وجود

... loading ...

وجود
وجود

یورپ میں مذہب کے نام پر نئی صف بندی

پیر 02 نومبر 2020 یورپ میں مذہب کے نام پر نئی صف بندی

جیساکہ آج کل فرانس کے صدر کیمرون نے آزادی رائے کے تحفظ کے نام پر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کیا ہے اس نے نہ صرف یورپ کے مسلمانوں بلکہ دنیا بھر میں موجود کلمہ گو مسلمانوں کے دل چھلنی کردیئے ہیں اوریہی وجہ ہے کہ اس کے جواب میں دنیائے اسلام میں اس وقت فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی ایک بڑی مہم شروع ہوچکی ہے۔ اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ مغرب میں توہین رسالت کی تاریخ خاصی پرانی ہے جب علم اور دلیل کی حد ختم ہوتی ہے تو وہاں سے جھالت اپنا راستہ بناتی ہے علم کے دعوایدار مغرب نے اس شعبے میں سب سے زیادہ جھالت کو ہی اختیار کیا ہے۔ توہین رسالت میں صرف فرانس کا ہی کردار نمایاں نہیں ہے بلکہ تمام یورپ اس میں شامل ہے اب یہ اسے آزادی رائے کا نام دے کر استعمال کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اچانک فرانس کے صدر ماکرون کو آزادی رائے کا خیال آیا ہے یا یہ کوئی ٹائمنگ کے لحاظ سے یہ کوئی سوچا سمجھا منصوبہ ہے؟
جیساکہ ہم جانتے ہیں اس وقت یورپ اور امریکا اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کی وجہ سے عالمی سطح پر پسپائی سے دوچار ہیں، افغانستان میں امریکااور اس کے یورپی دجالی صہیونی حواریوں کا کیا حال ہوچکا ہے وہ سب جانتے ہیں، دوسری جانب مغرب کی اس پسپائی کے دوران ہی ترکی کی پیش قدمیاں بھی شروع ہوچکی ہیں ایک طرح بحیرہ روم اور دوسری جانب بحیرہ اسود پر ترکی کی سرگرمیاں زور پکڑتی جارہی ہیں، روس اور چین اور ترکی کے درمیان ایک عسکری، معاشی اور سیاسی اتحاد وجود میں آچکا ہے افریقہ میں چین کی معاشی پیش قدمی اور ترکی کی جانب سے افریقہ میں پیر جمانے کے عمل نے پورے یورپ کو فکرمند کردیا ہے کہ اب یہاں ان کی غیر انسانی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے وقت محدود ہوچکا ہے یہی وجہ ہے کہ اب مذہب کے نام پر یورپ کو ایک مرتبہ پھر اکھٹا کرنے کی تیاری ہے جس کے لیے آزادی رائے کے نام پر رسول پاکﷺ کی توہین کا پہلو نکال کر پوری مسلم دنیا کو اشتعال دلایا گیا ہے تاکہ اس کے ردعمل کے غبار میں یورپ میں اسلام دشمن قوتوں کی نئی صف بندی کی جاسکے۔ یہ معاملہ صرف فرانس تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کی پشت پر پورا یورپ اور امریکا کھڑا ہے چونکہ جغرافیائی طور پر فرانس شمالی افریقہ کے قریب واقع ہے اور الجزائر جیسے بڑے ملک میں اسے استعماریت کا خونی تجربہ بھی ہے اس لیے ابتدا یہاں سے کی گئی ہے۔
اسلام دشمنی میں جہاں تک فرانس کا تعلق ہے تو اس کی سیاہ تاریخ اس قسم کے اقدامات سے بھری پڑی ہے، شمالی افریقہ سے لیکر وسطی ایشیا تک کی جدید تاریخ دیکھ لی جائے وہاں فرانس نے افریقہ میں مسلمانوں کی دولت لوٹنے کے لیے بے پناہ ظلم وستم ڈھائے ہیں الجزائر کی جنگ آزادی کسے یاد نہیں جہاں ستر لاکھ نہتے مسلمانوں فرانسیسی استعمار کے خلاف جنگ آزادی لڑتے ہوئے شہید ہوئے اسی لیے عرب صحافت میں الجزائر کو ‘‘ بلد ملاین الشھدا’’ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ الجزائر میں ہی فرانس نے سب سے پہلے اپنے ایٹمی دھماکے کرکے یہاں کی آبادی کی زندگیوں کو دائو پر لگایا تھا۔ مالی اور چاڈ کا ٹنوں سونا فرانس میں منتقل کیا گیا اوراس علاقے کے مسلمانوں کو فاقوں مرنے پر مجبور کردیا گیا۔ خود یورپین تاریخ دان اس بات کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ فرانس کی تمام ثروت کا انحصار افریقہ سے لوٹی ہوئی دولت پر ہے افریقی ملک مالی کے شمالی شہر اکیدال کو سونے کا شہر کہا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ فرانس نے دہشت گردی کے خاتمے کے نام پریہاں پر اپنا قبضہ جمایا ہوا ہے یہاں سے اب تک فرانس ٹنوں سونا بغیر کسی قانونی جواز کے اپنے ہاں منتقل کرچکا ہے جبکہ یہاں کے عوام بھوک اور بدحالی کا بری طرح شکار ہیں۔ خود فرانسیسی اور دیگر مغربی مورخین کا کہنا ہے کہ بیسویں صدی میں فرانس کی کوئی وقعت نہیں تھی سوائے تین چیزوں کے ایک وہ جوہری قوت بن گیا دوسرے جوہری قوت کی وجہ سے اسے سلامتی کونسل میں نمایاں مقام حاصل ہوگیا اور تیسرا سب سے بڑا عامل افریقہ ہے جہاں کی دولت لوٹ کر فرانس نے اپنے آپ کو مضبوط کیا۔ الجزائر، چاڈ، مالی اور دیگر افریقی ملکوں میں فرانس نے انتہائی منصوبہ بندی سے مسلمان علما دین اور ان کے ہزاروں طالب علموں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تاکہ اسلام کے حوالے سے اس خطے میں زیادہ سے زیادہ جہالت یا لاعلمی پھیل سکے ایسا تقریبا تمام یورپی ملکوں نے اپنے اپنے مسلم مقبوضات میں کیا ہے۔
توہین رسالت تو ایک پہلو ہے یورپ میں قائم سینکٹروں قدیم یونیورسٹیاں اور اس سے تعلق رکھنے والے ہزاروں مغربی مستشرقین اسلام کے ایک ایک پہلو پر ناقدانہ کام کرتے رہے ہیں انہی ہزاروں مستشرقین میں سے سینکڑوں مغربی سکالرز یا مستشرقین ایسے بھی تھے جو خود اسلام کی حقانیت کے قائل ہوکر مسلمان پوچکے ہیں اور اس کے بعد کی دینی خدمات ناقابل فراموش ہیں علم استشراق کے حوالے سے بندہ خود یورپ کی یونیورسٹیوں میں تحقیقی کام کرچکا ہے اور عنقریب ‘‘تاریخ استشراق’’ History of Orientalism کے نام سے کتاب مدون کرکے قارئین کی خدمت میں پیش کردی جائے گی۔ اس لیے مسلمانوں کو اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ یہ مغرب کی روش نئی نہیں ہے بلکہ بہت پرانی روش ہے ماضی میں چونکہ معلومات کے وسائل وافر نہیں تھے اس لئے چیدہ چیدہ افراد ہی اس سے باخبر رہتے تھے اب چونکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے اس لیے فورا بات ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتی ہے۔ یہی انفارمیشن ٹیکنالوجی اسلام اور صہیونی دجالیت کے درمیان جنگ کا نیا اور موثر ہتھیار ہے اس لیے اس محاذ پر مسلمانوں خصوصا مسلمان نوجوانوں کو پوری طرح مسلح ہونا پڑے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر