وجود

... loading ...

وجود
وجود

موبائل کی اہمیت۔۔

جمعه 02 اکتوبر 2020 موبائل کی اہمیت۔۔

دوستو، کالم شروع کرنے سے پہلے ایک واقعہ سن لیں، ہمارے ایک دوست نے ایک روز ہم سے پوچھا کیا زندہ رہنے کے لیے ’’پیار‘‘ بہت ضروری ہے، جس پر ہم نے فوری جواب دیا تھا کہ، نہیں۔۔زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کی لازمی ضرورت ہوتی ہے۔۔ایک منٹ کے لیے بھی آکسیجن کی سپلائی رُک جائے تو دل،دماغ سب کچھ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور انسان مرجاتا ہے۔۔لیکن اگر موجودہ نوجوان نسل سے یہی سوال کیا جائے تو ان کا فوری جواب ہوگا۔۔ موبائل فون۔۔ جس کے بغیر ان کا ایک ایک سیکنڈ ایک ایک صدی بن جاتا ہے۔۔تو پیارے احباب سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ آج موبائل فون کے حوالے سے کچھ اوٹ پٹانگ باتیں کی جائیںگے۔ جس کے بغیر نوجوانوں کو ایک پل چین نہیں آتا۔۔عہدمشرف گزرے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا،وہ اور ان کے شارٹ کٹ وزیراعظم شوکت عزیزسمیت سب اس پر اِترایاکرتے تھے کہ سولہ کروڑ میں سے چھ کروڑ سے زائد لوگ موبائل فون استعمال کرتے ہیں، یعنی وہ سب ترقی کا پیمانہ موبائل فون کے استعمال کو قرار دیتے تھے حالانکہ اگر دیکھاجاتا تو ،موبائل فون چھ کروڑ لوگوں کے پاس ضرور تھے مگر بیلنس کسی کے پاس نہیں ہوتا تھا۔۔
موبائل فونز پر روایتی اوٹ پٹانگ باتوں سے قبل پہلے اس حوالے سے ایک تازہ تحقیق بھی سن لیں۔۔۔ دنیا کے ممتاز ماہرینِ جلد نے خبردار کیا ہے کہ موبائل فون کا حد سے زائد استعمال آپ کو بوڑھا اورچہرے کو بد نما بھی بنا سکتا ہے۔ڈاکٹروں کے مطابق موبائل فون جھکی ہوئی گردن، آنکھوں کی تھکاوٹ اور چہرے کے داغ دھبوں کی وجہ بن سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق لوگ روزانہ درجنوں مرتبہ اپنے فون کو دیکھتے ہیں جس کے مضر اثرات چہرے کو بدنما بناسکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ خواہ ٹیکسٹ پڑھنا ہو، اسکرولنگ ہو یا بات کرنی ہو، سیل فون رکھنے والے خواتین و حضرات دن میں 85 سے 90 مرتبہ اپنے فون کو دیکھتے ہیں جس سے جبڑے لٹکنے کے ساتھ ساتھ کیل مہاسوں کی شکایت بھی ہوسکتی ہے۔موبائل فون کو مسلسل تکنے کی وجہ سے آنکھوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے، ہم میں سے تمام لوگ یہ جانتے ہیں کہ کرسی پر بیٹھے بیٹھے دیر تک کمپیوٹر کو تکتے رہنے سے بصارت کو نقصان پہنچتا ہے اسی لیے بار بار کہا جاتا ہے کہ کچھ وقت کے لیے کمپیوٹر سے نگاہ ہٹا کر دور دیکھا جائے تاکہ اس نقصان کا ازالہ کیا جاسکے۔
ایک سردار جی اپنا موبائل فون ’’وٹے‘‘ سے توڑ رہے تھے، کسی نے فون توڑنے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے، میں اپنے دوست کو فون کررہا تھا تو اندر سے عورت بولنے لگی،کچھ دیر بعد فون کریں۔۔اب میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ وہ عورت اتنے چھوٹے سے فون میں گھسی کیسے۔۔؟ ایک صاحب اپنے دوست سے شکوہ کررہے تھے کہ ،یار یہ موبائل مجھے کنگال کردے گا، دوست نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے۔۔ موبائل فون بار بار بولتا ہے، بیٹری لو،بیٹری لو۔۔ اسی چکر میں اب تک 50 بیٹریاں لے چکا ہوں۔۔۔ہمارے پیارے دوست شکوہ کررہے تھے کہ۔۔یارقسم سے اس وقت خودکشی کرنے کا دل چاہتا ہے جب میرے بہن بھائی میرا دس فیصد بیٹری رہ جانے والا فون چارجنگ سے نکال کر اپنا نوے فیصد بیٹری والا فون لگادیتے ہیں۔۔باباجی فرماتے ہیں کہ اللہ نے کھوپڑی سوچنے کے لیے دی تھی ہم اسے اخروٹ توڑنے کے کام میں لگارہے ہیں۔۔باباجی مزید فرماتے ہیں کہ پہلے نوجوان بزرگوں کی بات سننے کے لیے احترام میں کھڑے ہوجاتے ہیں اب ہینڈفری صرف ایک کان سے نکال دیتے ہیں۔۔
ہمارے پیارے دوست نے ہمیں واٹس ایپ پر موبائل کے حوالے سے ایک میسیج بھیجا، وہ لکھتے ہیں کہ۔۔دنیا کے پہلے موبائل کا بنیادی کام صرف کال کروانا تھا، اور موبائل کی اس پہلی نسل کو 1G یعنی فرسٹ جنریشن کا نام دیا گیا۔ اور اس موبائل میں کال کرنے اور سننے کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں ہوتا تھا۔پھر جب موبائلز میں sms یعنی میسج کا آپشن ایڈ ہوا، تو اسے 2G یعنی سیکنڈ جنریشن کا نام دیا گیا۔پھر جس دور میں موبائلز کے ذریعے تصاویر بھیجنے کی صلاحیت بھی حاصل کر لی گئی تواس ایج کے موبائلز کو 3G یعنی تھرڈ جنریشن کا نام دیا گیا۔اور جب بذریعہ انٹرنیٹ متحرک فلمز اور موویز بھیجنے کی صلاحیت بھی حاصل کر لی گئی تو اس ایج کے موبائلز کو 4G یعنی فورتھ جنریشن کا نام دیا گیا۔۔اور ابھی جب موبائلز کی دنیا 5G کی طرف بڑھ رہی تو اس وقت تک دنیا کی ہر چیز کو موبائل میں شفٹ کر دیا گیا ہے۔ آج دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا کام ہو گا جو موبائل سے نہ لیا جا رہا ہو۔ مگر حیرت ہے کہ اتنی ترقی کرنے اور نت نئے مراحل سے گزرنے کے باوجود یہ موبائل آج بھی اپنا بنیادی کام نہیں بھولا۔ آپ کوئی گیم کھیل رہے ہوں یا فلم دیکھ رہے ہوں، انٹرنیٹ سرچنگ کر رہے ہوں یا وڈیو بنا رہے ہوں۔۔ الغرض موبائل پر ایک وقت میں دس کام بھی کر رہے ہوں۔۔ لیکن جیسے ہی کوئی کال آئے گی موبائل فوراً سے پہلے سب کچھ چھوڑ کر آپ کو بتاتا ہے کہ کال آرہی ہے یہ سن لیں۔ اور وہ اپنے اصل اور بنیادی کام کی خاطر باقی سارے کام ایک دم روک لیتا ہے۔۔۔اور ایک انسان جسے اللہ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا اور ساری کائنات کو اس کی خدمت کے لیے سجا دیا، وہ اللہ کی کال پر دن میں کتنی بار اپنے کام روک کر مسجد جاتا ہے؟مسجد جانا تو درکنار اب اللہ کی کال یعنی اذان پر ہم اپنی گفتگو بھی روکنا مناسب نہیں سمجھتے۔ عبادت ہر انسان اور نماز ہر مسلمان کی زندگی کا بنیادی جز ہے جس کی موت تک کسی صورت میں بھی معافی نہیں۔ کاش ہم موبائل سے اتنا سا ہی سبق سیکھ لیں جسے ہم نے خود ایجاد کیا اور ایک لمحہ بھی خود سے جدا نہیں کرتے کہ دنیا کے سب ہی کام کرو مگر اپنی پیدائش کا بنیادی مقصد اللہ کی عبادت کبھی نہ بھولو۔ اذان ہوتے ہی سب کچھ روک کر مسجد چلو اور اللہ کی کال پر لبیک کہو۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔پڑھتے اور سنتے ہم بھلے شاہ کو وارث شاہ کو، لیکن کام ہمارے ڈبل شاہ والے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر