وجود

... loading ...

وجود
وجود

امریکا میں تقسیم کا خاتمہ،جوبائیڈن کا پہلا امتحان

جمعه 20 نومبر 2020 امریکا میں تقسیم کا خاتمہ،جوبائیڈن کا پہلا امتحان

اینڈریوہیمنڈ
۔۔۔۔۔۔
مہمان کالم

امریکا کی تاریخ کے سب سے زیادہ متنازع اور تفرقہ انگیز صدارتی انتخابات میں کامیابی کے بعد جوبائیڈن رواں ہفتے کابینہ کی تقرریوں پر غور کر رہے ہیں، وہ اس سے پہلے اپنی تقریر میں ’’تمام امریکیوں‘‘ کے صدر ہونے اور سیاسی اختلاف کے خاتمہ کا اعلان کر چکے ہیں۔ اگرچہ بائیڈن کو عالمی اور مقامی سطح پر متعدد چیلنجوں کا سامنا ہے مگر اس کی ترجیح ایک ایسے ملک میں سیاسی مفاہمت لانا ہے جو کم از کم ایک نسل سے منقسم ہے اور شاید موجودہ نسل کی زندگی تک ایسا ہی رہے۔ تجدید کا یہ منصوبہ آسان نہیں ہو گا تاہم ملک میں پائی جانے والی یہ تفریق اور کورونا وائرس، جس کے باعث پہلے ہی 250,000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، بطور صدر ان کی تقدیر کا تعین کر سکتا ہے۔ بائیڈن شاید اپنی صدارت کے دوران ملک میں پائی جانے والی تفریق کے ماحول میں بہتری لا سکیں، اس کا انحصار اس مہارت پر ہو گا جس کے ساتھ وہ اپنی نئی انتظامیہ تشکیل دیتے ہیں اور اخلاقی اتھارٹی ثابت کرتے ہیں جو ان کی غالب فتح سے پیدا ہوئی ہے۔ مدت صدارت میں کم از کم دو واضح اختیارات ہوتے ہیں: حکمرانی کے موضوعات طے کرنا، جس میں تجدید اور اتحاد شامل ہیں اور انتظامیہ کی طرف سے کی جانے والی قانون سازی پر عوام اور کانگریس کی حمایت حاصل کرنا، اس سے قطع نظر کہ اس کے مقاصد سابق ادوار کی نسبت وسیع یا محدود ہیں۔ کسی بھی صدارتی دور کے اثرات کا انحصار اقتدار کے دوران وسائل سے فائدہ اٹھانے میں سیاسی مہارت پر ہے: کانگریس اور سینئر فیڈرل بیوروکریٹس کے ممبران میں صدارتی دفتر کا وقار اور اس کی قیادت کی ساکھ، مضبوط اور موثر صدور اقتدار کے ہر ماخذ کا انٹرایکٹو استعمال کرتے ہیں۔ جیسے فرینکلن روزویلٹ اور رونالڈ ریگن نے بالترتیب 1930-40 اور 1980 کی دہائی میں کیا۔ ایوان صدارت کو ملک کے لیے بہتر سے بہتر بنانے کے لیے صدر جوبائیڈن کو تیزی سے اور پورے اعتماد کے ساتھ یہ دکھانا ہو گا کہ وہ ان دونوں کاموں کا طریقہ جانتے ہیں۔ اس طرح کے احساس ذمہ داری اور مفاہمت کو فروغ دینے کے مواقع 20 جنوری کو صدارتی مدت کے افتتاح اور تقریب حلف برداری کے دن اور اس سے پہلے عبوری دور کے دوران آئیں گے۔ گزشتہ چند ماہ سے جاری انتخابی مہم میں سخت، جارح اور تلخ جملوں کے استعمال سے متحارب سیاسی جماعتوں اور ان کے کارکنوں میں پائے جانے والے کھنچائو کو کم کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ ملک کا سیاسی ماحول خوشگوار اور اس کے باعث نقصانات کا احتمال کم سے کم ہو۔ انتخابی مہم نے نا صرف عوامی صورت حالات کی عکاسی کی ہے بلکہ ملک بھر میں تقسیم کے عمل کو بھی تیز کر دیا ہے۔ قبل ازیں بیلٹ پولز میں یہ اشارہ کیا گیا تھا کہ بائیڈن فیصلہ کن کامیابی سے جیت سکتے ہیں، مگر ٹرمپ نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ انہیں انتخابی مہم میں کسی سے کم قرار نہیں دیا جا سکتا، وہ ہار ماننے والوں میں سے نہیں اور کم سے کم ابھی تک ٹرمپ اس کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔

دوسری مدت کے لیے انتخابی مہم کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کے ساتھ سامنے آئے، اس کے باوجود انہوں نے الیکٹورل اور مقبول ووٹوں کی بڑی تعداد کو اپنے بیلٹ باکس میں سمیٹا۔ 2016 میں بھی ٹرمپ نے سیاسی اسٹیبلشمنٹ سے مایوس طبقے کے ووٹرز کی خاص طور پر حمایت سمیٹی، اس کے علاوہ آمدنی میں عدم مساوات اور بے روزگاری کا شکار افراد کی ہمدردیاں بھی حاصل کیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر بائیڈن کو اوہائیو سمیت متعدد اہم ریاستوں میں توقعات سے کہیں کم ووٹ ملے۔ قوم کی موجودہ پولرائزیشن کے باعث بائیڈن کو اگلے چار سال تک کیلئے فوری طور پر مضبوط گورننگ تھیمز قائم کرنے کی ضرورت ہے جو افہام و تفہیم، مفاہمت، تدبر و تحمل کے ذریعے سیاسی عمل کو آگے بڑھائے۔ جو بھی بیانیہ حتمی طور پر جاری کیا جائے اس میں یہ بھی شامل کرنا از بس ضروری ہے کہ ’’سیاسی وبائی مرض‘‘ کے بعد ’’بہتر سے بہتر بننا‘‘، اتفاق رائے کے لیے جدوجہد کرنا اور پْر خلوص رشتوں کو تلاش کرنا سیاسی طور پر سمجھداری کا راستہ ہو گا۔

صدارتی انتخابات میں کامیابی کے بعد اپنے اختیارات کے مکمل استعمال کے لیے جو بائیڈن کو منقسم کانگریس میں اراکین اسمبلی کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، ڈیموکریٹس کے پاس ایوان نمائندگان اور ریپبلکنز کے پاس سینیٹ کا کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے ضروری اراکین کی تعداد میسر ہے۔ خاص طور پر کچھ ریپبلکن سینیٹرز کے حوالے سے یہ ایک مشکل چیلنج ہو سکتا ہے، لیکن ان سے ورکنگ ریلیشن شپ کا قیام ایجنڈے کے مرکزی عناصر کی فراہمی کے لیے کلیدی ثابت ہو گا۔ طویل اور تفرقہ انگیز مہم کے باوجود جوبائیڈن سے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے تجربے سے امریکاکو نسل پرستی اور سیاسی تفریق و تفاوت کے ماحول سے نکال کر قومی تجدید اور اتحاد کے امکانات کو روشن کریں گے۔ بائیڈن کے لیے یہ ایک آزمائش ہو گی، جو سربراہ مملکت کی حیثیت سے سب سے زیادہ موثر ثابت ہو سکتے ہیں اگر وہ اور کانگریس کے اراکین مسلسل مخالفت اور افراتفری کے ایجنڈے کے اجتناب کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر