وجود

... loading ...

وجود
وجود

’’دا۔نائی‘‘ کی باتیں۔۔

اتوار 20 ستمبر 2020 ’’دا۔نائی‘‘ کی باتیں۔۔

دوستو، دانائی کی باتیں تو آپ نے بہت سنی ہوں گی۔۔ جب بچپن میں ہم بہت چھوٹے تھے، اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بچپن میں تو سب ہی چھوٹے ہوتے ہیں، اس میں نئی بات کیا ہے؟ تو یہ جملہ اکثر ہم غلط ہی لکھتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسا کہ اکثریت میں لوگ لکھتے ہیں، آب زم زم کے پانی میں شفا ہوتی ہے۔۔ شب برات کی رات عبادتوں والی ہوتی ہے۔۔ ماہ رمضان کا مقدس مہینہ۔۔۔ سنگ مر مر کا پتھر۔۔۔ لب سڑک کے کنارے وغیرہ وغیرہ۔۔ یعنی اب سمجھ آگیا ہوگا کہ ہم نے بالکل ٹھیک لکھا تھا کہ جب ہم بچپن میں چھوٹے تھے تو۔۔دانائی کو’’ دا۔نائی‘‘ یعنی الگ الگ یا توڑ کر پڑھتے تھے۔۔ ہمیں لگتا تھا کہ یہ انگریزی والا۔۔’’ دا‘‘ ہے۔۔ ہمارے محلے کا نائی بہت باتونی تھا، اتنی باتیں کرتا تھا کہ سن سن کر کان پک جاتے تھے، اس لئے ہم سمجھتے تھے کہ شاید۔۔دانائی کی باتیں۔۔ نائی کی باتیں ہیں۔۔ پھر جب بڑے ہوئے تو ہم نے اپنی سوچ اور سمجھ پر تین حرف بھیجے۔۔ اتفاق دیکھئے کہ جب ہم دانائی کی باتیں کررہے ہوتے ہیں تو آپ احباب اب اسے’’ دا۔نائی‘‘ کی باتیں سمجھ رہے ہوتے ہیں۔۔ شاید اسی کو مکافات عمل کہتے ہیں۔۔ چلیئے پھر آج آپ سے کچھ دانائی کی باتیں کرتے ہیں، سمجھ لیں گے تو ہماری محنت وصول ورنہ سب کچھ فضول۔۔۔
باباجی فرماتے ہیں، جب چائے آتی ہے تو دماغ چلتا ہے اور جب زیادہ چائے آتی ہے تو زیادہ دماغ چلتا ہے۔۔ وہ مزید فرماتے ہیں کہ۔۔ تاریخ گواہ ہے پاکستانی گھرانوں کہ بچے جب بھی‘‘ نانی‘‘ کے گھر سے ہو کر آتے ہیں تو‘‘ دادی‘‘ کو کمزور ہی لگتے ہیں۔۔ بابا جی نے تمام والدین کو مشورہ دیا ہے کہ بچوں کو اسکول سے واپس لاتے وقت ماسک ہٹا کر یقین دہانی کرلیں کہ اپنا ہی بچہ گھر لے کر جارہے ہیں۔۔باباجی کا ہی اقوال ذریں ہے کہ۔۔ ہمارے ملک میں انسانیت، اخلاقیات اور معدنیات صرف کتابوں میں پائی جاتی ہیں۔۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ۔۔ لوگوں کو صفائی دینے کی بجائے اگر ان کا صفایا کردیا جائے تو زندگی میں کافی سکون آجاتا ہے۔۔ ان کا مزید فرمانا ہے کہ۔۔ روٹیاں اور جوتیاں صرف اپنی ماں کے ہاتھ کی ہی اچھی لگتی ہیں۔۔ باباجی کا ہی گولڈن جملہ ہے کہ۔۔پہلے درندے جنگل میں ہواکرتے تھے، اب شہروں اور موٹروے پر بھی آگئے ہیں۔۔مہنگائی کے اس دور میں انار کا جوس پینے کا دل کرے تو لال چشمہ لگا کر پانی پی لیں، وہی فیلنگ آئے گی۔۔باباجی نے عوام الناس کو مفت مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ۔۔ پریشانیوں کو ایسے اگنور کرو۔۔۔ جیسے نہاتے وقت کمر کو کرتے ہو کہتے ہیں کہ دنیا میں سب سے لمبی زبان زرافے کی ہوتی ہے۔۔ باقی جو شادی شدہ حضرات کے ذہن میں آرہا ہے وہ بھی ٹھیک ہی ہے۔۔ ویسے آپ بھی اس سے اتفاق کریں گے کہ خواتین یا لڑکیاں ایک تقریب میں پہنا سوٹ اگلی تقریب میں پہن کر کبھی نہیں جاتیں لیکن آپ داد دیں، لڑکوں اور مردحضرات کو کہ پورا کورونا اور لاکڈ ڈاؤن ایک ہی ماسک میں نکال دیا۔۔ہمارے پیارے دوست نے ایک روز ہم سے سوال کیا۔۔ یارپیزا لکھ کر میں نے گیارہ کی بجائے چودہ لوگوں کو سینڈ کیا ہے لیکن پیزا ابھی تک نہیں آیا۔۔ اسی طرح ایک بار ہم نے ایک ایس ایچ او سے پوچھا۔۔آپ مجرموں کو پکڑنے کیلئے کتوں کا استعمال کیوں نہیں کرتے؟؟ وہ بڑی سادگی سے بولا۔۔ کمبخت سونگھتے سونگھتے تھانے پہنچ جاتے ہیں۔۔دو عورتیں باتیں کررہی تھیں، ایک نے کہا، پتہ ہے، اپنے گاؤں کے چودھری صاحب کومے میں چلے گئے۔۔ دوسری بڑی معصومیت سے بولی۔۔ ہاں بہن، پیسے والے تو کہیں بھی جاسکتے ہیں۔۔
کیا آپ نے کبھی نوٹ کیا ہے کہ شاپنگ کے دوران بیرون ممالک میں لوگ کہتے ہیں۔۔ یہ بہت مہنگا ہے۔۔ جب کہ ہمارے یہاں کے لوگ دکاندار کا دل رکھتے ہوئے یا اسے تسلی دیتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ، اسے رکھئے ہم واپسی پر آتے ہیں۔۔ اب دکاندار بے چارہ انتظار ہی کرتا رہ جاتا ہے۔۔ آج بہت ہی غوروفکر اور ادراک کی گہرائیوں میں جا کر سوچا تو دریافت ہوا کہ ناک کو اُلٹا لکھیں تو کان بنتا ہے۔۔ پیٹ کا بھی اپنا ایک چھوٹا سا دل ہوتا ہے، جو صرف بریانی، قیمہ کریلے، پکوڑوں، برگر، بادامی قورمہ، کھیر اور چائے پر فدا ہوتا ہے۔۔اگر آپ کے شوہر کھانے کے دوران آپ سے اچار، سلاد یا دہی مانگ لیں تو سمجھ لیں کہ آپ کے کھانے میں دم نہیں، اور یہ بھی اچھی طرح سے سمجھ لیں کہ آپ کے شوہر میں بھی دم نہیں کہ وہ کہہ سکے، بیگم آپ کے کھانے میں دم نہیں۔۔ جب خواتین آپ کو آپس میں کھسرپھسر کرتی نظرآئیں تو سمجھ جائیں کہ ڈیٹا ٹرانسفر ہورہا ہے، جب آپ کو یہ آواز آئے کہ۔۔ چھوڑو، ہمیں کیا؟ تو سمجھ لیجئے کہ ڈیٹا محفوظ ہوگیا ہے اور جلد وائرل ہونے والا ہے۔۔ سوشل میڈیا سے تو آپ لوگ واقف ہی ہوں گے، فیس بک سے بھی واسطہ پڑتا ہوگا، فیس بک پر دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں، ایک وہ جنہیں ساس کی طرح ہر پوسٹ میں صرف غلطی ہی نظر آتی ہے، دوسرے وہ جو ماں کی طرح سب لائیک کرتے ہیں۔۔ جو عورتیں یہ کہتی ہیں کہ ساس سسر کی خدمت بہو پر فرض نہیں وہ برائے مہربانی یہی بات اپنی بھابھی کو بھی اچھی طرح سمجھا دیں تاکہ وہ بھی فائدہ اٹھاسکے۔۔
اب آپ لوگوں کی دانائی چیک کرنے کے کچھ سوالات ہیں جن کا جواب ہم عرصے سے تلاش کررہے ہیں لیکن ہمیں کوئی اس کا جواب دینے کو تیار نہیں۔۔وہ پوچھنا یہ تھا کہ اگر کسی کے معاملے میں ٹانگ اَڑانی ہو تو کونسی ٹانگ ٹھیک رہے گی۔۔۔ سجّی یا کھبی؟؟کوئی بتائے گا؟نکاح پر چھوارے ہی کیوں بانٹے جاتے ہیں؟؟؟نمکو اور لیز کیوں نہیں؟؟۔۔کیا کسی نے خربوزے کی آنکھیں دیکھی ہیں؟ نہیں۔۔ارے تو پھر یہ کیوں کہاجاتا ہے کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ جب ہر طرف سے بے جا تنقید کا سامنا ہوتو سمجھ لیں یا تو آپ کامیاب ہوچکے یا پھر دوسروں کو آپ کی کامیابی کا ڈر ہے۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے! وجود منگل 14 مئی 2024
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے!

تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات وجود منگل 14 مئی 2024
تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات

ہاکی اور آوارہ کتے وجود منگل 14 مئی 2024
ہاکی اور آوارہ کتے

فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟ وجود پیر 13 مئی 2024
فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟

بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف وجود پیر 13 مئی 2024
بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر