وجود

... loading ...

وجود
وجود

آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جنگ

پیر 12 اکتوبر 2020 آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جنگ

جنوبی قفقاز کے علاقے کے دو ملک آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان نگورنو کاراباخ کے متنازع علاقے کی وجہ سے جنگ چھڑے دو ہفتے ہوچکے ہیں اور آذری فوجیں ترکی کی مدد سے تیزی کے ساتھ کاراباخ کے علاقے کو آزاد کرا رہی ہیں۔ اس تنازع کی حقیقیت جاننے کے لیے ہمیں تاریخ میں جھانکنا ہوگا۔
وسط ایشیائی ممالک آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان نگورنو کاراباخ کے متنازع علاقے میں حالیہ فوجی کشیدگی کی تاریخ سوویت یونین سے جڑی ہوئی ہے اور اب تک اس علاقے پر دونوں ممالک میں خون ریز جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ جنوبی قفقاز ( North Caucasus) نگورنو کاراباخ کا علاقہ باضابطہ طور میں جمہوریہ آذربائیجان کا حصہ ہے لیکن آرمینیا بھی اس علاقے پر دعویٰ کرتا ہے ۔ یہ علاقہ مسلم اکثریتی (شیعہ اکثریتی) ملک آذربائیجان اور عیسائی اکثریت آرمینیا کے درمیان میں 1918ء میں روسی سلطنت سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سے تنازع کی وجہ بنا ہوا ہے ۔
جنوبی قفقاز میں سوویت توسیع کے بعد 1923ء میں نگورنو کاراباخ کے علاقے کو آذربائیجان کا علاقہ بنادیا گیا۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد سے اس علاقے کے کنٹرول پر آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان 1988 سے 1994 تک چھ سال طویل جنگ بھی ہوئی جس میں 30 ہزار افراد ہلاک ہوئے جب کہ لاکھوں افراد کو وہاں سے ہجرت کرنا پڑی۔اس وسیع پیمانے کی جنگ کو ختم کرنے کے لیے روس نے ثالث کا کردار ادا کیا تھا لیکن دونوں ممالک نے کبھی بھی امن معاہدے پر دستخط نہیں کیے ۔جنگ ختم ہونے کے بعد بھی یہ تنازع جوں کا توں ہے اور یہاں دونوں ممالک کی افواج کے درمیان پُرتشدد جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔اس جنگ کی وجہ سے نگورنو کاراباخ کے علاقے سے آذریوں کو ہجرت کرنا پڑی جس کی وجہ سے یہاں آرمینیائی باشندوں کی اکثریت ہو گئی جب کہ حکومت بھی آرمینیا کی حمایت یافتہ بن گئی۔ کیونکہ آرمینیا سے عیسائی باشندوں کی بڑی تعداد کو یہاں لاکر بسا دیا گیا تھا۔ 1991ء کو سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اس علاقے میں ریفرنڈم بھی کروایا گیا جس میں وہاں کے عوام نے آذربائیجان سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا تھا تاہم اسے کسی عالمی تنظیم یا اقوام متحدہ کے رکن ملک نے تسلیم نہیں کیا۔
ڈیڑھ لاکھ لوگوں کے اس علاقے کو بین الاقوامی سطح پر آج بھی آذربائیجان کا حصہ تصور کیا جاتا ہے اور آذربائیجان بھی اپنے دعوے سے پیچھے نہیں ہٹا ہے ۔
90 کی دہائی کے بعد 2016 میں بھی اس علاقے میں 5 روز تک دونوں ممالک کے درمیان جنگ جاری رہی جس کی وجہ سے 100 افراد ہلاک ہوئے جب کہ رواں سال جولائی میں بھی جھڑپیں ہوئیں۔ لیکن، آزاد تجزیہ کاروں اور وہاں موجود سویلین آبادی کا کہنا ہے کہ اس وقت چھڑنے والی جنگ 90 کی دہائی کے بعد چھڑنے والی سب سے بڑی جنگ ہے اور کسی بھی وقت ’’فل اسکیل ‘‘جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے ۔
حالیہ جنگ کی ذمہ داری دونوں ممالک ایک دوسرے پر ڈالتے ہیں جب کہ ماہرین کے مطابق یہ واضح نہیں کہ اس حالیہ جنگ کی وجہ کیا بنی تاہم کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ معاملہ جولائی میں ہونے والی جھڑپوں سے شروع ہوا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ آذری فوجیں تیزی کے ساتھ کاراباخ کے علاقے میں پیش قدمی کررہی ہیں جبکہ آرمینیا کی فوج کو مختلف محاذوں پر شکست کا سامنا ہے ۔کیا یہ جنگ بڑی جنگ میں تبدیل ہوجائے گی اس بات میں ابھی وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا جہاں تک دونوں فریقوں کے بین الاقوامی اتحادیوں کا تعلق ہے تو آرمینیا کو روس اور بھارت کے علاوہ ایران کی حمایت بھی حاصل ہے جبکہ ترکی کی مخاصمت میں عرب خلیجی حکومتوں نے بھی آرمینیا کی حمایت کا اعلان کردیا ہے دوسری جانب آذربائیجان کو ترکی کی سفارتی اور عسکری مدد حاصل ہے پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھی کھل کر آذربائیجان کی حمایت کا اعلان کیا یاد رہے اسرائیل کے بعد آرمینیا ایسا ملک ہے جسے پاکستان نے تسلیم نہیں کیا ہے ۔اس جنگ کے پھیلنے کے احتمالات اس لیے زیادہ ہیں کہ یہ خطہ گیس اور تیل کی پائپ لائنوں کی گذرگاہ ہے جس کا بڑا حصہ مشرق اور مغربی یورپ تک جاتا ہے ۔
آذربائیجان کی فتح کی صورت میں اس خطے میں ترکی کا اثرونفوذ مزید زیادہ ہوجائے گا جو نہ روس کو منظور ہے اور نہ امریکااور یورپ کو، یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب جنوبی چین کے پانیوں میں کشیدگی تیزی سے پھیل رہی ہے ، افغانستان سے امریکا شکست خوردہ ہوکر نکل رہا ہے ، پاک چین اقتصادی راہ داری امریکا، اسرائیل اور بھارت کے گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہیں، مشرق وسطی آگ میں جل رہا ہے جہاں پر اسرائیل تیزی کے ساتھ اپنے پنجے گاڑتا چلا جارہا ہے، ادھر خطے میں بھارت اپنی تمام تر ناکامیوں کا بوجھ اتارنے کے لیے پاکستان پر کسی بھی قسم کی مہم جوئی کرسکتا ہے اس لیے ان حالات میں پاکستان کے لیے صورتحال بہت نازک ہے جس میں داخلی سیاسی توازن کا برقرار رہنا بہت ضروری ہے ۔ عرب صحافتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایران روس کے دبائو کی وجہ سے آرمینیا کی حمایت کرنے پر مجبور ہے لیکن خلیجی ریاستوں کا آرمینیا کی حمایت سمجھ سے بالا تر ہے ۔ جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ مشرقی بحیرہ روم میں تیل اور گیس کی تلاش کے سلسلے میں ترکی اور یونان کے درمیان زبردست کشیدگی پیدا ہوگئی تھی اس دوران بھی مصر سمیت عرب ممالک نے ترکی کی مخالفت میں یونان کا ساتھ دیا تھا اور یہی صورتحال کاراباخ کے مسئلے پر پیدا ہوئی ہے ۔ اس میں بھی ترکی کی مخالفت میں عرب اور خلیجی ملک عیسائی آرمینیا کی حمایت میں جت گئے ہیں۔ روس اور امریکا ترکی کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں انہیں اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ اگر عالم عرب میں (دوسری عرب بہار) کے نام پر عوامی انقلاب برپا ہوتا ہے تو کوئی بھی نئی آنے والی حکومت ترکی کی حمایت کا اعلان کردے گی۔ اس طرح اسرائیل کے عرب حکومتوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے مراسم خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ اس وقت مصر میں سیسی حکومت کے خلاف عوامی مظاہروں کا آغاز ہوچکا ہے ، خلیجی ریاستوں کے عوام میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی استواری پر غم وغصہ پایا جاتا ہے ، فلسطینی حماس اور دیگرعسکری تنظیمیں اسرائیل کے خلاف جدوجہد تیز کرنے کے لئے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی کوششوں میں مگن ہیں۔ان حالات میں اگر آذربائیجان آرمینیا کو شکست دے کر نگورنو کاراباخ کو آزاد کرا لیتا ہے تو عالمی صہیونی دجالیت کے نزدیک یہ بلاواسطہ طور پر ترکی کی فتح ہوگی جو اسرائیل، روس اور امریکہ غرض کسی بھی غیر مسلم فریق کو منظور نہیں ہوگا اس لیے آذربائیجان کی جنگ یا اس کی فتح کسی نتیجہ خیز انجام تک پہنچے اس سے پہلے خطے میں بڑی قوتوں کی براہ راست مداخلت کا پورا امکان موجود ہے جو کسی بھی وقت جنگ کا دائرہ دنیا کے مختلف محاذوں تک پھیلا سکتا ہے اس تمام منظر نامے پر روس پر گہری نگاہ رکھنا ہوگی جو تاحال خاموشی سے تمام تماشا دیکھ رہا ہے ۔
٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر