وجود

... loading ...

وجود
وجود

مغرب کی تقسیم سے امریکا مشکلات میں

جمعرات 23 جولائی 2020 مغرب کی تقسیم سے امریکا مشکلات میں

امریکا و برطانیا کو اس بات کا پورا پورا احساس ہے کہ عالمی نظام پر ان کی گرفت کے خیموں کی طنابیں آہستہ آہستہ اکھڑ رہی ہیں اس میں سب سے اہم بحری گزرگاہوں پہ امریکی کنٹرول ہے لیکن اب چین و روس کی جوڑی بالخصوص چین تیزی سے سمندری پانیوں پر اپنا اثرورسوخ بڑھا رہا ہے بحیرہ جنوبی چین اہم ترین سمندری گزرگاہ ہے جہاں سے دنیا کی ایک تہائی سمندری تجارت ہوتی ہے جوکہ 5.3 ٹریلین ڈالر بنتی ہے اب تقریباً چین کے کنٹرول میں آچکا ہے اس کے علاوہ بحر ہند میں سری لنکن پورٹ اور گوادر پورٹ کی وجہ سے پہلے ہی چین کا پلڑا بھاری ہے دوسری طرف افریقی ممالک میں چین کا اثررسوخ غیرمعمولی ہے، معاشی میدان میں چین نہ صرف دنیا کی دوسری بڑی معیشت بلکہ دنیا کی سب سے بڑی ایکسپورٹ مارکیٹ ہے جسے قابو کرنا امریکا کے لیے موجودہ صورتحال میں انتہائی محال ہے جب چین نہ صرف سمندری گزرگاہوں میں امریکا کو چیلنج کررہا ہے بلکہ خلاء میں بھی امریکا کے مدمقابل آچکا ہے ماہرین کے مطابق چین و روس خلاء پہ راج کرنے کی پوزیشن میں ہیں اس کے علاوہ امریکی GPS کے مقابلے میں چین اب اپنا گلوبل نیویگیشن سسٹم بیڈو Beidou لانچ کرچکا ہے جوکہ امریکی جی پی ایس کے مقابلے میں سو گنا بہتر ہے یہ ابتک کا سب سے بڑا سسٹم ہے جس کے 35 سیٹلائٹ ہیں جوکہ امریکی GPS، روسی GLONASS اور یورپی GALILEO سے کہیں زیادہ بہتر ہے اس کے نفاذ کے بعد امریکی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے اور ایسے میں اس کے اپنے اتحادی اس کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں، جرمنی کی زیر کمان یورپی ممالک بظاہر امریکا سے دوریاں اختیار کررہے ہیں، جون میں جب امریکا چین سرد جنگ عروج پر تھی تو ایک صحافی کے سوال کے جواب میں جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے کہا کہ چین سے ان کے تعلقات نہ صرف مضبوط بلکہ اسٹرٹیجک نوعیت کے ہیں، یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ چین جرمنی کی آٹوموبائل انڈسٹری کا سب سے بڑا خریدار ہے اور تجارتی حجم 100 ارب ڈالر سے زائد ہے اس کے علاوہ بحیرہ جنوبی چین سے جرمن شپنگ کی مالیت 117 ارب ڈالر ہے ایسے میں جرمنی کسی طور بھی چین کے مقابلے میں امریکا کے ساتھ کھڑے ہونے کا رسک نہیں لے سکتا۔ یورپ سے امریکی مفادات سے بغاوت 2016 میں ہوئی جب امریکا کی سخت مخالفت و ناپسندیدگی کو یکسر مسترد کرتے ہوے جرمنی، اٹلی، فرانس نے چین کے منصوبے ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک میں شراکت کرلی اس کے بعد یورپ نے جرمنی ہی کی زیر کمان لاطینی امریکی معاشی و سیاسی بلاک مرکوسر Mercosur سے ایک ہزار ارب ڈالر کا تجارتی معاہدہ کیا اور اب 20 اپریل کو ایک بار پھر امریکا کو بائی پاس کرتے ہوے جرمنی نے میکسیکو سے تجارتی معاہدہ کیا، ردعمل کے طور پر امریکا نے ناٹو اتحاد سے عملی طور پر نکل جانے کی دھمکی دی اور اب وہ بتدریج اپنی فوجیں جرمنی و دیگر یورپی ممالک سے نکال رہا ہے جس کے ردعمل میں جرمنی کا سخت موقف سامنے آیا اور اس نے کھل کر کہا کہ یورپ کو اب اپنا دفاع خود کرنا ہوگا جرمن چانسلر نے یورپی یونین کی صدارت کرتے ہوے کہا کہ
Look at the World, Look at China or India
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ کووڈ بحران کے وقت یہ جرمنی ہی تھا جس نے یورپی ممالک کی مالی امداد کی اسی لیے جرمن چانسلر نے یہ بات کہی کہ
Europe needs Us, just as We need Europe
امریکا روس سرد جنگ کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب یورپ امریکی مفادات کے خلاف کھڑا ہے جس میں اہم کردار بلاشبہ جرمنی کا ہی ہے وہ اپنی کھوئی ہوئی طاقت امارت کی بحالی چاہتے ہیں، جس کے معاشی و سفارتی نتائج کے علاوہ دفاعی و فوجی نتیجے بھی سامنے آرہے ہیں جیسا کہ لیبیا کے معاملے میں جرمن موجودگی کے خلاف آنے سے فرانس نے عملی انکار کیا اور اب ہنگری نے جرمنی سے اسلحہ و دفاعی آلات خریدنے کا بڑا معاہدہ کیا ہے گویا یوں کہا جاسکتا ہے کہ چین و روس کے ساتھ ساتھ اب امریکا کو جرمنی سے بھی سرد جنگ کا سامنا ہے۔ یا پھر یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ آج مغرب دو حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے ایک حصہ جرمنی کے ساتھ ہے جبکہ دوسرا امریکا کے ساتھ ہے بالخصوص فائیو آئی جن میں امریکا، برطانیا، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں اور یہ امریکا کے لیے پریشان کن مرحلہ ہے ایسے میں امریکی چبوترے سے ایک ایک کرکے اس کے روایتی حلیف اترتے جارہے ہیں حال ہی میں جاپان نے امریکی ایجس میزائل دفاعی سسٹم کا معاہدہ منسوخ کردیا ہے اور اوکیناوا میں موجود 26000 امریکی فوجیوں کو ناپسندیدگی سے دیکھ رہا ہے اہم بات یہ کہ یہ اس وقت ہوا ہے جب اوکیناوا سے امریکی ٹروپس میں کرونا آوٹ بریک کی خبریں آرہی ہیں اور دوسری طرف روس نے جاپان سے جنگ عظیم دوم کے بعد کے تنازعات کے پرامن حل کے لیے پیشکش کی ہے جس پر پس پردہ بات چیت جاری ہے یا پھر یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ آج مغرب دو حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے ایک حصہ جرمنی کے ساتھ ہے جبکہ دوسرا امریکا کے ساتھ ہے بالخصوص فائیو آئی جن میں امریکا، برطانیا، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں اور یہ امریکا کے لیے پریشان کن مرحلہ ہے ایسے میں امریکی چبوترے سے ایک ایک کرکے اس کے روایتی حلیف اترتے جارہے ہیں حال ہی میں جاپان نے امریکی ایجس میزائل دفاعی سسٹم کا معاہدہ منسوخ کردیا ہے اور اوکیناوا میں موجود 26000 امریکی فوجیوں کو ناپسندیدگی سے دیکھ رہا ہے اہم بات یہ کہ یہ اس وقت ہوا ہے جب اوکیناوا سے امریکی ٹروپس میں کرونا آوٹ بریک کی خبریں آرہی ہیں اور دوسری طرف روس نے جاپان سے جنگ عظیم دوم کے بعد کے تنازعات کے پرامن حل کے لیے پیشکش کی ہے جس پر پس پردہ بات چیت جاری ہے اور بدلتی صورتحال کے پیش نظر بھارت بھی کلٹی مارنے کی سوچ رہا ہے اس ضمن میں بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر کا بیان کہ وہ نان الائنمنٹ کی پالیسی پہ یقین رکھتے پیں انتہائی معنی خیز ہے اور یہ تمام تر صورتحال امریکا کے لیے پریشان کن ہے ایسے میں امریکا جوابی وار کے طور پر وقت اور موقع کا منتظر ہے جوکہ چین نے اسے مہیا بھی کردیا ہے ایران چین ڈیل کے زریعے جس پر اگلی قسط میں بات کرونگا۔ فی الحال امریکا کے پاس اور کوئی موقع نہیں وہ نہ معاشی پابندیاں لگاسکتا ہے کیونکہ جواباً اگر چین نے 1.1 ٹریلین ڈالر کے امریکی بانڈز مارکیٹ میں پھینک دئیے تو یقیناً ڈالر کریش ہوسکتا ہے ایسے میں فی الحال امریکی بس اتنا سوچ رہے ہونگے کہ کاش چین میں بھی پاکستان جیسا نظام ہوتا تو وہ آزادء اظہار کی آڑ میں چین کے اندر ہی عدم استحکام پیدا کردیتے، کاش پاکستان جیسے لیڈر و صحافی ہوتے تو جمہوریت کو خطرہ پیدا کرکے زی جن پنگ کو داخلی طور پر ہی الجھادیتا لیکن وہ چین ہے پاکستان نہیں اس لیے یہ آپشن کاش تک محدود ہے اور پاکستان کے لیے ایک سبق جس پر حبیب جالب نے برسوں پہلے جلتے ہوے کہا تھا کہ
چین اپنا یار ہے، اس پہ جاں نثار ہے
پر وہاں ہے جو نظام، اس طرف نہ جائیو
اس کو دور سے سلام
ورنہ بائیس کروڑ کا رش عوام بن جائیگا اور خوامخواہ دنیا میں ایک اور طاقتور کی انٹری ہوکر ایک نئی سرد جنگ شروع ہوسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں وجود بدھ 15 مئی 2024
خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں

کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے وجود بدھ 15 مئی 2024
کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے

جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے! وجود منگل 14 مئی 2024
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر