وجود

... loading ...

وجود
وجود

کشمیر کی آزادی کے لیے پاکستان کے آپشن

بدھ 12 اگست 2020 کشمیر کی آزادی کے لیے پاکستان کے آپشن

آزادی حاصل کرنے کے بعد سے ابتک پاک بھارت مخاصمت و عداوت میں 73 برس گزر چکے ہیں اور بلاشبہ مسئلہ کشمیر دونوں کے مابین خوشگوار تعلقات کی راہ میں بنیادی تنازعہ ہے۔ یہ معاملہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں بھی گیا، بہت سے ممالک نے ثالثی کی کوشش بھی کی اور کئی بار پاک بھارت باہمی مذاکرات بھی ہوے لیکن کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ مودی سرکار کے آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے ذریعے کشمیر کو بھارت میں شامل کیے جانے کے بعد ایک بار پھر مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر موجود مسائل میں صف اول پر آگیا ہے جس کے نتیجے میں کسی بھی لمحہ ہولناک جنگ کی صورت عالمی امن سبوتاژ ہوسکتا ہے۔ اس مسئلے کو لیکر اگر پچھلی سات دہائیوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دونوں پڑوسیوں نے سیاسی و سفارتی لحاظ سے کوئی کسر روا نہ رکھی لیکن بجائے مفاہمت کے مخاصمت میں اضافہ ہوا۔ بھارت کا موقف ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے جبکہ پاکستان اسے اپنی شہ رگ قرار دیتا ہے ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ہو تو کیونکر ہو اور پاکستان کے پاس مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے کیا آپشن ہیں؟ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں اس سوال کا قابل عمل حل کیول سیاسی و سفارتی جدوجہد سے تو مشکل ترین نظر آتا ہے ماضی کی تاریخ اور موجودہ چین امریکا رسہ کشی کے ماحول میں وقتی طور پر تو یہ ناممکن ہے۔ ماضی میں سیکیورٹی کونسل نے متعدد قراردادیں پاس کیں لیکن سوویت کے ہوتے ہوے بھارت فائدہ اٹھاتا رہا اور اب اس کا الٹ یہ کہ بھارت کے ہاتھ امریکی، برطانوی، فرانسیسی سپورٹ موجود ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان سیاسی و سفارتی میدان خالی کردے بلکہ کشمیر پالیسی میں جارحانہ رویہ اپنانا چاہئے اور انتظامی سطح پر کشمیر کمیٹی کو ختم کرکے کشمیر و بھارت ڈیسک قائم کرنی چاہئے جس میں سول و ملٹری اہل دانش و بینش کو تعینات کیا جائے جس طرح امریکہ کی الگ الگ ڈیسک ہیں برائے جنوبی ایشیا، برائے مڈل ایسٹ، برائے افریقہ وغیرہ وغیرہ۔ ایسی صورتحال میں جب عالمی طاقتیں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے سنجیدہ نہ ہوں تو پاکستان کے پاس کیا آپشن باقی رہتے ہیں؟ اس ضمن میں ایک تو روایتی طریق ہے کشمیری مجاہدین کی اخلاقی و سفارتی مدد جاری رکھیں لیکن اس سے بھارت کو پریشانی کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے لیکن وہ کشمیر سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں، کشمیری مجاہدین مسلح جدوجہد سے ایک طرف تو بھارتی فوج کو الجھائے رکھ سکتے ہیں دوسری طرح مسلح جدوجہد سے جانی نقصان پہنچا سکتے ہیں لیکن اس سے بھارت کو کوئی خاطرخواہ نقصان نہیں، وہ ہزار فوجیوں کے بدلے دو ہزار اور بھرتی کرسکتا ہے۔
دوم سفارتی محاذ کا آپشن ہے جو بارہا آزما آکر دیکھ لیا ہے لیکن مطلوبہ اہداف حاصل نہ ہوسکے۔ لہٰذا اب پاکستان کو اپنی پالیسی میں تبدیلی لا کر سفارتی محاذ کے ساتھ ساتھ Tit for Tat کے تحت بھارت کو معاشی طور پر بلاک کرنا ہوگا، بھارتی منڈیوں کا زبردست نعم البدل پیدا کرنا ہوگا جیسے بھارت نے پاکستان کو معاشی کنگال کرنے کی کوشش کی اور اس نے اس کے لیے مذموم طریقہ اپناتے ہوے پاکستان میں دہشتگردی کا بازار گرم رکھا۔ پاکستان بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دے سکتا ہے لیکن مودی کے ہوتے ہوے کسی کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں جیسا کہ مرحوم جنرل حمید گل نے فرمایا تھا کہ مودی پاکستان کے لیے قدرت کا تحفہ ثابت ہوگا اور ویسا ہی ہوا، مودی نے ہندوتوائی پالیسیوں کے زریعے بھارت میں تقسیم در تقسیم کی سی صورتحال پیدا کردی ہے، مسلمان مجموعی طور پر خود کو غیرمحفوظ سمجھ رہے ہیں، سکھ بھی بھارت سے زیادہ خوش نہیں اور آج بھی ان کے دلوں میں 1984 کے زخم زندہ ہیں، اس کے علاوہ سیون سسٹرز میں پہلے سے آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں، دلت بھی زخم کھا کھا کر آتش فشاں بنے بیٹھے ہیں، تامل اور بدھ خود کو ہندو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں، ایسے میں کسی بھی لمحے بھارت کی گلی گلی جنگ چھڑ سکتی ہے جس پر قابو پانا بھارت کے بس کی بات نظر نہیں آتی۔ جس دن مودی کا پیدا کردہ یہ آتش فشاں پھٹے گا اس دن اس سے نکلنے والا لاوا بھارتی معیشت کو راکھ کردیگا۔ اس کے علاوہ مودی سرکار بھارت کی روایتی پالیسی کو ترک کرکے ایک طرف تو سیکیولرزم کی جگہ ہندو راشٹر اور دوسری طرف ریاست کو امریکی سیٹلائٹ بنا بیٹھی ہے نتیجتاً بھارت میں داخلی سطح پر بہت سی فالٹ لائن پیدا ہوگئی ہیں اور مزید ہونگی جبکہ دوسری طرف چین کسی صورت بھی بھارت کو چین کی جگہ عالمی فیکٹری بننے نہیں دے گا۔ بھارت کی داخلی صورتحال نے ایک بار پھر وقت کے پہیے کو پیچھے کی جانب دھکیل دیا ہے اور ایک بار پھر وہاں تقسیم ہند سے پہلے کی سی صورت پیدا ہوگئی ہے اور پاکستان کو ان فالٹ لائنز و صورتحال سے فائدہ اٹھانا چاہئے تاکہ اگلے پچھلے قرضے چکائے جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر