وجود

... loading ...

وجود
وجود

فاتح کون، نسل پرست یا لبرل۔۔؟

منگل 03 نومبر 2020 فاتح کون، نسل پرست یا لبرل۔۔؟

تین نومبر کا صدارتی معرکہ زیادہ دور نہیں رہا لیکن کئی دہائیوں بعد امریکا عجیب دوراہے پر ہے ایک طرف معیشت زوال کا شکارہے تو دوسری طرف معاشرے میں تقسیم بڑھ رہی ہے انتخابی مہم کے دوران پیدا ہونے والی تلخی کے تناظر میں نتائج پربھی انگلیاں اُٹھانے کا امکان ہے جس کاٹرمپ عندیہ دے چکے ہیں جس سے مبصرین کا خیال ہے کہ موجودہ انتخابی نتائج تنازع کا موجب ہو سکتے ہیں جس سے امریکا کا عالمی کردار محدود ہو سکتا ہے واحد عالمی سُپر پاور کو پہلے ہی چین کی صورت میں ایک بڑا چیلنج درپیش ہے ،اگر اندرونِ ملک انتشاروافرتفری میں اضافہ ہوتا ہے تو نئے امریکی صدر کی توجہ خارجی مسائل سے ہٹ سکتی ہے اس طرح مدمقابل فریق کو آگے بڑھنے اور پچھاڑنے کا موقع مل سکتا ہے ۔
امریکہ کی عالمی حیثیت کی وجہ سے صدارتی انتخاب پر دنیا بھر کی نظریں ہوتی ہیںاسی بناپر امیدواروںکے مباحثوں میں عالمی مسائل کو اہم حیثیت حاصل رہی ہے لیکن موجودہ صدارتی چنائو میں پہلی بار ٹرمپ اور جو بائیڈن کی زیادہ توجہ صرف اندرونی مسائل پر ہے، ٹرمپ نے اسرائیل کو محفوظ بنانے کے لیے کئی ایسے اقدامات کیے ہیں جن کی وجہ سے یہودی لابی خوشی سے حمایت کررہی ہے، یو اے ای اور بحرین سے سفارتی مراسم استوار کرانے سمیت ڈیم کی تعمیر پر ایتھوپیا کو ڈانٹنے اور مصر کی حمایت بھی اسرائیلی کوششوں کا نتیجہ ہے چین کے مدمقابل بھارت کو لانے کے لیے دہلی سے تعلقات میں گرمجوشی کی بنا پر بھارتی کمیونٹی بھی کھل کر ٹرمپ کے ساتھ ہے یہودی اور ہندولابی متحرک ہونے سے یہ توقع کر لینا کہ جوبائیڈن کی کامیابی سے امریکی پالیسی یکسر تبدیل ہوجائے گی درست نہیں کیونکہ جوبائیڈن مشرقِ وسطیٰ میں دور یاستی حل کی حمایت ضرور کرتے ہیں لیکن ایسا کیسے ممکن ہوگا طریقہ کاربتانے سے قاصر ہیں؟ بھارت نے جب پہلی بار ایٹمی دھماکے کیے جس کی پاداش میں پابندیاں لگانے کی بات ہوئی تو جوبائیڈن نے بطور سینٹربھارت کے حق میں ووٹ دیا اِس لیے صدر کوئی بھی منتخب ہوامریکی پالیسی میں بڑی تبدیلی کا امکان کم ہے ۔
انتخابی مہم اور مباحثوں کے دوران ٹرمپ اور جوبائیڈن نے ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے کیے جن کے دوران پالیسیوں کے ساتھ ذاتیات پرتنقید ہوتی رہی ،یہ تلخی امیدواروں تک محدود نہیں رہی بلکہ امریکی معاشرے میں بھی سرایت کرتی جارہی ہے سیاہ فام نسلی تعصب ختم کرنے اور جارج فلائیڈ سمیت دیگر بے گناہوں کے بارے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی احتجاجی مہم چلارہے ہیں تو سفید فام بھی مقابلے پر منظم ہورہے ہیں،اس نسلی تعصب و مخاصمت کے خطرے میں مستقبل قریب میں کمی کے آثار نظر نہیں آتے طرفہ تماشہ یہ کہ ٹرمپ کھل کر سفید فاموں کی حمایت کر رہے ہیں جبکہ جوبائیڈن سیاہ فاموں کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں لیکن دونوں امیدوار وں کا مقصدانصاف نہیں بلکہ صدارتی انتخاب میں فائدہ اُٹھانا ہے لاطینی ،ایشیائی اور افریقی نژاد کو معاشی ،معاشرتی اور سماجی حوالے سے برابری کے حقوق دلانے کی بات حمایت حاصل کرنے کے سواکچھ نہیں اِس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جوبائیڈن کو ٹرمپ پر جائزوں میں برتری حاصل ہوئی ہے لیکن بظاہر خلوص جتانے کے باوجود وائٹ ہائوس میں چہرے کی تبدیلی سے صورتحال تبدیل ہونے کی بجائے جوں کے توں رہنے کا امکان ہے۔
ٹرمپ کے چار سالہ دور میں بظاہر عالمی تنازعات میں امریکی مداخلت کم کرنے کی کوششیں ہوئیں لیکن امریکی مفادات کولاحق خطرات میں کمی نہیں ہوئی افغانستان اور مشرقِ وسطیٰ میں لیبیا،یمن،شام ،فلسطین اور عراق کے حوالے سے امریکی پالیسیوں میں یکسوئی کا فقدان ہے ایران سے تنائو میں بھی کمی نہیں ہوئی بلکہ امن پسندی کی بجائے ٹرمپ کی بطور اسلحہ تاجر پہچان بنی ہے لیکن
جو بائیڈن کے پاس بھی مذکورہ مسائل کے حل کا کوئی فارمولا نہیں اگر ہوتا تو شخصی الزام تراشی کے ساتھ اپنے نکتہ نظر کا اظہار کرتے مگر دوریاستوں کی بات کرنے سے آگے نہیںبڑھے علاوہ ازیں نیٹو پر بھی امریکی گرفت کمزور ہوئی ہے اِس حوالے سے ترکی سمیت یورپی ممبران ممالک اور امریکی سوچ میں اختلافات ڈھکا چھپا نہیں رہا جس سے اِس خیال کو تقویت ملنے لگی ہے کہ امریکا کو اپنی عالمی حیثیت کے دفاع میں دلچسپی نہیں رہی وہ دوبدو مقابلے کی بجائے سازشوں کے ذریعے نفاق کے بیج بونے تک محدود رہنے لگا ہے چین وبھارت۔ترکی و یونان محازآرائی واضح مثال ہے ۔
تین نومبر کچھ زیادہ دور نہیں رہا بس ایک دن باقی رہ گیا ہے جس کے بعد نتائج کا پتہ چل جائے گا لیکن ذہن میں رکھنے والی بات یہ ہے کہ مقابلے پرہیلری کلنٹن جیسی امیدوار نہیں بلکہ جو بائیڈن جیسا امیدوار ہے جن کا کئی دہائیوں سے بطور سینٹر امریکی اقتدار کے مراکز سے قریبی تعلق ہے جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی امیدوار ہونے کے ساتھ چارسالہ صدارت کی مدت گزار چکے ہیں اِس لیے جب مبصرین پرامن انتقال اقتدار کے بارے خدشات کا اظہار کرتے ہیں تو یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی بظاہر جائزوں میں جوبائیڈن اپنے حریف سے آگے ہیں لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ گزشتہ صدارتی انتخاب میں ہیلری کلنٹن کو بھی برتری حاصل تھی مگر نتائج میں ٹرمپ نے پچھاڑ دیا کیا اب دونوں امیدواروں میں سے کوئی ہلیری کی طرح آسانی سے شکست تسلیم کر لے گا ؟بظاہر اِس کا جواب ہاں میں نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ٹرمپ اِس امر کا اظہار کر چکے ہیں کہ اگر وہ صدارتی الیکشن ہار گئے تو نتائج تسلیم نہیں کریں گے ۔
کورونا وبا کے دوران حکمت عملی نے ٹرمپ کی مقبولیت کو متاثر کیا ہے امسال رائے کے اظہار میںپوسٹل بیلٹ کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے جس کا توڑ انھوں نے ٹیکسوں میں کمی لاکرکرنے کی کوشش کی جبکہ جو بائیڈن ٹیکسوں میں اضافے کے ذریعے معیشت کوبہتربنانے کی بات کرتے ہیں اب مریکیوں نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ٹیکس کم کر نے اور کورونا وبا کے دوران تین سو ارب ڈالرکا ریلیف دینے والے نسل پر ست پر اعتماد کرنا ہے یا ٹیکسوں میں اضافے کے متمنی کو منتخب کر نا ہے الیکٹورل ووٹوں میں عین موقع پر اگر کوئی انہونی نہ ہوئی تو بظاہر جو بائیڈن کے جیتنے کا زیادہ امکان ہے لیکن نسل پر ست ٹرمپ کا میاب ہو یا لبرل جو بائیڈن، امریکی پالیسی میں بڑی تبدیلی کی توقعات پوری ہونے کا امکان نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر