وجود

... loading ...

وجود
وجود

بھارت اب شملہ معاہدہ کے پیچھے نہیں چھپ سکتا

اتوار 09 اگست 2020 بھارت اب شملہ معاہدہ کے پیچھے نہیں چھپ سکتا

جنگ عظیم اول کے بعد دنیا کو تباہی سے بچانے اور عالمی انصاف کی فراہمی کے اہداف کے ساتھ لیگ آف نیشنز کا قیام عمل میں آیا جو کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکا، دوسری عالمی جنگ کے بعد اقوام عالم نے بہتر دنیا کی تشکیل کی غرض سے انجمن اقوام متحدہ کے قیام کو ضروری سمجھا۔ سابق امریکی صدر ہینری ایس ٹرومین نے اقوام متحدہ کے قیام کے وقت جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوے وہاں موجود تمام اراکین کو مخاطب کرتے ہوے کہا کہ ہمیں تمام دنیا کو انصاف فراہم کرنے کے لئے کام کرنا ہوگا لیکن افسوس ”میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی” کے مصداق یہ خواب عملی طور پر تعبیر نہ ہوسکا کیونکہ چھوٹی موٹی مرمتوں سے دنیا امن کا گہوارہ نہیں بن سکتی جب تک کہ تمام بڑے مسائل حل نہ کرلیے جائیں۔
اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق اس کی سیکیورٹی کونسل کی سب سے اہم ذمہ داری عالمی امن و انصاف کو یقینی بنانا اور دنیا کو جنگوں کی ہولناکیوں سے بچانے کے لیے اقدام کرنا ہے لیکن ستر سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل بھارت سے اپنی منظور کردہ متعدد قراردادوں کے باوجود عالمی قوانین کی پاسداری کروانے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے، عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر اس وقت عالمی امن کے لیے شدید خطرہ ہے جو دو ایٹمی قوتوں بھارت و پاکستان کو کسی بھی وقت جنگ میں الجھا سکتا ہے۔ ماضی میں دونوں ممالک کے مابین چار ہولناک جنگیں ہوچکی ہیں لیکن اب دونوں ہی ایٹمی قوت ہیں اور ممکنہ طور پر جنگ کی صورت دونوں ایٹمی ہتھیاروں کا آزادانہ استعمال کرسکتی ہیں ایسے میں یہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ سات دہائیوں سے لٹکے مسئلہ کشمیر کا حل اپنی منظور کردہ قراردادوں کے مطابق کرے جس سے بھارت مختلف ہتھکنڈوں اور حیلے بہانوں کا استعمال کرکے ستر سالوں سے گریز کررہا ہے۔
کشمیریوں کی شروع سے ہی مذہبی، ثقافتی و سماجی ہم آہنگی موجودہ پاکستان کے لوگوں سے تھی اور جغرافیائی لحاظ سے بھی موجودہ پاکستان سے منسلک تھا یہی وجہ ہے کہ تقسیم ہند کے بعد کشمیریوں کی بڑی اکثریت نے پاکستان میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی، 5 ؍ستمبر 1947 کو کسان مزدور کانفرنس ہوئی اور پاکستان میں شمولیت کی قرارداد پاس کی، 18؍ ستمبر کو کشمیر سوشلسٹ پارٹی نے پاکستان سے الحاق کی قرارداد پاس کی۔ کشمیریوں کے اس رجحان کو دیکھتے ہوے بھارت نے جموں میں مسلمانوں کا قتل عام شروع کردیا جس کے ردعمل میں قبائلی مجاہدین کشمیری مسلمانوں کی مدد کو پہنچنا شروع ہوگئے اور جب بات ڈوگرا فوج و ہندوتوا شدت پسندوں کے بس سے باہر ہوگئی تو نہرو سرکار نے بھارتی فوج کو کشمیر میں داخل کردیا جس کے نتیجے میں پاک بھارت جنگ پھوٹ پڑی جس میں بھارتیوں کی زبردست پٹائی ہوئی تو نہرو سرکار فوراً اقوام متحدہ جا پہنچی۔ اقوام متحدہ کی ثالثی پر پاکستان نے جنگ بندی کردی اور معاملہ عالمی قوانین کے تحت اقوام متحدہ پر چھوڑ دیا۔ سیکیورٹی کونسل میں بھارت کو منہ کی کھانی پڑی اور معاملہ استصواب رائے کے زریعے حل کرنے کے فارمولے کے تحت طے پایا۔ اس ضمن میں UNSC نے متعدد قراردادیں پاس کیں لیکن ہٹ دھرم بھارت مختلف ہتھکنڈوں سے ٹال مٹول کرتا رہا۔ اسی دوران بھارت نے 1954 میں نام نہاد الیکشن کرواکر پپٹ کشمیر اسمبلی سے بھارت کے ساتھ الحاق کی منظوری لیکر اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دے دیا جس کے جواب میں UNSC نے قرارداد 122 پاس کی جس میں نام نہاد کشمیر الیکشن اور نام نہاد اسمبلی کے قانون کو مسترد کرتے ہوئے استصواب رائے کے مطابق الحاق کا فیصلہ قائم رکھا اور سابق بھارتی آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ کے انکشاف کہ ”کشمیری مین اسٹریم لیڈر 1947 سے بھارت سے پیسے لے رہے ہیں” جس کے جواب میں کشمیری مین اسٹریم لیڈر نے کہا کہ ”اس کے بدلے ہم بھارتی پرچم کو کشمیر میں سرنگوں رکھے ہوئے ہیں” کے بعد اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ بھارت اپنے چند زرخرید پپٹ کے ذریعے نہ صرف کشمیر کے ناجائز الحاق کو قائم رکھے ہوے تھا بلکہ اپنے کالے قوانین پبلک سیفٹی ایکٹ، آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ وغیرہ اور ظلم و بربریت کو روا رکھے ہوئے تھا۔ بھارت کبھی سیٹو اور سینٹو کا بہانہ بناکر تو کبھی سوویت یونین کے پیچھے چھپ کر اقوام متحدہ کی قراردادوں پہ عمل کرنے سے بھاگتا رہا اور پھر 1972 میں پاک بھارت شملہ معاہدہ ہوا جس کے تحت دونوں ممالک راضی ہوے کہ آپسی معاملات باہمی رضامندی سے طے کیے جائینگے اس کے بعد سے جب بھی مسئلہ کشمیر کے حل کا سوال اٹھا تو بھارت نے اسے Bilateral کہہ کر مسترد کردیا۔
1998 کے پاک بھارت ایٹمی دھماکوں کے بعد اقوام متحدہ نے قرارداد 1172 کے ذریعے دونوں ممالک پر کشیدگی ختم کرنے اور تعلقات کی بہتری کے لیے زور دیا لیکن بھارت اپنی فطرت سے باز نہ آیا وقتی دکھاوا کرکے بھارت پاکستان میں دہشتگردانہ کاروائیوں کی سرپرستی کرتا رہا۔ ملکہ الزبتھ نے پاک بھارت دورے کے موقع پر کشمیر کی ثالثی کی آفر کی تو بھارت نے اسے دو طرفہ یا باہمی معاملہ کہہ کر مسترد کردیا، اس کے بعد یہ جواب ترکی، چین و ایران کی آفرز کے جواب میں دیا گیا۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انٹوریو گٹیرس کی ثالثی کی آفر کی تو بھارت نے جواباً شملہ معاہدہ کا زکر کرتے ہوے کہا کہ اب UNMOGIP کی ضرورت نہیں یہ ہمارا باہمی مسئلہ ہے اس کے علاوہ فرانس کے دورے کے موقع پر بھی نریندر مودی نے ڈونلڈ ٹرمپ و فرانسیسی قیادت کو یہی جواب دیا لیکن 5 اگست 2019 کو یکطرفہ طور پر آرٹیکل 370 اور 35-A کو منسوخ کرکے کشمیر کو بھارت میں شامل کرنے کے مودی سرکار کا اقدام نہ صرف شملہ معاہدہ و لاہور ڈیکلریشن کی صریحاً خلاف ورزی ہے بلکہ ویانا کنونشن کی بھی خلاف ورزی ہے اور ویانا کنونشن کے آرٹیکل 60 کے تحت پاکستان اب مزید اس معاہدہ کو مکمل یا جزوی منسوخ کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے اور اب بھارت کے پاس یہ جواز باقی نہیں رہ سکتا کہ وہ کشمیر کو بائی لیٹرل مسئلہ کہہ کر عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں سے بھاگ سکے۔ اس کے علاوہ مودی سرکار کی حکمت عملی سے اب حریت لیڈروں کے علاوہ مین اسٹریم لیڈر بھی بھارت سے متنفر ہوگئے ہیں جس کا فائدہ پاکستان کو اٹھانا چاہئے اور اقوام عالم کو جھنجھوڑ کر بیدار کرے۔ UNSC کو عالمی امن کو یقینی بنانے کے لیے عراق طرز پر بھارت کے خلاف ایکشن لینا ہوگا ورنہ کوئی بعید نہیں کہ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے کسی بھی ایٹمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر