وجود

... loading ...

وجود
وجود

چین انٹارکٹکا کو بچا سکتا ہے

پیر 02 نومبر 2020 چین انٹارکٹکا کو بچا سکتا ہے

جان کیری

 

اس وقت جب چین اور امریکا میں گہرے اختلافات پائے جاتے ہیں‘ پھر بھی ایک ایسا عالمی چیلنج موجود ہے جس کے حل کے لیے ان اختلافات کے ختم ہونے کا انتظار نہیں کیا جا سکتا اور وہ ہے ماحولیاتی تبدیلی۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ امریکا اور چین ایک نئی سرد جنگ میں داخل ہو رہے ہیں، پھر بھی ہم باہمی مفادات کی خاطر تعاون کر سکتے ہیں۔ بیسویں صدی میں جب کشیدگی اپنے عروج پر تھی‘ امریکا اور سوویت یونین نے تخفیفِ اسلحہ پر مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا جو دونوں ممالک کے مفاد میں تھا۔ ایٹمی افزودگی کی طرح ماحولیاتی تبدیلی بھی ہمارے لیے ایک بڑ اچیلنج ہے اور ہم اس کے حل میں مصروف ہیں۔ ہمیں اسی مہینے اس بات وضاحت کرنے کا موقع ملا ہے کہ بڑی طاقتیں اپنی دشمنیاں الگ تھلگ رکھتی ہیں۔ ہماری زمین پر واقع بحر جنوب کے پانی کے مسئلے پر جیو پالیٹکس ختم ہونا چاہئے۔ بحر جنوب پورے براعظم انٹاکٹکا کا ا حاطہ کئے ہوئے ہے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد تخفیفِ اسلحہ کے پہلے معاہدے The Antarctic Treaty پر 1959ء میں اس وقت دستخط ہوئے تھے جب سرد جنگ پورے عروج پر تھی‘ جس کے نتیجے میں ہر طرح کی عسکری سرگرمیوں پر پابندی لگ گئی تھی اور علاقائی دعووں سے ہٹ کر پہلی مرتبہ نیوکلیئر فری ماحول کی گنجائش پیدا ہوئی تھی اور اس براعظم کو سائنس اور امن کے لیے وقف کردیا گیا۔ اب ہمیں دوبارہ موقع ملا ہے کہ اس عالمی مشترکہ میراث کو زمین سے سمندر تک توسیع دے دی جائے۔
ان تین نئے بحری پارکس کے قیام کی حمایت کر کے چین ماحولیاتی قیادت کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ بحر جنوب کے پانیوں سے لے کر مشرقی انٹارکٹکا کے جزیرہ نما اور بحیرہ ویڈل تک کسی قسم کی ماہی گیری یا صنعتی سرگرمی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس محفوظ شدہ سمندر کے چار لاکھ مربع کلو میٹر میں سے یہ ڈیڑھ لاکھ مربع کلومیٹر علاقہ ایسا ہوگا جہاں وائلڈ لائف کو گرم موسم، تیزابی پانی اور تاریخ کا سب سے بڑا ماحولیاتی تحفظ میسر ہوگا۔ بہت سی سٹڈیز سے معلوم ہوا ہے کہ بحری حیات کو محفوظ کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ تمام سمندروں کے ایک بڑے علاقے کو محفوظ اور ممنوع قرار دے دیا جائے جن میں ماہی گیری اور کسی قسم کی صنعتی سرگرمی کی اجازت نہ ہو۔ جس سے ہمارے ایکو سسٹم کو بڑی مدد ملے گی۔ بحر جنوب نہ صرف یہ کہ زندگی سے بھرپور ہے بلکہ اس سے عالمی ماحولیات کو ریگولیٹ کرنے اور آکسیجن سے بھرپور سمندری پانی کو حرکت دینے میں بھی مدد ملے گی۔ اس پانی میں ایسے نیوٹرینٹس شامل ہوتے ہیں جو سمندری حیات کے لیے ضروری ہیں۔
انٹارکٹک ایکو سسٹم کی ایک فائونڈیشن جسے Krill کہتے ہیں‘ اس ایکو سسٹم کی خوراک کا بڑا ذریعہ ہے۔ اس کے لائف سائیکل کے ذریعے زمینی ماحول میں سے ہر سال 23 ملین ٹن کاربن ڈائی ا?کسائد گیس کو لاک اپ کرنے میں مدد ملتی ہے جو 35 ملین کاروں کی پیدا کردہ گرین ہائوس گیس کے برابر ہوتی ہے لیکن انٹارکٹکا اس کرہ? ارض پر سب سے زیادہ گرم ہونے والا خطہ ہے جو اپنے اندر اور اپنے ٹھنڈے پانیوں سے دور بھی خاص مضمرات کا حامل ہے۔ جنوری میں پہلی مرتبہ یہ رپورٹ ہوا ہے کہ گرمی کی پہلی لہر نے مشرقی انٹارکٹکا کے ساتویں براعظم کو ہٹ کیا ہے جہاں شیراس گلیشیر کے نیچے برف پگھلنے کا عمل دیکھا گیا ہے۔ حال ہی میں ریسرچرز نے یہ انکشاف کیا ہے کہ انٹارکٹکا کی برف کی تہہ کے 60فیصد حصے کے پگھلنے کاخطرہ ہے اور یہ ایسا نقصان ہے جس سے سمندری پانی کی سطح بلند ہو جائے گی اور ساحلی شہروں میں زبردست تباہی پھیلے گی اور بحر جنوب کے ایکو سسٹم کو بہت نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمارے پاس پہلے ہی ایسا بلیو پرنٹ ہے جس سے سمندری ایکو سسٹم کو پہنچنے والے نقصان میں کمی کی جا سکتی ہے۔ چار سال پہلے ایک کمیشن تشکیل دیا گیا ہے‘ جسے CCAMLR کہا جاتا ہے، یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو بحر جنوب کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس نے بحیرہ راس میں دنیا کا سب سے بڑا محفوظ علاقہ قائم کیا ہے۔ اس اقدام نے روس، امریکا اور چین سمیت سب اتحادیوں اور حریفوں کو مزید متحد کر دیا ہے تاکہ وہ یہ ثابت کر سکیں کہ دنیا کے دیگر حصوں میں کشیدگی کے باوجود انٹارکٹکا میں سائنس، امن اور تحفظِ بحری حیات کے معاملے میں ہم سب متحد ہیں۔
2016ء میں ہونے والے اس معاہدے میں مجھے بھی اپنے چینی ہم منصب کے ساتھ مل کر کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ 2012ء میں چینی حکومت نے اپنے آئین میں Ecological Civilization کا تصور شامل کیا تھا جبکہ صدر ڑی جن پنگ کا کہنا ہے کہ معیشت اور ماحولیات کا براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ ہم ماحولیاتی تبدیلی پر پہلے ہی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کا اعلان کر چکے ہیں جب صدر براک اوباما اور صدر ڑی جن پنگ نے اعلان کیا تھا کہ ہم اپنے اپنے ممالک میں پیرس معاہدے کی روشنی میں گیسوں کے اخراج میں کمی لائیں گے۔ چین اپنے گھر اور بیرونی دنیا میں ماحولیاتی تبدیلی کا ایک بڑا علمبردار بن کر سامنے آیا ہے۔ اس مسئلے پر دنیا ایک بار پھر ہم دونوں ممالک کی طرف دیکھ رہی ہے۔
اب ہمارے پاس ایک موقع ہے کہ ایک قدم آگے بڑھیں اور ایک بڑے اقدام کے لیے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامیں جس سے سمندروں میں ماحولیاتی مسائل کے حل کے لیے عالمی عزائم کے حوالے سے شکوک ختم کرنے کا موقع ملے۔ اس کمیشن میں شامل حکومتیں انٹارکٹکا میں ایک نیا اور محفوظ علاقہ بنانے کافیصلہ کرنے کے لیے ملتی رہتی ہیں اور اس میں ہونے والی پیشرفت کا انحصار اس بات پر ہے کہ کیا چین ان 24 ممالک اور یورپی یونین کے ساتھ شامل ہونے کے لیے تیار ہے جو پہلے ہی اس کی منظوری دے چکے ہیں۔ کمیشن اتفاق رائے سے کام کرتا ہے اور تین نئے بحری پارکس کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ تمام رکن ممالک اس ممنوعہ علاقے میں ماہی گیری کی اجازت نہ دیں۔ اب یہ موقع نہیں ہے کہ عالمی ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے کیے گئے وعدوں پر سوالا ت اٹھائے جائیں یا کثیر قومی پلیٹ فارمز پر سائنس پر مبنی باہمی تعاون میں کمی کی جائے۔ چین کے پاس اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کی پوری استطاعت موجود ہے۔ اختلافات کے باوجود اس میں کامیابی تمام قوموں کی کامیابی ہو گی اور سب سے بڑھ کر یہ ہماری آنے والی نسلیں کی کامیابی ہوگی جو ماحولیاتی تبدیلی پر فتح یابی کے لیے ہمارے اوپر انحصار کر رہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر