منصوبہ سوڈان سے 15کلو میٹر دور مشرق میں واقع ہے، اس کی تعمیر کا کام 2011ئ￿ میں شروع ہوا۔ اس ڈیم کیلئے پانی بلیو نیل سے حاصل کیا جائیگا، جو کہ سوڈان، مصر اور ایتھوپیا کے مابین تنازع کی وجہ ہے۔ دریائے نیل کے دو معاون دریا ہیں، سفید نیل اور بلیو نیل۔ سفید نیل کا منبع روانڈا اور برونڈی کے درمیان واقع عظیم افریقی جھیلیں ہیں؛ بلیو نیل کا منبع ایتھوپیا کی جھیل ٹانا ہے اور دریائے نیل میں بہنے والے پانیوں میں 80فیصد حصہ جھیل ٹانا کا ہے۔

دریائے نیل کے پانی کے استعمال سے متعلق برطانیا، مصر اور سوڈان کے درمیان ہونیوالے معاہدوں میں ایتھوپیا سمیت دیگر افریقی ملکوں کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا تھا، جو کہ ایک تاریخی ناانصافی تھی۔ اس حوالے سے اہم ترین معاہدہ 1959ء کا نیل واٹرز ایگریمنٹ ہے، جس میں مصر اور سوڈان کے مابین یہ طے پایا کہ دریائے نیل میں بہنے والا پانی میں سے 18.5ارب کیوبک میٹرز سوڈان، 55.5ارب کیوبک میٹرز مصر استعمال کرے گا۔ اس معاہدہ کا دفاع کرتے ہوئے مصر نے کہا کہ دیگر افریقی ملک جہاں دریائے نیل بہتا ہے، بارشیں بہت زیادہ ہوتی ہے، انہیں دریا کی پانی کی خاص ضرورت نہیں، سیلاب کے پانیوں کو فائدہ اٹھانے کے لیے وہ ڈیم بنا سکتے ہیں۔ اس کے برعکس دیگر فریق ملکوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے موسم غیر متوقع ہو چکے ہیں۔

ایتھوپیا کی معاشی شرح نمو مسلسل بڑھ رہی ہے، ایتھوپیا تیزی سے ترقی کرنیوالی افریقی معیشتوں میں سے ایک ہے۔ چین سمیت مختلف ملکوں کی ایتھوپیا میں بڑھتی سرمایہ کاری وجہ سے توانائی کی ضروریات مسلسل بڑھ رہی ہیں، جنہیں پورا کرنے کے لیے ایتھوپیا قدرتی ذرائع پر انحصار کر رہا ہے، جس میں دریائے نیل شامل ہے۔ افریقی یونین اور یونائیٹڈ نیشنز اکنامک کمیشن برائے افریقہ کے ہیڈکوارٹرز بھی ایتھوپیا میں ہے، جس کی وجہ سے افریقی سفارت کاروں کی بڑی تعداد مستقل طور پر ایتھوپیا میں مقیم ہے۔ مصر کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ آج اس کے لیے یہ ممکن نہیں کہ ایتھوپیا پر بآسانی دباؤ ڈال سکے۔ آج کے ایتھوپیا کی مضبوط فوج ہے، جو کہ صومالیہ میں باغیوں کیخلاف برسرپیکار ہے۔ افریقہ کے علاوہ دنیا کے مختلف ملکوں میں بطور امن فورس ایتھوپیا کے فوجی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ایتھوپیا کے منتخب صدر ابی احمد نوبل انعام یافتہ اور ایک فعال شخصیت ہیں۔ وہ قرن افریقہ کے ملکوں کی گورننس بہتر بنانے کے لیے علاقائی تعاون کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اریٹیریا کے صدر ایساس افورقی کے ساتھ امن معاہدے پر انہیں دنیا بھر میں پذیرائی ملی، جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے مابین طویل عرصہ سے جاری تنازع کے خاتمے کی راہ ہموار ہوئی۔

ایتھوپیا معاشی ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کر رہا ہے۔ ایتھوپیا کی ایئر لائن کمپنیاں ملک کا فخر، ادیس ابابا کا انٹرنیشنل ایئرپورٹ افریقہ کا مصروف ترین ہوائی اڈہ ہے۔ گرینڈ ایتھوپین ڈیم ایتھوپیا کی معیشت اور سیاسی استحکام کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اہل ایتھوپیا کو اس بات پر فخر ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر کے لیے زیادہ تر فنڈز انہوں نے اپنے وسائل سے پیدا کیے۔ ایتھوپیا کے قوم پرستوں کے لیے یہ ڈیم ایک نعرے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے، اس منصوبے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا ردعمل تباہ کن اور ایسی کوشش علاقائی استحکام کیلئے سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔

ایتھوپیا نے اس ڈیم کو بھرنا شروع کر دیا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ اس پر مصر اور سوڈان کا ردعمل کیا ہو گا کیونکہ دونوں اس ڈیم سے براہ راست متاثر ہوں گے۔ سوڈان اور مصر کے لیے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ دریائے نیل کے کناروں پر واقع دیگر ممالک اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ڈیم بنانے پر غور کر رہے ہیں۔ یوگنڈا کو دریائے نیل پر 1.4ارب ڈالر کی لاگت سے ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹ لگانے کا لائسنس جاری کرنے کی درخواست موصول ہو چکی ہے۔ دریائے نیل کے کنارے پر واقع دیگر ملکوں میں تنزانیہ، جمہوریہ کانگو، جنوبی سوڈان، برونڈی، کینیا اور روانڈا شامل ہیں۔

گرینڈ ایتھوپین ڈیم کی تکمیل مصر اور سوڈان کے لیے ایسے مستقبل کا آغاز ثابت ہو سکتی ہے جس کے بارے میں فی الوقت کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ مصر کو ایتھوپیا کے ساتھ بات چیت کر کے ایسی ڈیل کرنے کی ضرورت ہے جو کہ مستقبل میں دریائے نیل کے دیگر ملکوں کے ساتھ بات کے لیے ایک مثال کے طور پر استعمال ہو سکے۔ اس سلسلے میں اہل مصر کو ایتھوپیا اور دیگر صحارائی ممالک سے متعلق اپنا نسل پرستی پر مبنی رویہ تبدیل کرنا ہو گا۔ مئی 2016ء میں اقوام متحدہ کے ماحولیات سے متعلق ادیس ابابا میں ہونیوالے اجلاس میں افریقی سفارتکاروں نے اس وقت سخت احتجاج کیا جب مصری وفد کے سربراہ محمد ہاشم شوئیر نے تمام سیاہ فام باشندوں کو کتے اور غلام قرار دیا۔ شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں سیاہ فاموں سے متعلق یہ سوچ آج تک پائی جاتی ہے۔ مصری رہنماؤں کو اپنا دھمکی آمیز رویہ بھی بدلنے کی ضرورت ہے جو کامیاب مذاکرات کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ مصری صدر السیسی نے گزشتہ سال دسمبر میں فنانشل ٹائمز کو انٹرویو کے دوران کہا: ’’دریائے نیل اہل مصر کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے‘‘۔ مصر کے واحد منتخب صدر محمد مرسی کی گفتگو بھی انتہائی دھمکی آمیز ہوا کرتی تھی۔ اس موقع پر انہوں نے کہا ’’اگر دریائے نیل میں پانی کا قطرہ بھی کم ہوتا ہے، وہ کمی ہمارے خون سے پوری ہو گی‘‘۔

آج کے دور میں سیاسی ناانصافی کے خلاف ’’سیاہ زندگی اہم ہے‘‘ کے نعرے کیساتھ دنیا بھر میں تحریک چل رہی ہے۔ توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے ڈیم کی تعمیر ایتھوپیا کا حق ہے، جس کی تمام افریقی ممالک، افریقی یونین اور عالمی سطح پر سیاہ فام کیمونٹی کھل کر حمایت کرے گی۔ مصر کو اپنا رویہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، اپنے لوگوں کے بہترین مفاد میں ماضی کے معاہدوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایتھوپیا کیساتھ نئے سرے سے غیر مشروط مذاکرات کرنا ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر