وجود

... loading ...

وجود
وجود

’لوجہاد‘ : نفرت پھیلانے کا نیا ہتھیار

منگل 24 نومبر 2020 ’لوجہاد‘ : نفرت پھیلانے کا نیا ہتھیار

معصوم مرادآبادی
۔۔۔۔۔۔۔۔
مہمان کالم

مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کو ہوا دینے کے نت نئے بہانے ایجاد کرنا فرقہ پرستوں کا محبوب مشغلہ ہے۔’ لوجہاد‘ بھی ان ہی بہانوں میں سے ایک ہے، جسے مسلم نوجوانوں کی زندگی جہنم بنانے کے لیے ایجاد کیا گیا ہے۔یہ سلسلہ اسی وقت سے چلا آرہا ہے جب سے ملک میں فرقہ وارانہ سیاست کو عروج حاصل ہوا ہے،لیکن بعض حالیہ واقعات کے بعد ’ لوجہاد‘ کا موضوع دوبارہ بحث کے محور میں آگیا ہے اور اسی سے متاثر ہوکر بی جے پی کے اقتدار والے صوبوں میں ’ لوجہاد‘ مخالف قانون بنانے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ہریانہ ،اترپردیش ،آسام اور مدھیہ پردیش کے بعد اب کرناٹک کی سرکاروں نے بھی اس قسم کا قانون بنانے کی تیاری شروع کردی ہے۔اس قانون کے تحت بین المذاہب شادیاں رچانے والے نوجوانوں کو پانچ سے سات سال کی سزا دینے کی تیاری ہورہی ہے۔حالانکہ یہ قانون سبھی پر لاگو ہوگا ، لیکن دنیا جانتی ہے کہ اس قانون سازی کا اصل نشانہ وہ مسلمان ہیں جو غیرمسلم لڑکیوں سے عشق یا شادی کے ’ جرم‘ کا ارتکاب کریں گے۔ہرچند کہ قانونی ماہرین اس مجوزہ قانون کی افادیت کے بارے میں شکوک وشبہات کا اظہار کررہے ہیں اور اسے فضول سرگرمی بھی قرار دیا جارہا ہے، لیکن بی جے پی کی صوبائی حکومتیں اپنے فرقہ وارانہ ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے اس سمت میں پیش قدمی کررہی ہیں۔ یعنی عشق کا بھوت اتارنے کے لیے ایک نئے ہتھیار کی دھار تیز کی جارہی ہے۔جس کے بارے میں جگر مرادآبادی نے بہت پہلے کہا تھا

یہ عشق نہیں آساں ، بس اتنا سمجھ لیجئے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

حکمراں طبقے کا خیال ہے کہ جو مسلم لڑکے ہندولڑکیوں سے محبت کی شادی رچاتے ہیں ، وہ دراصل ایک ’ جہادی‘ سرگرمی کا حصہ ہیں۔ وہ ہندو لڑکیوں کومسلمان بنانے کے لیے ان کے ساتھ عشق کا کھیل، کھیل رہے ہیں اوراس کے پیچھے مسلم آبادی میں اضافہ کرنے کا مقصد کارفرما ہے۔ اتنا ہی نہیں فرقہ پرست طاقتیں اس کے تانے بانے عالمی دہشت گردی سے بھی جوڑتی ہیں۔اسی لیے انھوں نے اس کو ’ لوجہاد ‘ کا عنوان دیا ہے۔حالانکہ آج تک ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا جس میں کسی مسلمان لڑکے نے کسی غیرمسلم لڑکی سے اس لیے شادی رچائی ہو کہ وہ اسے جہادی سرگرمیوں کا حصہ بنائے۔ مگر چونکہ سنگھ پریوار کے ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تعصب کا جو زہربھرا ہوا ہے ، اس کے زیر اثر وہ اس کے علاوہ کچھ سوچ ہی نہیں پاتا۔
یہ بات سب پر عیاں ہے کہ ہمارے ملک میں بین المذاہب شادیوں کا چلن کوئی نیا نہیں ہے۔ جہاں ایک طرف سینکڑوں مسلم نوجوانوں نے ہندو لڑکیوں سے شادیاں کرکے اپنے گھر آباد کیے ہیں، وہیں ایسی مسلمان لڑکیوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے جنھوں نے ہندو گھرانوں میں شادیاں کی ہیں۔اس قسم کی شادیاں عام طور پر عشق کے مرض کی پیداوار ہوتی ہیں، جس میں عقل وشعور کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔عشق کی لو اتنی تیز ہوتی ہے کہ اس میں مذہب آڑے نہیں آتا۔ حالانکہ اس قسم کی شادیوں کا انجام کبھی کبھی عبرتناک بھی ہوتا ہے ، لیکن عشق کے مریض اس کی پروا نہیں کرتے اور وہ والی آسی کے اس شعر کی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔

تو اگر عشق میں برباد نہیں ہوسکتا
پھر تجھے کوئی سبق یاد نہیں ہوسکتا

عشق کے اس رجحان کو اگر کوئی فرقہ پرستی اور تنگ نظری کی عینک سے دیکھتا ہے تو اس میں اصل قصور اس کی سوچ کا ہے اور اس کا بنیادی مقصد ماحول خراب کرنا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس معاملے میں کبھی کبھی فتنہ وفساد کی بھی نوبت آجاتی ہے۔ کافی عرصہ پہلے جن سنگھ کے لیڈر سکندر بخت مرحوم کے معاملہ میں ایسا ہوچکاہے۔ سکندر بخت پرانی دہلی کے باشندے تھے۔انھوں نے ایک ہندو لڑکی سے شادی کی تو شہرکے حالات اس حد تک خراب ہوئے کہ وہاں فساد کی نوبت آگئی اور شہر میں کرفیو نافذ کرنا پڑا۔آپ جانتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد بھی جن سنگھ سے ان کے رشتوں میں کوئی تلخی پیدا نہیں ہوئی اوروہ بعد کے دنوں میں جن سنگھ کے نئے روپ یعنی بی جے پی سرکار میں مرکزی وزیر اور گورنر کے عہدوں تک پہنچے۔یوں دیکھا جا’ے تو بی جے پی کے اکثر ’ ’مسلم لیڈروں ‘ ‘نے اکثر ایسا ہی کیا ہے اور بی جے پی نے انھیں گلے بھی لگایا ہے۔ اس کی دوزندہ مثالیں مرکزی وزیر مختار عباس نقوی اور شاہنواز حسین ہیں۔ ماشاء اللہ ان دونوں کی ہی بیویاں ہندو ہیں اور دونوں کو ہی پارٹی میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر بی جے پی کا کوئی ’ ’مسلم لیڈر‘ ‘کسی ہندولڑکی سے شادی کرتا ہے تو پارٹی اسے گلے لگاتی ہے اور جب کوئی عام مسلمان کسی ہندو لڑکی کوبیاہ کر گھر لاتا ہے تو وہ ’ لوجہادی‘بن جاتا ہے اور اس کے لیے موت کی سزا تجویز کی جاتی ہے جیسا کہ یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے تجویز کی ہے۔انھوں نے پچھلے دنوں جونپور کے ایک عوامی جلسہ میں کہا تھا کہ ’’ سرکار نے ’ لوجہاد‘ کو سختی سے روکنے کے لیے موثر قانون بنانے کا فیصلہ کیا ہے‘‘۔ انھوں نے وارننگ دی کہ’’ جولوگ نام چھپاکر بہو بیٹیوں کی عزت سے کھلواڑ کرتے ہیں، اگر وہ نہیں سدھریں تو ان کی ’رام نام ستیہ ‘ کی آخری یاترا نکلنے والی ہے۔

یوگی جی نے یہ بیان الہ ا ٓباد ہائی کورٹ کی اس حالیہ رولنگ کے تناظر میں دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ شادی کے لیے مذہب کی تبدیلی ناقابل قبول ہے۔ عدالت عالیہ نے یہ فیصلہ ایک نئے جوڑے کی طرف سے پولیس کا تحفظ حاصل کرنے کی عرضی کو خارج کرتے ہوئے دیا ہے۔ جب عدالت کو یہ معلوم ہوا کہ لڑکی پیدائشی طور پر مسلمان تھی، لیکن شادی ہونے سے ایک ماہ پہلے اس نے اپنا مذہب تبدیل کرکے ہندو مذہب اختیار کرلیا تھاتو جسٹس مہیش چندر ترپاٹھی نے کہا کہ’’ اس سے واضح ہوتا ہے کہ مذہب صرف شادی کے مقصد سے تبدیل کیا گیا تھا۔

پچھلے دنوں ہریانہ کے بلب گڑھ میں ہوئی ایک انتہائی سنگین واردات نے حکمراں جماعت کو ’ لوجہاد ‘ کا معاملہ پوری شدت کے ساتھ اٹھانے کا ہتھیار فراہم کردیا ہے اوراس پر پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کو ہوا دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔حالانکہ اس واقعہ کا کوئی تعلق ان چیزوں سے نہیں ہے جنھیں ان سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے۔بلب گڑھ میں نکتا تومر نام کی ایک دوشیزہ کو آصف نام کے ایک نوجوان نے لب سڑک گولی مارکر قتل کردیا۔ دونوں اسکول کے زمانے سے ایک دوسرے کو جانتے تھے اور عشق کے مریض تھے۔ آصف نے نکتا پر شادی کا دبائو ڈالا مگر اس کے گھر والے اس پر راضی نہیں ہوئے اور بات بگڑ گئی۔آصف نے ایک انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے نکتا کو اپنے ایک دوست کی مدد سے سرعام گولی ماردی۔ یہ واقعہ اپنی سنگینی اور بربریت کے اعتبار سے ایسا تھا کہ سبھی نے قصورواروں کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا۔ اس میں مسلمان بھی پیش پیش تھے۔ لیکن فسطائی تنظیموں نے اس کا رخ فرقہ واریت کی طرف موڑ دیا اور نکتا کا گائوں جارح ہند وتنظیموں کا پکنک اسپاٹ بن گیا۔انھوں نے وہاں جاکر مسلمانوں کے خلاف خوب بھڑاس نکالی۔ اکھاڑہ پریشد کے سربراہ مہنت گری نے یہاں تک کہا کہ ’’ لوجہاد کے معاملوں میں قصورواروں کوچوراہوں پر پھانسی دی جانی چاہئے۔ابھی اس کے طرفدار ہیں کہ جو کوئی قتل جیسے گھنائونے جرم میں ملوث ہو اس کو عبرتناک سزا ملنی چاہئے۔ لیکن سوال اس وقت کھڑے ہوتے ہیں جب ہاتھرس اجتماعی اابروریزی جیسے انتہائی سنگین جرم میں ملوث قصورواروں کا دفاع کیا جاتا ہے اور مجرموں کو بچانے کی کوشش محض اس لیے کی جاتی ہے کہ وہ اعلیٰ ذات سے تعلق رکھتے تھے اور متاثرہ لڑکی پسماندہ طبقہ کی تھی۔ ہاتھرس میں ایک دلت دوشیزہ کی اجتماعی آبروریزی اور بہیمانہ قتل کی جس انداز میں لیپا پوتی کی گئی اور ملزمان کو بچانے کے لیے پولیس اور سرکاری مشینری کا بے دریغ استعمال کیا گیا، اس نے کئی سنگین سوالوں کو جنم دیا ہے اور اس معاملے کی گونج پوری دنیا میں سنائی دی ہے۔

اب آئیے ایک نظر ’ لوجہاد‘ کے خلاف مجوزہ قانون سازی پر ڈالی جائے۔ اس قسم کا قانون بنانے کی سب سے زیادہ وکالت اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کررہے ہیں۔اس سلسلہ میں خود اترپردیش لاء کمیشن کے چیئر مین جسٹس آدتیہ ناتھ متل کہتے ہیں کہ’ لوجہاد‘ کے خلاف بنایا گیا قانون آسانی کے ساتھ چیلنج کیا جاسکتا ہے۔الہ آباد ہائی کورٹ کے سینئر وکیل روی کرن جین بھی اس قسم کی قانون سازی کو دستور مخالف قرار دیتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ’’ اگر آپ ایک ہندو اور مسلم شادی کو ’ لوجہاد‘ قرار دیتے ہیں تو آپ کے پاس اسے ثابت کرنے کا کیا طریقہ ہے۔دو مختلف مذاہب کے لوگوں کو شادی سے روکنا خود غیر قانونی ہے۔‘‘قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہندوستان کا دستور دو بالغوں کو خواہ ان کا مذہب اور عقیدہ کچھ بھی ہو آپس میں شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ایسے میں اس کو ’ لوجہاد‘ کا جامہ پہناکر روکنے کا قانون بنانا سراسر دستور مخالف کام ہے اور یہ محض حالات کو خراب کرنے اور نفرت پھیلانے کا ہتھیار ہے۔
۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر