وجود

... loading ...

وجود
وجود

’’بائیکاٹ فرانس ‘‘ کی عالمگیر احتجاجی مہم

منگل 03 نومبر 2020 ’’بائیکاٹ فرانس ‘‘ کی عالمگیر احتجاجی مہم

فرانسیسی صدر عمانویل میکرون کی جانب سے اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کی ذاتِ اقدس کے بارے میں توہین آمیز خاکے اور مواد کی اشاعت کی ریاستی حمایت جاری رکھنے کے اعلان کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں میں فرانس،فرانسیسی عوام اور فرانسیسی صد ر کے خلاف شدید ترین نفرت کے جذبات پائے جاتے ہیں ،جس کا اظہار دنیا بھر کے مسلمان اپنے اپنے انداز میں کررہے ہیں ۔جبکہ چند مسلمان ریاستوں کے سربراہان کی جانب سے بھی فرانسیسی صدر عمانویل میکرون کی شدید الفاظ میں مذمت بھی کی گئی ہے ۔مثلاً ترکی کے صدر طیب اردوان اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے فرانسیسی صدر عمانویل میکرون کو اُن کی گستاخانہ حرکت پر آڑے ہاتھوں لیا ہے۔نیز پاکستانی وزیراعظم نے ایک قدم مزید آگے بڑھاتے ہوئے معروف سوشل میڈیا نیٹ ورک فیس بک کے بانی مارک زکر برگ کو بھی احتجاجی مراسلہ تحریر کیا ہے ،جس میں فیس بک انتظامیہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ’’وہ ذمہ داری کی مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے متعلق گستاخانہ مواد کی روک تھام کو یقینی بنائے‘‘ ۔لیکن بدقسمتی سے دوسری جانب مسلم ممالک کے اکثر حکمران ابھی تک عمانویل میکرون کی طرف سے کی جانے والی اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کی ذاتِ اقدس کی توہین پر چپ کی چادر اُوڑھے گہری نیند سورہے ہیں ۔ خاص طور پر عرب ممالک کے حکمرانوں کا رویہ ماضی کی طرح اِس بار بھی انتہائی شرم ناک اور قابل مذمت ہی قرار دیا جاسکتاہے۔حالانکہ عرب عوام فرانسیسی صدر عمانویل میکرون کے گستاخانہ عزائم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور انفرادی طور پر فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ بھی کررہے ہیں ۔مگر گستاخی رسول ﷺ کے حساس ترین معاملہ پر عرب حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی جہاں فرانسیسی صدر کی پشت پناہی کے مترادف ہے وہیںچند مسلم حکمرانوں کے مجرمانہ رویہ کے باعث ’’بائیکاٹ فرانس‘‘ کی عالمگیر تحریک کو زبردست سیاسی نقصان بھی پہنچ رہا ہے۔
کتنی عجیب بات ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ سے متعلق گستاخانہ مواد کی اشاعت کی ہر مذموم کوشش اورعملی حرکت کے پیچھے ہمیشہ فرانس کی ریاست ہی دکھائی آتی ہے ۔کیا یہ کوئی حسنِ اتفاق ہے؟ یا پھر مغربی دنیا کی ایک سوچی سمجھی سازش ؟۔ جب تک ہم بنیادی نوعیت کے اس اہم ترین سوال کا جواب نہ تلاش کرلیں ۔بحیثیت مسلم اُمہ ہماری ’’بائیکاٹ فرانس ‘‘ کی عالمگیر احتجاجی مہم کبھی بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکے گی یا اسے کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔یاد رہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے بارے میں توہین آمیز خاکے اور مواد کی اشاعت کو ہمیشہ ’’سیکولر ازم ‘‘ اور ’’آزادی اظہاررائے‘‘ کے خوش کن نظریات کے ساتھ نتھی کرتے ہوئے دنیا بھر کے مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ’’پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف توہین آمیز خاکے ہوں یا پھر کوئی دیگر مواد ،اس کی اشاعت کا بنیادی مقصدِ وحید ’’سیکولر ازم ‘‘ اور ’’آزادی اظہار رائے ‘‘کا دفاع کرنا ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ’’سیکولرازم ‘‘ ہو یا پھر ’’آزادی اظہار رائے ‘‘اِن نظریات کا علمبردار تو ہر مغربی اور یورپی ملک برابر ہی ہے لیکن اس کے باجودآخر کیوں؟ ہر بار گستاخانہ خاکوں کی اشاعت میں زیادہ تر فرانس اور فرانسیسی شہری ہی ملوث پائے جاتے ہیں ۔ جبکہ جس ’’سیکولر ازم ‘‘ کے دفاع کا نعرہ فرانسیسی صدر عمانویل میکرون بلند کررہے ہیں ،یہ لفظ بطورنظریاتی اصطلاح سب سے پہلے برطانوی مصنف جارج ہولوویک نے 1851 میں استعمال کیا تھا۔ہولوویک کے نزدیک اس اصطلاح کی ایجاد کا مقصد تحریر و تقریر میں مذہبی عقائد کو مکمل طور پر مسترد کرنا تھا ۔اس کے علاوہ دنیا کی پہلی سیکولر حکومت امریکا میں تشکیل دی گئی تھی۔لیکن جب ’’سیکولر ازم ‘‘ کی دفاع اور اُسے فروغ دینے کی بات آتی ہے تو ہر باربرطانیہ اور امریکا کو پیچھے چھوڑ کر فرانس خم ٹھونک کر مسلمانوں کے سامنے آجاتا ہے اور دیگر یورپی و مغربی ممالک اس کے ساتھ ہم آواز ہوکر گستاخانہ مواد کی اشاعت کی مہم کو مزیدمہمیز دینا شروع کردیتے ہیں۔
یاد رہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف پہلا توہین آمیز ڈرامہ فرانس کے تھیٹر میں اٹھارویں صدی کے آخر میں عوام کے سامنے پیش کرنے کی مذموم جسارت کی گئی تھی ۔ لیکن خوش قسمتی سے اُس وقت سلطنت عثمانیہ کی باگ دوڑ سلطان عبد الحمید جیسے عاشقِ رسول ﷺ حکمران کے ہاتھ میں تھی ۔لہٰذا سلطان عبدالحمید نے فرانس میں توہین آمیز ڈرامے کا انعقاد ہونے سے پہلے ہی اُسے سبوتاژ کردیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فرانسیسی حکومت کو اس توہین آمیز اقدام سے باز رکھنے کے لیے سلطان عبدالحمید نے فرانس پر سفارتی دباؤ ڈالنے کے بجائے برطانیا اور امریکی ریاست پر اپنا تمام تر سیاسی و سفارتی دباؤ ڈالا تھا ۔ کیونکہ سلطان کی زیرک اور دور اندیش سیاسی نگاہوں نے بھانپ لیا تھا کہ فرانس میں ہونے والے توہین آمیز ڈرامہ کے اصل تانے بانے برطانیا اور امریکامیں بنے جارہے ہیں ۔اس تاریخی حقیقت کو گوش گزار کرنے کا مقصد بس یہ سمجھانا ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف توہین آمیز خاکے اور مواد کی اشاعت میں صرف فرانس ہی نہیں بلکہ برطانیا ،امریکا اور دیگر مغربی و یورپی ممالک بھی برابر کے شراکت دار ہیں ۔ ہاں ! یہ ضرور ہے کہ انہوں نے اس مذموم کام کی تکمیل کا ’’ظاہری فریضہ ‘‘ریاستِ فرانس کے سپرد کیا ہواہے۔ اس لیے ’’بائیکاٹ فرانس ‘‘ کی کوئی بھی عالمگیر احتجاجی مہم اُس وقت مؤثر ثابت نہیں ہوسکتی جب تک اس احتجاجی مہم میں فرانس کے پشت پناہی کرنے والے دیگر یورپی و مغربی ممالک کو بھی براہ راست نشانہ نہیں بنایا جاتا۔یعنی ہمیں صرف فرانس نہیں بلکہ دیگر یورپی و مغربی ممالک کا سیاسی و سماجی بائیکاٹ کرنا ہوگا۔بصورت دیگر ہماری ’’بائیکاٹ فرانس ‘‘ کی مہم ادھوری ہی رہے گی۔
یوں سمجھ لیجئے کہ مسلم اُمہ کو آقائے نامدار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف گستاخانہ خاکوں اور دیگر مواد کی اشاعت کے خلاف ’’بائیکاٹ فرانس ‘‘ جیسی عالمگیر احتجاجی مہم چلانے کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ میں بھی اسلامو فوبیا کے اپنے مقدمہ کو موثر انداز میں نہ صرف پیش کرنا ہوگا بلکہ دلائل و براہین سے اس مقدمہ کو ثابت بھی کرنا ہوگا کہ’’ اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف توہین آمیز خاکوں اور مواد کی اشاعت حقیقت میں دنیا بھر کے اربوں مسلمانوں کی آزادی اظہار پر کھلم کھلا حملے کے مترادف ہے ۔اس لیئے یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ اقوام عالم کی جانب سے یورپی و مغربی ممالک کے آزادی اظہار کے تحفظ کے لیے فرانس کو اربوں مسلمانوں کے آزادی اظہارکا گلا گھونٹے کی کھلی اجازت دے دی جائے‘‘۔ اسلاموفوبیا کے خلاف اس اہم ترین مقدمہ کو اقوام متحدہ میں پیش کرنے کے لیے سب سے پہلے مسلم ممالک کی عوام اپنے حکمرانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنا ہوگا کیونکہ فقط چند مسلم حکمرانوں کی جانب سے جاری ہونے والے معمول کے مذمتی بیانات سے مستقبل میں فرانس ،فرانسیسی حکومت اور فرانسیسی عوام کو اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف گستاخانہ جسارت سے روک پانا ازحد مشکل ہوگا۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ میں اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف گستاخانہ خاکے اور دیگر توہین آمیز مواد کی روک تھام کے لیے عالمی قانون پاس کروانا اتنا مشکل بھی نہیں ہے ،جتنا کہ ہمیں باور کروایا جاتاہے۔اس وقت کم وبیش 57 اسلامی ممالک اقوام متحدہ کے متحرک و باقاعدہ رکن ہیں ۔ جبکہ یقینا اِن 57 اسلامی ممالک کے دیگر کئی ممالک کے ساتھ زبردست قسم کے سفارتی تعلقات بھی ہوں ۔لہٰذا یہ تمام 57 اسلامی ممالک اپنے سفارتی تعلقات کوبروئے کار لاتے ہوئے ناموس رسالتﷺ کے تحفظ کے لیئے اقوام متحدہ میں ایک قرارداد باآسانی پاس کروا کر اُسے بین الاقوامی قانون بنوا سکتے ہیں ۔ اگر مسلم ممالک ناموس رسالت ﷺ کے تحفظ کے لیے ایک عالمی قانون بنوانے میں کامیاب ہوجائیں تو پھر فرانسیسی صدر عمانویل میکرون ہو یا پھر ڈنمارک کی حکومت کسی بھی دنیا بھر میں گستاخی رسول ﷺ کرنے والوں کی پشت پناہی کرنے کی جرات نہ ہوسکے گی۔مگر اس کے لیے سب سے پہلے 57 مسلم ممالک کے مسلمان حکمرانوں کے کچھ جرات دکھانا ہوگی۔
کتنی بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ فرانسیسی صدر عمانویل میکرون کی جانب سے اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف گستاخانہ خاکے اور مواد کی اشاعت کو ایک ہفتہ سے زائد ہوچکا ہے لیکن ابھی تک مسلم ممالک کی کسی بھی نمائندہ عالمی تنظیم جیسے عرب لیگ یا او آئی سی وغیرہ نے ’’بائیکاٹ فرانس ‘‘ کی عالمگیر احتجاجی مہم کو مزید مؤثر تر بنانے کے لیے اپنا ایک مختصر سا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی ہے ۔حالانکہ ان تنظیمات کا کوئی بھی رکن ملک کسی بھی حساس مسئلہ پر گفت و شنید اور لائحہ عمل بنانے کے لیے تنظیم کا ہنگامی اجلاس بلانے کی درخواست دائر کرسکتاہے ۔ مگر شاید فرانس کے خلاف دنیا بھر کے مسلمانوں کے احتجاج کا ہنگامہ ابھی تک مسلم حکمرانوں کے نگاہوں سے ہوکر نہیں گزرا۔ہم بھی کیاسادا ہیں کہ سوچتے ہیں ’’بائیکاٹ فرانس ‘‘ کی ہماری عالمگیر احتجاجی مہم مغرب اور یورپ کے حکمرانوں کو جھنجوڑ کر رکھ دے گی جبکہ المیہ یہ ہے کہ ’’بائیکاٹ فرانس‘‘ کی احتجاجی مہم سے ابھی تک مسلمان حکمرانوں کے آنکھیں بھی پوری طرح سے نہ کھل سکی ہیں ۔ ’’بائیکاٹ فرانس ‘‘کی عالمگیر احتجاجی مہم اُس وقت اپنے درست نتائج فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس کی پشت پناہی کرنے پر مسلم ممالک کے تمام حکمران آمادہ نہ ہوجائیں ۔کیونکہ عالمی سطح پر ناموسِ رسالت ﷺ کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے مسلمانوں کی انفرادی کوششوں سے بڑھ کر بھی سیاسی و سفارتی اقدامات کی ضرورت ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر