وجود

... loading ...

وجود
وجود

منطقی انجام کیاہوگا؟

جمعرات 05 نومبر 2020 منطقی انجام کیاہوگا؟


پاکستان میں بزنس مین ، سیاستدان ، تاجر اور نہ جانے کون کون سے طبقات باقاعدہ مافیاز کا روپ دھارچکے ہیں ان میں سے بیشتر کی بیوروکریسی،فوجی اسٹیبلشمنٹ، ججز،اوراشرافیہ سے رشتہ داریاں ہیں ملک میں جس کی بھی حکومت ہو یہ سب کے ساتھ اس حکومت میں شامل ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کے پیش ِ نظرفقط اپنے ہی مفادات کا تحفظ ہوتاہے یقین نہیں آتا تو خود گزشتہ 40-30سال کی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں آپ کو چند مخصوص خاندان ہی پاکستان کی تقدیر کے مالک نظر آئیں گے یہ لوگ ہرسال کوئی نہ کوئی بحران پیدا کرکے کھربوں روپے کمالیتے ہیں اور غریب عوام اپنی قسمت کو کوس کر ہمیشہ جلتے کڑھتے رہتے ہیں کبھی آٹامافیاسراٹھاتاہے تو کبھی شوگرمافیا،کبھی لینڈمافیا سرکاری زمین اپنی ہائوسنگ سوسائٹیوںمیں شامل کرلیتاہے اور حکمران نعرے لگانے کے علاوہ کچھ نہیں کرپاتے آٹا، اور چینی چونکہ عام استعمال کی پراڈکٹس ہیں جس کی کھپت ہمیشہ زیادہ ہے اس لیے یہ ان کا خاص ٹارکٹ ہیں ا س لیے شوگر ملز مالکان اور آٹا مافیاحکومت سے اربوں روپے کی سبسڈی بٹورنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے اپناتے رہتے ہیں۔ شوگر ملز مالکان اور آٹامافیاگندم ملک سے باہر بھجوانے کے نام پر حکومت سے سبسڈی اور مراعات لیتے ہیں فوائد حاصل کرنے تک آٹا چینی کو ملک میں نامعلوم جگہ پر ا سٹور کرلیا جاتا ہے۔جیسے ہی حکومتی مفادات موصول ہوجاتے ہیں ویسے ہی آٹاچینی مقامی مارکیٹ میں ہی فروخت کردیا جاتا ہے۔

اسی سال فروری میں وزارت صنعت و پیداوار نے اقتصادی رابطہ کمیٹی سے رابطہ کرکے بغیر ٹیکس کی ادائیگی کے تین لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کی تجویز پیش کی تاکہ ملک میں چینی کی بڑھتی قیمتوں پر قابو پایا جا سکے۔ ای سی سی نے اس کی شدید مخالفت کرتے ہوئے خبردارکیا تھاکہ ڈیوٹی فری درآمد کے نتیجے میں حکومت کو ٹیکس استثنیٰ اور ڈیوٹی کی مد میں 14 ارب روپے کا نقصان ہوسکتاہے۔ جبکہ قیمتیں کنٹرول میں نہیں رکھی جاسکیں گی جس سے مہنگائی ہونا یقینی امرہے اور ایسے ہی ہوا جب کابینہ اجلاس میں اسد عمر نے یہ معاملہ اٹھایا اور نتیجتاً کابینہ نے چینی کی درآمدات پر ریگولیٹری ڈیوٹی ہٹانے کا فیصلہ کیابعد میں در آ مد کردہ چینی پر 750 ڈالر فی ٹن کے حساب سے سیلز ٹیکس عائد ہوا حالانکہ اس وقت بین الاقوامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت 375 ڈالرز فی ٹن تھی اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس وقت مقامی چینی پر سیلز ٹیکس کی شرح 11 روپے فی کلوگرام تھی، اس وقت درآمد کردہ چینی پر 21 روپے فی کلوگرام ٹیکس وصول کیا جا رہا تھا۔ صاف ظاہر تھا اس کے نتیجہ میں چینی کا کاروبار کرنے والوں کو مزید 10 روپے کلو کا فائدہ پہنچایا گیا جس سے شوگرمافیا نے واتوں رات کھربوں روپے کما لیے ۔ جب کابینہ کے کچھ ارکان نے یہ معاملہ حکومت کے روبرو اٹھایا تو اس کے لیے عمران خان نے واجد ضیاء کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن بنادی جس نے دودھ کا دودھ پانی کا پانی الگ کردیا، اس کمیشن کی فرانزک رپورٹ سامنے آنے کاانتظارکیا جارہاہے کہ تاکہ ذمہ داروںکا تعین کیا جاسکے ،توقع ہے کہ 25 اپریل کو انکوائری کمیشن کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد سب کچھ واضح ہوجائے گا۔

اب چندسوال توجہ طلب ہیں جن کے جواب حکمرانوںکو ہر صورت تلاش کرناہوں گے ورنہ اس ساری ایکسرسائزکا کوئی فائدہ نہ ہوگا اولاً طاقتور شوگر لابی سمیت کون ملوث ہے؟ ثانیاًجب وفاقی حکومت نے ریگولیٹری ڈیوٹی معاف کی تو 750 ڈالر فی ٹن کے حساب سے سیلز ٹیکس کس نے لگایا۔ اب کورونا وائرس کی وبا کے دوران، حکومت نے کھانے پینے کی تمام اشیاء پر ڈیوٹی اور ٹیکس ختم کرنے کی کوشش کی لیکن چینی کے درآمد کنندگان کو 5.5 فیصد پیشگی انکم ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے جبکہ مقامی چینی کے لیے گزشتہ بجٹ میں ایڈوانس انکم ٹیکس کی شرح 4.5 فیصد سے کم کرکے صرف 0.25 فیصد کر دی گئی تھی۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے کہاجاسکتاہے کہ حکومت کی جانب سے مقامی شوگر انڈسٹری کی بھرپور سرپرستی جاری ہے اور قیمت پاکستانی عوام سے وصول کی جا رہی ہے۔ اب کہا جاتا ہے کہ مسابقتی قیمتوں پر چینی کی د رآمد سے حکومت کو ملک میں چینی کی بڑھتی قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی۔ چونکہ آج چینی کی قیمت 90-85 روپے فی کلوگرام تک ہوگئی ہے اور ڈالر 167 روپے کا ہوچکا ہے یہ صورتحال مقامی مارکیٹ میں چینی پیدا کرنے والوں کے لیے بہت خوشگوار ہے جبکہ رمضان المبارک کے مہینہ میں چینی کی قیمت 100 روپے فی کلوگرام ہوگئی۔ اب تو شک شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی کہ شوگر ایکسپورٹ پالیسی سے فوائد حاصل کرنے والوں میں بااثر نامور سیاسی شخصیات شامل ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں ،شریف خاندان ، چوہدری فیملی ، زرداری اورجہانگیر ترین گروپ،خسرو بختیار کے بھائی عمر شہریار گروپ ،انور مجید گروپ شامل ہیں سب کے پیٹ میں غریبوں سے محبت کا مروڑ اٹھتارہتا ہے۔جہانگیر ترین گروپ چینی پر دی جانے والی کل سبسڈی کا 22 فیصد حاصل کرکے 56 کروڑ روپے کی سبسڈی حاصل کی اسی طرح وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی عمر شہریار کے گروپ نے 35 کروڑ سے زائد کی سبسڈی لی، المعیز گروپ نے 40 کروڑ روپے کی سبسڈی حاصل کی۔

مئی 2014ء سے جون 2019ء تک کے عرصے میں چینی کی قیمت میں 16 روپے فی کلو کااضافہ ہوا، شوگر برآمد کنندگان نے 3 ارب روپے کی سبسڈی اور قیمت میں اضافے دونوں کا فائدہ اٹھایا جس سے قیمت میں اضافہ اور بحران پیدا ہوا یہ بھی رپورٹ تیارکرلی گئی ہے کہ گذشتہ پانچ سال میں حکومت کی جانب سے 25 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی اس بہتی گنگا سے آر وائی گروپ ، جہانگیر ترین ، ہنزہ گروپ ، فاطمہ گروپ ، شریف گروپ ، اومنی گروپ اور چوہدری گروپ نے فیضیاب ہوئے۔ شوگر ملوں کو سبسڈی ملنا، چینی کی صنعت کا سیاست میں اثرورسوخ ظاہرکرتا ہے ۔ پاکستان میں سب سے زیادہ شوگر ملز شریف خاندان ،انور مجید گروپ اور آصف زرداری کی ہیں انہی تینوں گروپس نے عددی برتری کے حوالے سے سب سے زیادہ فوائد اور سبسٹڈی لے کر کھربوں روپے کما لیے لیکن سوشل میڈیا پر شور مچاہوا کہ جہانگیر ترین نے بہت زیادہ لوٹ مارکی ہے یہ پروپیگنڈہ اس لیے کارگر ہورہاہے کہ وہ حکومت کا حصہ ہیں اس کا یہ مطلب بھی نہیں لیا جاسکتاکہ چینی کے بحران میں جہانگیر ترین بے قصور ہیں بات یہ ہے کہ اپوزیشن صرف ان شوگرملز مالکان کے خلاف مہم چلا رہی ہے جو عمران خان کے ساتھ ہیں حالانکہ یہ سب کے سب بے رحم لوگ ہیں جنہوںنے ہمیشہ بحران پیدا کرکے حکومتوں کو بلیک میل کیا اور اپنی تجوریاں بھری ہیں اس سارے معاملہ کا سب سے خوفناک پہلو یہ ہے کہ چینی مافیا کے کچھ لوگوں نے وزیراعظم کو دھمکی دی ہے کہ اگر شوگر کمیشن کی جاری تحقیقات بند نہ کی گئیں تو چینی کی قیمت مزید بڑھ جائے گی اسی ایک بات سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ شوگرمافیا کس قدر طاقتورہے ۔

کہا جاتا ہے کہ ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیاء کو بھی اسی مافیا نے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ تحقیقات بند کی جائے۔ اس طرح کا ایک سکینڈل 4جنوری 2017میں بھی سامنے آیا تھا جب پشاور کے ڈائریکٹوریٹ آف کسٹمز انٹیلی جنس اور انویسٹی گیشن نے پانچ ہزار چارسو بیس میٹرک ٹن چینی کی بر آمد کا ایک فراڈ سامنے لے آیا تھا۔ یہ چینی چارہزارآٹھ سو چھ تھیلوں میں پشاور کے رنگ روڈ پر واقع ایک غیر قانونی ویئر ہاوس میں ذخیرہ کی گئی تھی بہرحال چینی اور آٹا بحران پر جاری تحقیقاتی رپورٹ پر ملک بھر میں ہنگامہ برپا ہے اس بحران کے ذمہ دار اہم شخصیات میں موجودہ کابینہ میں شامل ایک وزیر کے عزیز اور ان کے ایک قریبی سیاسی ساتھی جہانگیر ترین‘ مسلم لیگ (ق) کے رہنما مونس الہی اور دوسرے بااثر افراد شامل ہیں بلاشبہ وزیراعظم کے لیے ایک بڑی آزمائش ہے یہ بھی کہاجارہاہے ایسا پاکستان کی تاریخ میں پہلی بارہورہاہے اس لیے عوام کو خوشگوارحیرت ہے کہ پہلی مرتبہ کسی وزیراعظم نے ایک ا سیکنڈل میں اپنے سیاسی رفقاء کے ناموں کے ساتھ انکوائری رپورٹ شائع کرنے کی اجازت دی۔ یقینا پاکستان میں ایک نئی تاریخ رقم ہورہی ہے فورینزک رپورٹ نے ملکی سیاست میں ہلچل تو مچادی ؟ لیکن پھرہوا کیا؟ بیشترلوگوںکا خیال ہے کہ یہ مافیا اتنا طاقتور ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت بھی جاسکتی ہے یہ تو بات یقینی ہے کہ عمران خان ان اہم شخصیات کے خلاف ایکشن لے کر ایک تاریخ رقم کریں گے لیکن ساتھ ہی ان کے لئے سیاسی چیلنجز بھی درپیش ہوں گے اب دیکھتے ہیں ان کے خلاف ایکشن لینے کاجو اعلان کیاگیا تھا اس کا منطقی انجام کیاہوگا؟ یہ ایکشن لیا جانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اب گندم کا بحران آنے والا ہے یہ بحران حکومت کو ہلاکررکھ دے گا کیونکہ جب لوگوںکو کھانے کے لیے آٹا نہیں ملے گا تو پھر شہر شہر احتجاج کو کوئی نہیں روک سکتا شاید اپوزیشن کو اسی موقعے کاانتظارہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر