وجود

... loading ...

وجود
وجود

سیاست نہیں ریاست بچاؤ

جمعرات 05 نومبر 2020 سیاست نہیں ریاست بچاؤ

آج سے ٹھیک آٹھ برس قبل 23 دسمبر 2012 کو تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے جب پہلی بار ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے ’’سیاسی اشرافیہ ‘‘ کے تین طاقت ور ترین طبقات یعنی جاگیرداروں ،وڈیروں اور سرمایہ داروں کے بنائے ہوئے برسوں پرانے انتخابی نظام پر نقطہ اعتراض اُٹھایا تھا تو بدقسمتی سے ہم پاکستانیوںکی ایک بڑی اکثریت نے من حیث القوم علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی جانب سے لگائے گئے ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ کے نعرہ کو وہ پذیرائی نہیں بخشی ،جس کی یہ تحریک اصل میں حقدار تھی ۔حالانکہ ہم اُس وقت بھی بہت اچھی طرح سے جانتے اور سمجھتے تھے کہ پاکستان میں رائج فرسودہ انتخابی نظام پر ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری کے تمام تر اعتراضات بالکل بجا،سیاسی نظام کو لاحق مرض کی تشخیص سو فیصد درست اور انتخابات سے پہلے اصلاحات کا مطالبہ عین برحق ہے۔
لیکن اس کے باوجود ہم جمہوریت کی’’سیاسی محبت ‘‘میں مبتلاء ہو کر زبردست ’’سیاسی ہچکاہٹ‘‘ کا شکار ہوگئے کہ ’’کہیں ایسا نہ ہوجائے ،کہیں ویسا نہ ہوجائے‘‘اور ریاست پاکستان کو سیاسی عفریت سے بچانے کے لیے شروع کی گئی تحریک آرٹیکل 62,63 یعنی صادق اور امین کے غیر آئینی ہنسی مذاق میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کردی گئی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم آٹھ سال قبل یہ ادراک ہی نہ کر سکے تھے کہ ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ کی تحریک ’’ریاست پاکستان ‘‘ کے بہتر،درخشان اور تابناک مستقبل کے لیے کس قدر ضروری اور اہم ہے۔ مگر آج جب کہ’’ سیاست‘‘ اور اس کے نام نہاد انقلابی و جمہوری ہرکاروں نے چہار جانب سے ’’ریاست ‘‘ پر حملہ آور ہونے کے لیے اپنی تمام تر سیاسی صف بندی پی ڈی ایم کی صورت میں مکمل کرلی ہے تو ایک عام پاکستانی بھی التجا کناں دکھائی دیتا ہے کہ برائے مہربانی ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘۔
کتنی عجیب بات ہے کہ گوجرانوالہ میں ہونے والے پی ڈی ایم کے پہلے جلسہ میں ریاست کو نام لے کر فقط للکارا گیا تھا لیکن کراچی کے دوسرے جلسہ میں پی ڈی ایم کے میزبان اور مہمان ریاستی اداروں کو باقاعدہ دھمکانے اور ڈرانے کی ناکام کوشش بھی کرگزرے ،جبکہ کوئٹہ کے تیسرے جلسہ میں ریاست کے دامن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے والے ’’ سیاسی ہاتھ‘‘ اَب ایاز صادق کے بیان کی صورت میں ریاست ِ پاکستان کے گریبان تک آپہنچے ہیں۔ واضح رہے کہ سیاسی للکار سے لے کر گریبان تک کا طویل ترین سفر اتنی عجلت میں سرعت کے ساتھ طے کرنے کے لیے جتنی زیادہ سیاسی پشت پناہی اور آشیر باد درکار ہے ،یقیناوہ ملک میں تو کسی بھی صورت کہیں سے بھی پی ڈی ایم رہنماؤں کو دستیاب نہیں ہوسکتی تھی۔
اس لیے غالب گمان یہ ہی ہے کہ اپوزیشن الیون کے ’’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے پرانے بیانیے کے ناکام ہو جانے کے بعد ’’ٹانگیں کانپنے والے‘‘ نئے نکور جھوٹے بیانیے کے اصل صلح کار ،صدا کار اور تخلیق کار سب کے سب ملک سے باہر لندن اور دہلی کے کسی شبستان میں محو آرام ہوں گے۔جبکہ یہاں اُن کی تخلیق کی گئی سیاسی پتلیاں وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کی حکومت گرانے کے فراق میں اس حد تک خود کو گرا چکی ہیں کہ اُنہیں ملک وقوم کے احساسات و جذبات کا بھی ذرہ برابر احساس یا پاس نہیں رہا ہے۔ کیا کسی منتخب حکومت کو گرانے کے لیے لازم ہے کہ ریاستی اداروں کو ہی اپنے نشانے پر رکھ لیا جائے ؟۔ بھئی اگر عمران خان کی حکومت سے اختلاف ہے تو اُس کے خلاف ہی ’’سیاسی تحریک ‘‘ چلائی جائے ناکہ عمران خان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی آڑ میں ریاستی اداروں کے خلاف مخاصمانہ کشمکش کا آغاز کردیا جائے اور مخاصمت بھی ایسی کہ ازلی دشمن ملک کے خلاف حاصل ہونے والی اپنی تاریخ ساز عسکری فتح پر شکست کا کچا رنگ چڑھا کر اُسے خوشی کے شادیانے بجانے کا سنہری موقع فراہم کردیا جائے۔
یادش بخیر ! کہ سیاست کا پانی ریاست کے سر سے گزرنے کے بعد بھی ہمارے بعض سیاسی تجزیہ کار پورے شد و مد کے ساتھ اصرار کررہے ہیں کہ پاکستان میں رہنے اور بسنے والے کسی سیاسی رہنما کو اُس کی کسی بھی سیاسی حرکت،فعل اور بیان کی وجہ سے غدار نہ قرار دیا جائے ۔چلو تھوڑی دیر کے لیے اُن کی بات ہی مان لیتے ہیں اور پاکستان کی سیاسی ڈکشنری سے لفظ غدار کو نکال کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے باہر پھینک دیتے ہیں۔ مگر ریاستی اداروں کے خلاف صبح و شام دشنام طرازی کرنے والوں کو کم ازکم غلط ،گمرہ اور بدطینت تو کہا ہی جاسکتاہے ۔لیکن اگر اُنہیں غلط قرار دینے کی بھی کسی کو اجازت نہ دی جائے تو پھر ایک عام پاکستانی کے پاس سوائے اس کے کیا کوئی دوسرا راستہ باقی رہ جاتا ہے کہ وہ بھی ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ کا علم اپنے ہاتھ میں تھام لے؟ ۔
کیونکہ ایک بات اچھی طرح سے ذہن نشین رہے کہ سیاست اور جمہوریت ریاست کی گود میں پلنے والے دو لے پالک بچے ہی توہوتے ہیں ۔اگر خدانخواستہ یہ دونوں بچے ہی سنپولیوں کی مانند اپنی ماں کو نگلنے کی کوشش شروع کردیں گے تو پھر ریاست کے اصل بچوں یعنی عوام الناس پر یہ ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے کہ وہ ان آستین کے سانپوں کواپنے پیروں تلے کچل کرتمام تر سیاست کو ایک طرف رکھ کر سب سے پہلے اپنی ریاست کو بچالیں ۔ہمیں اُمید کامل ہے کہ پی ڈی ایم کے جلسوں میں قیمے والے دو چار نان، سگریٹ کے چند پیکٹ اور بریانی کی ایک پلیٹ کے بہلاوے میں پھسلا کر لائی جانے والی سادہ لوح عوام ہی ریاست کے مستقبل کو لاحق سنگین خطرات کا بروقت ادارک کرتے ہوئے اپوزیشن الیون کے ’’گیارہ‘‘سیاسی بدمعاشوں کی بدمعاشی سے اپنی ریاست کو بچائے گی اور سیاست سے پہلے ریاست کے تحفظ کو یقینی بناکر ساری دنیا پر ثابت کردے گی کہ ایسے بچاتے ہیں کرپشن زدہ سیاست سے اپنی جان سے پیاری راج دُلاری ریاست کو۔

حملہ آور کو میں خود ہی ریاست دے دوں
اپنے لوگوں پہ یہ حملے نہیں دیکھے جاتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر