وجود

... loading ...

وجود
وجود

یہ کراچی کو بدل رہے ہیں یا کراچی سے بدلہ لے رہے ہیں؟

جمعرات 10 دسمبر 2020 یہ کراچی کو بدل رہے ہیں یا کراچی سے بدلہ لے رہے ہیں؟

مثل مشہور ہے کہ ’’ایک انسان کے ہاتھ کی پانچوں انگلیاں کبھی بھی برابر نہیں ہوتیں ‘‘۔لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ کھاتے وقت یہ پانچوں انگلیاں ایک برابر ہوجاتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ بالکل ایسے ہی کراچی شہر کے مستقبل کو بنانے ،سنوارنے اور چمکانے کے لیے سندھ کی سیاسی جماعتیں کبھی بھی نہ توماضی میں ایک دوسرے کے ساتھ’’سیاسی اتفاق‘‘ قائم کرسکی ہیں اورغالب امکان یہ ہی ہے کہ نہ ہی آئندہ کبھی قائم کرپائیں گی۔لیکن جب بات آجائے کراچی کے وسائل کو لوٹنے کی، کراچی کی زمینوں پر قبضہ کرنے کی ،کراچی کے تاجروں سے بھتہ لینے یا کراچی کے عوام کا معاشی و سیاسی استحصال کرنے کی تو کم ازکم اس طرح کے نفع بخش معاملات پر کراچی کی تمام سیاسی جماعتیں ایک ہی صف میں برابر ،برابر کھڑی نظر آتی ہیں ۔

زیادہ دور کیوں جائیں ،چند ماہ قبل کی ہی تو بات ہے کہ کراچی میں ابر رحمت اتنا برسا کہ سار ا شہر کئی ہفتوںتک کے لیے بارش کے پانی میں ڈوب گیا۔مگر اُس وقت کراچی پر گزشتہ چالیس برسوں سے یکے بعد دیگرے حکمرانی کرنے والی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں یعنی ایم کیو ایم پاکستان اور پاکستان پیپلزپارٹی ڈوبتے شہر کی ذرہ برابر بھی ’’انتظامی ذمہ داری ‘‘ اپنے کاندھوں پر لینے کو تیار نہ ہوئیں ۔ ایم کیو ایم پاکستان کا اصرار تھا کہ ’’ہمیں تو کبھی شہر کا مکمل حکومتی انتظام ملا ہی نہیں ،اس لیے ہماری پالیسیاں شہر کو کیسے اور کیونکر ڈوبو سکتی ہیں؟‘‘۔ جبکہ گزشتہ 12 برسوں سے سندھ پر مسلسل راج پاٹ کا فقید المثال حکومتی ریکارڈ قائم کرنے والی پاکستان پیپلزپارٹی نے یہ کہہ کراپنادامن، عوام کے ہاتھوں سے صاف چھڑا لیا کہ ’’ ہم نے تو شہر میں ریکارڈ ترقیاتی کام کروائے تھے لیکن افسوس !کم بخت ،بارش ہی اتنی زیادہ تھی کہ ہمارے کروائے گئے سارے ہی ترقیاتی کام خس و خاشاک کی مانند بارش کے پانی میں بہہ گئے‘‘۔دونوں سیاسی جماعتوں کی جانب سے کراچی شہر کے ساتھ مکمل ’’اعلان ِ لاتعلقی ‘‘کی اطلاع عام ہوجانے کے بعد اہلیانِ کراچی کی دل جوئی کے لیے پاکستانی افواج کو مداخلت کرنا پڑی اور بالآخر شبانہ روز کی کڑی محنت کے بعد افواج پاکستا ن نے شہر کراچی کو بارش کے پانی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ڈوبنے سے بچالیا ۔

اچھی بات ہوئی کہ کراچی ڈوبنے سے بال بال بچ گیا لیکن اس سے بھی زیادہ اچھی بات یہ ہوئی کہ شہر پر حکومت کرنے والوں کی’’ بدحال حکومت‘‘ بھی ایک بار پھرسے بچ گئی ۔کراچی کے باسیوں نے جہاں شہر بچ جانے پر خدا کا شکر ادا کیا ،وہیںسندھ کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی حکومت بچ جانے پر غیر سیاسی اشاروں کنایوں میں افسوس کا اظہار بھی خوب کیا۔بہرحال جس حکومت کو ڈوبتے شہری نظر نہیں آئے تھے ،اُسے دھوپ سینکتے شہری کیا خاک نظر آتے۔گویا رات گئی ،بات گئی اور حالیہ بارشوں سے پہلے اور بعد میں شہر کی تعمیر نو کرنے کے لیے سندھ حکومت نے جتنے بھی بلند بانگ’’سیاسی وعدے‘‘ کیے تھے ، وہ سب کے سب ’’سیاسی بخارات ‘‘ بن کر ہوا میں تحلیل ہوگئے کیونکہ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ’’ اَب سندھ حکومت کراچی کے جزیرے آباد کرنے میں بھرپور سیاسی و انتظامی دلچسپی رکھتی ہے‘‘ ۔حالانکہ جس طرح سندھ حکومت نے شہر کراچی کو اپنے ’’حسن انتظام ‘‘ سے فیض یاب فرمایا ہے اگر یہ ہی انتظامی و سیاسی وارداتیں کراچی کے جزیروں پر بھی کرنے کی کوشش کی گئی تو خاطر جمع رکھیئے کہ کراچی کے جزیرے آباد ہوں یانا ہوں بہر کیف کچھ طاقت وار جیالوں کے عالیشان آشیانے ضرور آباد ہوجائیں گے۔

لطیفہ ملاحظہ ہو کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی طرف سے عوام النّاس کو باور یہ کرایا جارہا ہے کہ ’’کراچی کے جزیرے ،سندھ کی ملکیت ہیں اور ان پر وفاق کو ڈاکا نہیں ڈالنے دیا جائے گا‘‘۔اس کا سادہ سامطلب یہ ہوا کہ سندھ کی ملکیت پر ڈاکا ڈالنے کا تمام تر اختیار یا کاپی رائٹ فقط سندھ کی سیاسی جماعتوں کو ہے ۔ کتنا اچھا ہوتا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے یہ یقین دہانی کروائی جاتی کہ ’’کراچی کے جزیرے جو کہ سندھ کی ملکیت ہیں ،اُس پر کسی بھی شخص یا سیاسی جماعت کو کرپشن کا ڈاکا ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘‘۔ دیکھیں بات وہی ہے ،بس ’’سیاسی نیت ‘‘کے فرق سے بات کا مطلب کچھ جدا ہوگیا ہے اور شاید مؤخرالذکر مطلب سندھ حکومت کے وارے میں نہیں ہے۔
ویسے بھی اہلیان کراچی کو سمندر کے درمیان موجود اپنے سنسان جزیروں کے ماضی ،حال اور مستقبل سے کوئی خاص غرض ہے بھی نہیں کہ انہیں وفاق آباد کرے گا یا پھر سندھ حکومت برباد کرے گی ۔ جلیسانِ کراچی تو بس ! کراچی کو آباد اور شاد دیکھنا چاہتے ہیں ۔ مگر کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ کراچی شہر جس میں زندہ جاوید کروڑوں افراد بستے ہیں ،سندھ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اتنے بڑے شہر کی خاک برابر پرواہ کرنے کے بجائے چند بے آب و گیاہ ، سنسان جزیروں کے جنگل میں منگل منانے کے لیے وفاقِ پاکستان کے خلاف صف آرا ہونے کے لیے اپنی تمام تر ’’سیاسی تیاریاں‘‘مکمل کر چکی ہیں۔طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ سندھ کی ساری جماعتیںہی کراچی کے جزیروںکا حال بدل کر شہر کراچی کا مستقبل بدلنا چاہتی ہیں ۔ یوں سمجھ لیجیے کہ سندھ کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا یہ متفقہ اور آخری ’’سیاسی فیصلہ ‘‘ ہے کہ جب کراچی کے جزیرے آباد ہوں گے تو تب ہی جاکر شہر کراچی بھی آباد ہوگااور جزیروں کی محفوظ آباد کاری کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ ’’وفاقِ پاکستان ،کراچی کے جزیروں سے کوسوں دور رہے ‘‘۔سندھ کی سیاسی جماعتوں اور وفاقی حکومت کی سیاسی آپا دھاپی کا شرمناک نظارہ کرتے ہوئے کراچی کے عوام تو بس اتنا سوچ رہے ہیں کہ ’’یہ سب مل جل کر، کراچی کو بدل رہے ہیں یا کراچی سے بدلہ لے رہے ہیں؟‘‘۔مجھ ناسمجھ کے پاس تو اس سوال کا کوئی جواب موجود نہیں ہے اگر آپ کے پاس ہو تو ضرور بتائیے گا۔اہلیان کراچی پر آپ کی عنایت ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اک واری فیر وجود اتوار 05 مئی 2024
اک واری فیر

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5) وجود اتوار 05 مئی 2024
جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5)

سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی وجود اتوار 05 مئی 2024
سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی

دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر