وجود

... loading ...

وجود
وجود

اسکولوں کی بندش: یورپ کی پیروی کرلیں

جمعه 27 نومبر 2020 اسکولوں کی بندش: یورپ کی پیروی کرلیں

(مہمان کالم)

نکولس کرسٹوف

کچھ باتیں درست ثابت ہوتی ہیں‘ خواہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے منہ سے ہی کیوں نہ نکلی ہوں۔ ٹرمپ کئی مہینوں سے ا سکول دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کر رہے تھے اور ان کا یہ مطالبہ درست بھی لگتا ہے۔ ا سکول خاص طور پرایلیمنٹری ا سکول کورونا وائرس پھیلانے کا زیادہ سبب نہیں بنے جبکہ ریموٹ لرننگ کم آمدنی والے بچوں کے لیے تباہ کن ثابت ہورہی ہے۔ اس کے باوجود امریکی ا سکول بند کیے جا رہے ہیں۔ بدھ کے دن نیویارک سٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ ا سکول بند کر رہا ہے حالانکہ ریستوران اور بارز کو کام کرنے کی اجازت ہے۔ آخر ہماری ترجیحات کیا ہیں؟ بروورڈ کائونٹی فلوریڈا کی ایک انگلش ٹیچر لا شونڈرا ٹیلر کہتی ہیں ’’میں گزشتہ پچیس سال سے ایسے ہی کم آمدنی والے ا سکول میں پڑھا رہی ہوں اور میں اس بات کی تصدیق کر سکتی ہوں کہ ریموٹ ا سکولنگ ہمارے بچوں کو برباد کر رہی ہے‘۔ کئی بچوں کے پاس کمپیوٹر نہیں ہے یا وائی فائی کنکشن نہیں ہے۔ چھوٹے بچے روزانہ کلاس سے غیر حاضر رہتے ہیں کیونکہ انہیں گھر میں اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو سنبھالنا پڑتا ہے، چھوٹے موٹے کام کرنا پڑتے ہیں یا کم آمدنی والے خاندان میں پیسے کمانے میں ہاتھ بٹانا پڑتا ہے۔ کلاس سے غیر حاضری کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے‘‘۔ ارلی لٹریسی پروگرام ’’ریڈنگ پارٹنرز‘‘ کی چیف ایگزیکٹو ایڈیلا وٹنی نے مجھے بتایا ’’موسم گرما میں بچے خاص طور پر کم آمدنی والی فیملیوں کے بچے ا سکول چھوڑ دیتے ہیں مگرکووڈ 19 کے دوران ا سکول چھوڑنے والے بچوں کی تعدا دکہیں زیادہ ہے‘‘۔ چلیں! مان لیا کہ امریکا نے کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور ا سکولوں کو بند کرنا ضروری تھا تو بھی اسے آخری آپشن کے طور پر استعمال کیا جانا چاہئے تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے صورتحال کو نارمل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی اور جولائی میں ا سکول کھولنے کی ضرورت کی شدت میں اضافہ ہوگیا تو ریپبلکنز نے ان کی حمایت کی مگر ڈیموکریٹس فطری طور پر اس کی مخالفت پر اتر آئے۔ اس طرح ڈیموکریٹس نے ا سکول بند کرانے میں اپنا کردار ادا کیا اور یوں لاکھوں فیملیوں اور ان کے بچوں کے مستقبل کو تباہ کر دیا۔ بوسٹن، فلاڈیلفیا، بالٹی مور اور واشنگٹن ڈی سی میں اسکولوں کو تو بند کر دیا گیا مگر ریستوران کھلے رکھے گئے۔ یہ درست ہے کہ ٹرمپ کورونا وائرس کی شدت کو کم خطرناک کر کے پیش کرتے رہے۔ اگر وہ ا سکول کھلے رکھنا چاہتے تھے تو انہیں زیادہ سنجیدگی کے ساتھ اس کے خلاف لڑنا چاہئے تھا اور بجٹ سے رقوم نکال کر ا سکولوں کی عمارتوں کو وائرس سے محفوظ بنانے پر خرچ کرنا چاہئے تھی؛ تاہم آج ہم کلاس روم میں تعلیم چاہتے ہیں تو ایک عملی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمیں وہ اسکول بھی کھلے رکھنے چاہئیں جن میں وینٹی لیشن اور دیگر حفاظتی امورکا مناسب انتظام نہیں ہے؟ امریکا نے ا س بات کا جواب بہت سے ا سکول بند کرکے اور ریموٹ لرننگ شروع کر کے دیا ہے جبکہ زیادہ تر بزنس کھلے رہے یا انہیں دوبارہ کھول دیا گیا۔ اس کے برعکس یورپ نے متضاد پالیسی اپنائی اور پب اور ریستوران بند کر دیے مگر انہوں نے ا سکول کھلے رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے اور ثبوتوں سے عیاں ہے کہ یورپ نے کمال ہوشیاری کا مظاہرہ کیا۔ یورپ اور امریکا میں ا سکول کورونا وائرس کے پھیلائو کا زیادہ سبب نہیں بنے اور نہ ہی والدین اور ٹیچرز کی زندگیاں زیادہ رسک پر تھیں۔امریکن اکیڈمی آف پیڈریاٹکس کے مطابق ’’بچے جب کلاس روم میں ہوتے ہیں تو ان کی بہترین لرننگ ہوتی ہے مگر بچے ا سکول میں تعلیم سے زیادہ دیگر چیزیں بھی سیکھتے ہیں۔ وہ ا سکول میں سماجی اور جذباتی مہارتیں سیکھتے ہیں، انہیں اچھا کھانا ملتا ہے، ذہنی صحت کو اچھی سپورٹ ملتی ہے، ایکسر سائز کا موقع ملتا ہے جبکہ آن لائن تعلیم میں یہ سب کچھ نہیں مل سکتا۔ امریکا میں ہر آٹھ میں سے ایک بچہ ایسے والدین کے ساتھ رہتا ہے جو منشیات کے عادی ہیں‘ جو کورونا سے کہیں مہلک وبا قرار دی جا سکتی ہے۔ میں نے بچوں کو انتہائی خستہ اور گھٹیا گھروں میں رہتے ہوئے دیکھا ہے جن کے لیے ا سکول کی عمارت ایک جنت اور لائف لائن سے بڑھ کر ہوتی ہے‘‘۔ امریکا کا نظام تعلیم پہلے ہی ایسا ہے جس کے فوائد اور نقصانات ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتے ہیں۔ امیر بچے امیر ا سکولوں میں پڑھتے ہیں جو انہیں مزید آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ غریب بچے غیر معیاری ا سکولوں میں پڑھتے ہیں جو انہیں پسماندہ رکھتے ہیں۔ ا سکول بند کرنے سے اس عدم مساوات کو مزید فروغ ملا کیونکہ نجی ا سکول کھلے رہے اور متمول والدین اپنے بچوں کی آن لائن تعلیم کے لیے بھی بہتر انتظامات کرنے کے قابل تھے۔ اس طرح کم آمدنی والے بچے مزید پیچھے رہ گئے۔

لاس اینجلز کی آسٹن بٹنر کے مطابق ان کے ہاں زیر تعلیم طلبہ میں سے 80فیصد بچے انتہائی غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ارجنٹینا اور بلجیم میں ا سکولوں میں ہڑتالوں پر ہونے والی ا سٹڈی کے مطابق اسکول سے غیر حاضری سے بچوں کو بہت زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے خاص طور پر ڈراپ آئوٹ ہونے والے بچے زندگی میں بہت کم کماتے ہیں۔ میکنزی اینڈ کمپنی کے مطابق کورونا کی اس عالمی وبا کے دوران ا سکول بند ہونے کی وجہ سے ایک ملین سے زائد مزید بچے ڈراپ آئوٹ ہو جائیں گے۔ ڈراپ آئوٹ ہونے والے بچوں کی عمر بھی کم ہوتی ہے اس لیے جس طرح کورونا وائرس بچوں کی موت کا باعث ہے‘ اسی طرح ا سکولوں کی بندش بھی ان کی موت کا سبب بنتی ہے۔ رواں مہینے ہونے والی ایک نئی ا سٹڈی کے مطابق امریکا میں پرائمری ا سکولوں کی بندش کی وجہ سے انسانی زندگی کئی سال کم ہو جائے گی کیونکہ بچوں کی ایک بڑی تعداد ا سکول چھوڑ جائے گی جن کی زندگی وائرس پھیلنے کے باوجود بچائی جا سکتی تھی۔ لارین برگ اوریگن ریاست میں ایک ا سکول پرنسپل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بعض بچے آن لائن تعلیم میں بہتر سیکھ سکتے ہیں مگر ہر کلاس میں بمشکل تین یا چار بچے باقاعدگی سے کلاس اٹینڈ کرتے ہیں۔ ا سکول اپنے طور پر ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ وہ بچوں کو کروم بکس اور ہیڈ فون دیتے ہیں۔ الارم والے ٹائمر دیتے ہیں۔ لارین برگ کے مطابق ہر طرح کا جتن کرنے کے باوجود کئی بچے غیر حاضر رہتے ہیں۔ بہت مناسب ہوگا کہ ہم یورپ کی پیروی کریں۔ ریستوران اور بارز بندکریں اور ا سکول کھولنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر