وجود

... loading ...

وجود
وجود

ٹرمپ اور جوبائیڈن کی انتخابی جنگ میں دنیا کس کے ساتھ ہے؟

پیر 17 اگست 2020 ٹرمپ اور جوبائیڈن کی انتخابی جنگ میں دنیا کس کے ساتھ ہے؟

دنیا کے کسی بھی جمہور ی ملک میں ہونے والے انتخابات اُس ملک کا اندرونی معاملہ ہوتا ہے اور بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کسی ملک میں منعقد ہونے والے انتخابات میں دنیا کے دیگر ممالک بھی اپنی بھرپور دلچسپی کا اظہار کریں ۔ لیکن امریکی انتخابات کی منفرد اور خاص بات ہی یہ ہے کہ اِن انتخابات میں امریکیوں سے زیادہ دنیا کے دیگر ممالک میں رہنے والے افراد دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ رواں برس تین نومبر کو ہونے والے امریکی انتخابات دنیا بھر کے میڈیا میں بطور خاص موضوع بحث بنے ہوئے ہیں ۔ گو کہ تین نومبر کو امریکی ووٹرز ہی اس بات کا حتمی فیصلہ کریں گے کہ کیا ڈونلڈ ٹرمپ کو مزید چار سال کے لیے وائٹ ہاؤس میں رہنا چاہیے یا نہیں؟۔ امریکی ووٹرز کی انتخابی رائے دنیا کے دیگر ممالک میں رہنے والے ہر فرد کے سیاسی مستقبل پر کسی نہ کسی صورت براہ راست اثر انداز ضرور ہوگی۔کیونکہ اس وقت امریکا واحد عالمی طاقت ہے اور امریکی اقتدار کے ایوانوں میں بننے والی سیاسی پالیسیاں دنیا میں موجود ہر ملک کے سیاسی و انتظامی مفادات کو زبردست انداز میں متاثر کرتی ہیں ۔ اس لیے رِپبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر ٹرمپ ہوں یا پھر ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن۔ حیران کن طور پر دونوں اُمیدواروں کی انتخابی جیت کے حوالے سے اس وقت صرف امریکا میں ہی نہیں بلکہ دنیابھی بُری طرح سے تقسیم نظر آرہی ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے اُمیدوار جو بائیڈن اگرچہ 1970 کی دہائی سے امریکی سیاست کا ایک ناگزیر حصہ ہیں مگر حالیہ انتخابی مہم میں ان کی بڑی وجہ شہرت سابق امریکی صدر براک اوباما کا نائب صدر ہونا ہے۔جبکہ امریکیوں کی طرح دنیا کے کئی ممالک بھی جو بائیڈن سے یہ ہی اُمید رکھتے ہیں کہ ڈیموکریٹک اُمیدوار جو بائیڈن امریکی انتخابات میں کامیابی کے بعد جب امریکی صدر کی حیثیت سے زمام اقتدار سنبھالیں گے تو اُن ہی پالیسیوںکا ایک بار پھر سے احیاء کریں گے ۔جو امریکی پالیسیاں بارک اوباما کے دورِ حکومت میں دنیا بھر میں رائج تھیں ۔ یعنی ’’تبدیلی‘‘یہ ہی وہ انتخابی نعرہ تھا ،جس کی بنیاد پر بارک اوباما امریکی صدر کی کرسی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ حالانکہ ’’تبدیلی‘‘ کا نعرہ اُن کے دورِ حکومت میں عملی طور پر کسی بھی صورت میں مکمل طور پر نافذ تو نہ ہوسکا۔لیکن اس کے باوجود دنیاکے کئی ممالک سوچتے ہیں کہ بارک اوباما کا دورِ حکومت اِس لحاظ دنیا کے لیے ایک بہترین انتظامی دور تھا کہ اُس دور حکومت میں امریکادنیا کے ہر ملک کے داخلی و خارجی معاملات میں بطور خاص دلچسپی لیتا تھا ۔اس کے برعکس رِپبلیکن پارٹی کے اُمیدوار ڈونلڈ ٹرمپ جب سے اقتدار میں آئے ہیں ،تب سے امریکا بین الاقوامی سیاست سے آہستہ آہستہ لاتعلق ہوتا جارہا ہے ۔ بظاہر ڈونلڈ ٹرمپ کا نعرہ’’ سب سے پہلے امریکا‘‘ بعض قدامت پسند امریکیوں کے لیے تو ایک خاص کشش ضرور رکھتا ہے لیکن اِس نعرہ پر مکمل طور پر عمل پیرا ہونے کا مطلب امریکا جیسی عالمی طاقت کو صرف امریکا کی سرحدوں تک ہی مقید کردینے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا۔اس کے علاوہ ’’سب سے پہلے امریکا ‘‘ کا نعرہ امریکا کے اُن اتحادی ممالک کے لیے بھی سخت تشویش اور پریشانی کا باعث ہے ، جو برس ہا بر س سے سیاسی ، انتظامی اور دفاعی معاملات میں مکمل طور پرامریکا پر انحصار کرتے چلے آئے ہیں ۔
تیزی کے ساتھ بدلتے ہوئے عالمی حالات کے تناظر میں یہ بات بڑی ہی اہمیت کی حامل ہے امریکا کا اگلامنتخب صدر کون ہوگا؟۔ جیسے جیسے امریکی انتخابات کا دن قریب آ تا جاررہا ہے،ویسے ویسے امریکا کی طرح دنیا کے کئی دیگر ممالک میں بھی رائے شماری کرنے والے ادارے عام عوام سے پوچھ رہے ہیں کہ وہ کس امیدوار کی حمایت کرتے ہیں۔یاد رہے کہ رائے شماری کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی معلومات متوقع کامیاب امیدوار کے بارے میں اندازہ لگانے کے لیے کسی حد تک معاون تو ثابت ہوسکتی ہے ،لیکن رائے شماری کے پیمانہ کی بنیادپر جیتنے والے اُمیدوار کے بارے میں حتمی طور پر جان لینا کسی بھی صورت ممکن نہیں ہے مثال کے طور پر 2016 میں ہیلری کلنٹن رائے شماری سے حاصل ہونے والے نتائج میں اپنے حریف اُمیدوار ڈونلڈ ٹرمپ سے کہیں آگے تھیں اور انھوں نے ٹرمپ سے تقریباً 30 لاکھ زیادہ ووٹ حاصل بھی کر لیے تھے۔ مگر وہ پھر بھی امریکی انتخابات میں ہار گئیں کیونکہ امریکہ میں الیکٹورل کالج کا ایسا منفرد اور عجیب و غریب نظام استعمال کیا جاتا ہے ،جس میں زیادہ ووٹ حاصل کرنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ آپ کا پسندیدہ اُمیدوار انتخاب بھی جیت جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت جو بائیڈن امریکا میں ہونے والی قومی رائے شماری میں ڈونلڈ ٹرمپ سے آگے ہیں اور اس سال کے بیشتر حصے میں ان کی مقبولیت 50 فیصد تک رہی ہے۔ کچھ مواقع پر تو انھیں صدر ٹرمپ پر دس پوائنٹ کی برتری بھی حاصل تھی تاہم گذشتہ چند دنوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت بھی بڑھنے لگی ہے۔اس لیے رائے شماری سے حاصل ہونے والے اعدادوشمار کی روشنی میں ٹرمپ اور جوبائیڈن میں سے کسی بھی اُمیدوار کی جیت کا یقین کرلینا ،بہت بڑی بے وقوفی ہی ہوگی ۔کیونکہ امریکی انتخابات میں رائے شماری کے نتائج نہیں بلکہ ریاستیں فیصلہ کرتی ہیں کہ فاتح اُمیدوار کون سا ہوگا۔ جیسا کہ2016 میں منعقد ہونے والے امریکی انتخابات میں ہیلری کلنٹن کو سمجھ آگیا تھا کہ،حاصل ہونے والے ووٹوں کی تعداد سے کہیں زیادہ اہم یہ ہے کہ آپ ووٹ کس ریاست میں جیتے ہیں۔چونکہ زیادہ تر ریاستیں کسی ایک سیاسی جماعت کا گڑھ ہوتی ہیں،اس لیے صرف کچھ ہی ریاستیں ایسی ہوتی ہیں جہاں دونوں انتخابی امیدواروں کے جیتنے کا برابر ،برابر امکان ہوتا ہے۔ یہی وہ اہم ترین ریاستیں ہیں جہاں الیکشن جیتا یا ہارا جاتا ہے۔
امریکی انتخابات میں ان ریاستوں کو اصل میدان جنگ کا درجہ حاصل ہوتاہے ۔اس وقت بیٹل گراؤنڈ ریاستوں کی رائے شماری میں بظاہر جو بائیڈن کی پوزیشن ،اپنے حریف اُمیدوار ٹرمپ کے مقابلہ میں بہت اچھی معلوم ہورہی ہے۔تازہ ترین رائے شماری کے مطابق جو بائیڈن اس وقت مشیگن، پینسلوینیا، اور وسکونسن میں کافی برتری رکھتے ہیں۔ یہ تینوں صنعتی ریاستیں 2016 کے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک فیصد کی معمولی برتری سے جیتی تھیں۔مگر وہ ریاستیں جہاں ٹرمپ نے 2016 میں بڑی برتری کے ساتھ کامیابی حاصل کی تھی۔اُن میں آئیووا، اوہایو اور ٹیکساس تین ایسی ریاستیں ہیں جہاں ٹرمپ نے 8 سے 10 فیصد کی واضح برتری حاصل کی تھی مگر اب ان ہی تینوں ریاستوں میں رائے شماری سے حاصل ہونے والے نتائج دونوں امیدواروں میں کانٹے کا مقابلہ ہونے کی پیشن گوئی کررہے ہیں۔مگر متوقع امریکی صدر کے بارے میں اندازہ لگانے کا قومی رائے شماری کے علاوہ ایک پیمانہ اور بھی موجود ہے اور وہ ہے جوئے کی عالمی مارکیٹ۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ٹرمپ کے جیتنے کے لیے جوئے کی عالمی مارکیٹ میں ایک کے مقابلے میں تین کا ریٹ دیا جا رہا ہے۔جوئے کی عالمی مارکیٹ کو امریکی انتخابات کے متوقع نتائج کی پیشن گوئی کے حوالے اس لیے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ جوئے کی مارکیٹ میں سٹہ کھیلنے والے عالمی سیاست میں قومی رائے شماری کرنے والے کی بہ نسبت کہیں زیادہ اثرو رسوخ رکھتے ہیں ۔ لہٰذا اگر جوئے کی عالمی مارکیٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ امریکی صدر بننے کے اشارے فراہم کیے جارہے ہیں تو اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ عالمی سیاست کے طاقت ور حلقے ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک بار پھر سے امریکا کا صدر بنتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں ۔
ہماری اس رائے کو تقویت حال ہی میں امریکی انٹلیجنس ایجنسی ،نیشنل کاؤنٹر انٹیلی جنس (این سی ایس سی) کے سربراہ، ولیم ایوانینا کی طرف سے جاری ہونے والے اِس بیان سے بھی ملتی ہے ۔جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’’ چین، روس اور ایران ان ممالک میں شامل ہیں جو اس سال ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات پر اثر انداز ہونے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں ۔خاص طور پر چین، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دوبارہ منتخب ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا، جبکہ روس ڈیموکریٹ امیدوارجو بائیڈن کی انتخابی مہم کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے اور اپنے اس مقصد کے حصول کے لیے روس سوشل میڈیا اور روسی ٹیلی ویژن پر صدر ٹرمپ کی جیت کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے زبردست کوشش کررہاہے۔اس کے علاوہ ایران امریکی جمہوری اداروں کو کمزور کرنے، صدر ٹرمپ کی بیخ کنی اور ووٹ سے پہلے ملک کو تقسیم کرنے کے لیے آن لائن غلط معلومات اور امریکی مخالف مواد پھیلا رہا ہے۔ ایران یہ سب کچھ اس لیے کر رہا ہے کیونکہ ایرانی اسٹیمبلشمنٹ کو لگتا ہے کہ اگر صدر ٹرمپ دوبارہ منتخب ہوئے تو ایران پر امریکی دباؤ ناقابلِ یقین حد تک بڑھ سکتاہے‘‘۔ تاہم آخر میں این سی ایس سی کے سربراہ ولیم ایوانینا کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’امریکا کے مخالفین ممالک کے لیے ووٹنگ کے نتائج میں بڑے پیمانے پر مداخلت کرنا یا ان میں جوڑ توڑ کرنا سخت مشکل ہو گا۔کیونکہ ہم نے امریکی انتخابات کو غیر ملکی مداخلت سے مکمل محفوظ بنانے کے لیے تمام تر سیکورٹی اقدامات لے لیے ہیں ‘‘۔
ولیم ایوانینا کی اس بات میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ امریکی انتخابات پر حریف ممالک کی جانب سے منظم انداز میں اثرانداز ہونا کوئی آسان کام نہیں ہوگا ۔ لیکن ہمارے لیے اُن کی اس بات سے اتفاق کرنا بہت مشکل ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک اگر امریکی انتخابات میں دلچسپی لے رہے ہیں تو دنیا کے اس طرز عمل سے امریکی عوام کے مفادات کو مستقبل میں کوئی نقصان یا گزند پہنچ سکتاہے۔ ولیم ایوانینا کے برعکس ہماری رائے یہ ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک میں آباد افراداگر امریکی نظام ہائے انتخابات میں اپنی بھرپور دلچسپی کا اظہار کررہے ہیں تو اس بات پر امریکی عوام اور امریکی اداروں کوفخر ہونا چاہئے کہ دنیا امریکی سیاست میں آنے والی کسی بھی تبدیلی کو اپنے لیے نفع یا نقصان کا باعث سمجھتی ہے ۔ جہاں تک بات صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور جوبائیڈن میں سے کسی ایک اُمیدوار کے امریکی انتخابات میں جیتنے کی ہے تو اُس کا حتمی فیصلہ بہرحال تین نومبر کو امریکی عوام نے ہی کرنا ہے اور یقینا امریکی عوام جو بھی فیصلہ کریں اُسے دنیا کا کوئی بھی ملک کسی بھی صورت بدل نہیں سکتا۔لہٰذا دنیاکے ہرشخص سے گزارش ہے کہ وہ اپنے پسندیدہ انتخابی اُمیدوار کی اخلاقی یا عملی حمایت بدستور جاری رکھے اور انتخابی جنگ کو اصلی جنگ میں کسی بھی صورت تبدیل ہونے دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر