وجود

... loading ...

وجود
وجود

ہومیو پیتھک استعفے

جمعرات 17 دسمبر 2020 ہومیو پیتھک استعفے

گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’’استعفے تو ہماری جیب میں موجود ہیں ،جب قیادت طلب کرے گی اُسے پیش کردیں گے‘‘۔ یعنی پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت نے ہلکا ساایک’’ سیاسی اشارہ ‘‘کیا تو استعفے سید مرادعلی شاہ کی جیب سے نکل کر آناً فاناً ہی بلاول بھٹو زرداری کی جیب میں پہنچ جائیںگے ۔ مگر سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتوں کے اراکین اسمبلی کے استعفے فقط ایک دوسرے کی جیبوں میں ہی رُلتے رہیں گے اور قومی و صوبائی اسمبلیوںکے اسپیکرز کی میز تک نہیں پہنچ سکیں گے تو آخر ایسے ’’ہومیوپیتھک استعفوں ‘‘ کا وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کی حکومت کو کیا خاک نقصان ہوگا؟ جبکہ خود ا پوزیشن رہنماؤں کو اپنی اپنی جیبوںمیں استعفے رکھ کر اِدھر اُدھرگھومنے سے کتنے’’سیاسی نفلوں ‘‘ کا فائدہ حاصل ہو گا؟ ۔ کا ش ! اس بابت بھی اپوزیشن الیون کے قائدین تھوڑا سا تفکر کرنے کی زحمت گورا کرلیتے تو اپوزیشن کے سیاسی مستقبل کے لیے کیا ہی اچھا ہوتا۔ بہرحال اپوزیشن الیون کے منافقانہ قسم کے سیاسی رویہ سے صاف معلوم ہورہا ہے کہ اپوزیشن اراکین اسمبلی کے استعفے کبھی بھی اسپیکر کی میز تک کاخطرناک ’’سیاسی سفر‘‘ طے نہیں کرسکیں گے اور اگر بہت زور مارا بھی تو بس! یہ استعفے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یعنی پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی جیب تک پہنچ کر اپنے طویل ’’سیاسی سفر ‘‘کا اختتام کردیں گے۔ کیونکہ ایک بات سے تو ساری دنیا بخوبی واقف ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی جیب میں اگر کچھ ایک بار داخل ہوجائے اور پھراُس شئے کا باہر نکل پانا کم و بیش ناممکن ہی ہوتاہے۔

اس لیے غالب امکان یہ ہی ہے کہ استعفوں کی تحریک سے اپوزیشن الیون کے اتحاد پی ڈی ایم کا شیرازہ تو ضرور بکھر کر ریزہ ریزہ ہوسکتاہے لیکن اِن ’’ہومیوپیتھک استعفوں‘‘ سے کسی بھی صورت وزیراعظم پاکستان عمران خان کو مسندِ اقتدار سے اُتارا نہیں جاسکتا۔بلکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما اعتزاز احسن کی قانونی موشگافی کے مطابق’’ اپوزیشن اگر اپنے استعفے اسمبلی کے اسپیکر کو پیش کرنے کی’’سیاسی غلطی‘‘ کرتی ہے تو وزیراعظم پاکستان عمران خان کا اقتدار ناقابل بیان حد تک مضبوط اور مامون ہوجائے گا‘۔ ذرائع بتاتے ہیں اعتزاز احسن کے اس قانونی نکتے نے اپوزیشن الیون خاص طور پر پاکستان پیپلزپارٹی کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو سخت سیاسی تشویش میں مبتلاء کردیا ہے ۔پیپلزپارٹی کی صفوں میں پیدا ہونے والی اس تشویشناک صورت حال کا پہلا ثبوت بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان مصطفی کھوکھر کے استعفے کی صورت میں سامنے بھی آچکا ہے۔دراصل مصطفی کھوکھر کا استعفا پاکستان پیپلزپارٹی کے اندر چلنے والی سیاسی آندھی کا پہلا جھکڑ ہے ۔ جس کا اولین مقصد پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کو یہ باور کروانا ہے کہ ’’مولانا فضل الرحمن کے مجنونہ جوشِ انتقام اور میاں محمد نوازشریف کے سینے میں لگی ہوئی سیاسی حسد کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے پیپلزپارٹی کے ارکین اسمبلی کو ’’سیاسی خودکشی ‘‘ کرنے پر مجبور نہ کیا جائے اور اگر کسی سیاسی مصلحت کے تحت استعفے لینا ناگزیر ہو بھی جائے تو پیپلزپارٹی کے اراکین قومی وصوبائی اسمبلی اپنے اپنے استعفے خوشی خوشی بلاول بھٹو زرداری کی جیب میں خاموشی سے رکھ تو دیں گے لیکن اس یقین دہانی کے بعد کہ اُن کے دیئے گئے استعفے بعد ازاں بلاول بھٹو زرداری کی جیب سے نکل کر اسمبلی کے اسپیکر کی میز تک نہیں پہنچیں گے‘‘۔

جہاں تک پاکستان مسلم لیگ ن کے اراکین اسمبلی کے استعفوں کا سوال ہے تو لاہورکے جلسہ کا عبرت ناک انجام دیکھ کر اظہر من الشمس ہے کہ مسلم لیگیوں کے استعفے اسمبلی کے اسپیکر تک پہنچنا تو بہت دُور کی بات رہی، اَب تو یہ استعفے مریم نواز تک بھی نہیں پہنچ سکیں گے۔ کیونکہ لاہور کے حالیہ جلسے کی ناکامی نے عیاں کردیا ہے کہ مسلم لیگی ماضی کی طرح اس بار بھی نام نہاد نظریہ یا انقلاب کا ساتھ دینے کے بجائے ’’سیاسی مفادات‘‘ کی جانب جانا زیادہ پسند فرمائیں گے اور جیسا کے سب جانتے ہیں’’سیاسی مفادات‘‘ حاصل کرنے کا امکان صرف شہباز شریف اور حمزہ شریف کی سیاسی حکمت عملی کا ساتھ دینے میں ہی ہے۔ جبکہ مریم نواز کی سیاسی شاہراہ تو کوٹ لکھپت جیل تک پہنچ کر اختتام پذیر ہوجاتی ہے۔ لہٰذا مسلم لیگی متوالے مریم نواز کے ہمراہ جیل کی سوکھی روٹی کھانے کے بجائے شہباز شریف کے سیاسی دسترخوان سے قیمے والے نان کی دعوت اُڑانا ہی پسند فرمائیں گے۔حالانکہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ شہباز شریف نیب کے چنگل سے اپنے آپ کو کس طرح سے چھڑا پائیں گے مگر اُ س کے باوجود بھی مسلم لیگیوں کو موہوم سی اُمید ہے کہ اگر مستقبل بعید میں شریف خاندان میں سے کسی فرد کے سر پر دوبارہ اقتدار کا ہما بیٹھ سکتا ہے تو وہ شہباز شریف یا حمزہ شریف تو ضرور ہوسکتے ہیں لیکن مریم نواز ہرگز نہیں ہوں گی۔

پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے اراکین اسمبلی کی کثیر تعداد کا استعفوں کی تحریک سے سیاسی لاتعلقی اختیار کرلینے کے بعد پیچھے اَب مولانا فضل الرحمن ، محمود خان اچکزئی اور انس نورانی جیسے سیاسی سورما ہی باقی بچتے ہیں ۔جو جب چاہیں اُس وقت ہی اپنے اپنے استعفے منظوری کے لیے عمران خان کے سامنے پیش کرسکتے ہیں ۔مگر مصیبت یہ ہے کہ یہ سب کے سب اراکین پارلیمنٹ نہیں ہیں کیونکہ گزشتہ انتخابات میں انہیں اپنے اپنے حلقے میں تحریک انصاف کے اُمیدواروں کے ہاتھوں شکست کا بھیانک چہرہ دیکھنا پڑ گیا تھا۔ لہٰذا اَب ان سب کے پاس استعفے دینے کی اپنی سیاسی ضد کو پورا کرنے کا ایک ہی راستہ باقی بچتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم کی صدارت سے جبکہ محمود خان اچکزئی اور انس نورانی پی ڈی ایم کی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کر کے استعفے دینے کی اپنی ’’سیاسی منت‘‘ کو پورا کرلیں۔ویسے بھی رانا ثناء اللہ تو فر ما ہی چکے ہیں کہ’’ آر یا پار کا مطلب ہمارے نزدیک لاہور میں جلسہ کرنا تھا ‘‘ ۔ اگر آرپار کے معنی’’پھسپھسا جلسہ‘‘ ہوسکتاہے تو پھر استعفے سے مراد ’’ہومیوپیتھک استعفے‘‘کیوں نہیں لیے جاسکتے؟ ۔یعنی اپوزیشن رہنماؤں کے ایسے استعفے جن سے پی ڈی ایم کا سانپ بھی مرجائے اوراپوزیشن رکن اسمبلی کی ’’سیاسی کاٹھی ‘‘ بھی نہ ٹوٹے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر