وجود

... loading ...

وجود
وجود

کورونا: شرح اموات کم کی جا سکتی ہے

بدھ 22 جولائی 2020 کورونا: شرح اموات کم کی جا سکتی ہے

ایک لاکھ چالیس ہزار امریکیوں سمیت دنیا بھر میں چھ لاکھ سے زائد افراد کورونا وائرس کی نذر ہو چکے ہیں۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ جب موسم سرما میں لوگوں کی اکثریت گھروںمیں بند ہو جائے گی تو شرح اموات میں کمی واقع ہو گی۔ (امریکا میں) خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سال کے آخر تک دوسری جنگ عظیم کے دوران مرنے والے امریکیوں سے نصف کے قریب شہری کورونا کی وجہ سے موت کا شکار ہو جائیں گے۔ ہم ابھی تک اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ اسے کیسے روکا جائے۔ ہر ریاست کوشش کر رہی ہے کہ کس حد تک لاک ڈائون نافذ کیا جائے اور ان کے گورنرز اپنے شہریوں سے کیا کچھ کروا سکتے ہیں۔
شکاگو یونیورسٹی کی ماہرِ وبائی امراض ڈاکٹر ایمیلی لینڈن کا کہنا ہے کہ ’’آپ غم کے پانچ مراحل سے تو آگاہ ہیں یعنی انکار، غصہ، سودے بازی، ڈپریشن اور قبولیت۔ میرے خیال میں امریکی شہریوں میں یہ پانچوں مراحل پائے جاتے ہیں مگر ملک کے مختلف حصے مختلف مراحل سے گزر رہے ہیں‘‘۔ جیسے جیسے اموات خصوصاً ادھیڑ عمر افراد کی اموات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے کیا ہم نے یہ تو نہیں سوچنا شروع کر دیا کہ ان کی قسمت میں یہی لکھا تھا؟
لگتا ہے کہ ا سٹاک مارکیٹ کو ان اموات کی بھاری قیمت چکانا پڑی ہے۔ 2008-09ء کی کساد بازاری کے دوران سٹاک مارکیٹ کی قیمت پچاس فیصد گر گئی تھی اور اسے ریکور کرنے میں چار سال لگ گئے تھے۔ مارچ میں یہ صرف 34 فیصد نیچے گری اور پھر جلد ہی سنبھل گئی۔ وال سٹریٹ جرنل کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو بات سمجھ ا? جاتی ہے۔ زیادہ تر اموات ادھیڑ عمر افراد اور نرسنگ ہومز میں رہنے والوں کی ہوئی ہیں جو نہ زیادہ باہر سفر کرتے ہیں اور نہ باہر سے کھانا کھاتے ہیں۔ معیشت کو بھی ان کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اور یہ لوگ ہمارے ہیلتھ کیئر سسٹم اور سوشل سکیورٹی ٹرسٹ فنڈز پر بھی بوجھ تھے۔
کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ موت کو ایک حقیقت کے طور پرقبول کرنا ہماری نفسیات کا حصہ ہے مگر جدید ادویات کی بدولت ہم کئی نسلوں سے موت کی دسترس سے بڑی حد تک باہر نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم سب بلیک ڈیتھ اور اْس طاعون کے بارے میں سن چکے ہیں جس نے ایک تہائی انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا تھا اور بہت سے ممالک کو اپنی تقدیرکو از سر نو لکھنا پڑا تھا۔ وہ سب وقت کے دھندلکے میں گم ہو چکے ہیں مگر ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ ہمارے آبائو اجداد اپنے ارد گرد موت کو ہر وقت محسوس کرتے تھے‘ وہ جس طرح محسوس کرتے تھے‘ ہم کبھی اس طرح نہیں جان سکتے۔
نیویارک سٹی کے ہیلتھ ڈپارٹمنٹ نے ایک چارٹ ترتیب دیا ہے جو 1805ء سے شہر میں ہونے والی اموات کی تفصیلات پر روشنی ڈالتا ہے۔ پہلی نظر میں تو یہ ڈائو جونز کے انڈیکس کی طرح اوپر نیچے جاتا لگتا ہے مگر جب ا?پ اسے زیادہ دیر تک دیکھتے ہیں تو آپ بہت زیادہ خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ مارچ سے پہلے جب کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ ہونا شروع نہ ہوا تھا‘ نیویارک شہر میں سالانہ شرح اموات 6افراد فی ایک ہزار تھی۔ وائرس کی پہلی لہر کے ساتھ ہی یہ شرح 8.5افراد فی ہزار ہوگئی مگر 1800ء سے 1850ء تک شہر میں پے درپے پھیلنے والی وبائوں کے نتیجے میں اموات میں اضافہ ہوتا رہا۔ اس وقت شرح اموات 25افراد فی ہزار تھی جو کسی سال بڑھ کر 50افراد فی ہزار بھی ہو جاتی تھی۔ بدترین سالوں میں نیویارک میں مرنے والوں کی تعدا دوگنا ہوتی رہی ہے۔
سب سے زیادہ اموات 1832ء ، 1849 ء اور 1854ء میں پھیلنے والی ہیضے کی وبائوں کی وجہ سے ہوئیں مگر کئی دفعہ ایسے بھی ہوا کہ وبا اور زرد بخار، چیچک، خسرہ، خناق ، ٹایفس (ٹائیفائیڈ کی ایک قسم) اور سرخ بخار اکٹھے ہی تباہی مچا دیتے تھے۔ ہیضے اور ٹایفس کے علاوہ زیادہ تر بچوں کی بیماریاں پھیلتی تھیں جس سے بڑی عمرکے افراد بچ جاتے تھے کیونکہ انہیں یہ بیماریاں بچپن میں ہو چکی ہوتی تھیں۔
1860ء کے بعد شرح اموات کم ہونا شروع ہوگئی۔ نیویارک کے شہری اور ڈاکٹرز دونوں نے ہی بحث و تکرار چھوڑ دی تھی اور بنیادی امور پر ان میں اتفاق رائے قائم ہو گیا تھا۔ سب سے پہلے تو بیماری کے حوالے سے جراثیم کی تھیوری کو قبول کر لیا گیا کہ بیماری صرف کوڑے کرکٹ اور فضلے سے ہی نہیں پھیلتی۔ ایک صدی پہلے ہی امریکیوں نے یہ تھیوری بھی ترک کر دی تھی کہ بیماری خون، پیشاب اور پسینے کے عدم توازن کی وجہ سے پھیلتی ہے اور جسم سے خون کے اخراج اور پسینے کی مدد سے یہ توازن دوبارہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ ان میں اس بات پر بھی اتفاقِ رائے قائم ہو گیا کہ تارکین وطن خواہ اپنے ساتھ کوئی بیماری لائے تھے یا وہ بھی کسی بیماری کا شکار ہوئے ہیں‘ جب تک ہر کوئی محفوط نہیں ہو جاتا، کوئی فرد بھی بیماری سے محفوظ نہیں ہے۔
چنانچہ انہوں نے صحت عامہ کو ایک عالمی سہولت بنا دیا۔ چنانچہ نیویارک کے شہریوں نے کئی ایک اقدامات کیے جن میں سے کچھ تو بہت مہنگے اور متنازع بھی تھے مگر سب سائنس کی بنیادوں پر استوار تھے۔ انہوں نے شہر کی غلاظت کو سڑک کنارے قائم گڑھوں کے بجائے سیوریج کھود کر اسے دریائے ہڈسن اور ایسٹ ریور میں پھینکنا شروع کر دیا۔ 1842ء میں انہوں نے مین ہیٹن کو تازہ پانی کی سپلائی کے لیے زمین دوز کروٹن نہر بنائی۔ 1910ء میں انہوں نے پانی کے جراثیم مارنے کے لیے ا س میں کلورین استعمال کرنا شرو ع کر دی۔ 1912ء میں انہوں نے ڈیریز کو پابند کر دیا کہ وہ اپنا دودھ خاص درجہ حرارت تک گرم کر نے کے بعد فروخت کریں کیونکہ ایک فرانسیسی سائنس دان لوئی پاسچر نے ثابت کیا تھا کہ دودھ کو گرم کرنے سے بچے تپ دق کی بیماری سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے چیچک کی ویکسین لگوانا بھی لازمی قرار دے دیا۔
اگرچہ آزادی پسندوں نے تقریباً ہر قدم پر اس کی مخالفت کی۔ کچھ نے اس وجہ سے بھی مخالفت کی کیونکہ پانی اور سیوریج کے پائپ ان کی زمینوں میں سے گزرتے تھے۔ ان کا موقف تھا کہ ان کے پاس پانی کے بہترین کنویں اور تالاب موجود ہیں۔ کئی ایک نے چیچک کی ویکسین لگانے سے انکار کر دیا حتیٰ کہ سپریم کورٹ کو 1905ئ￿ میں Jacobson V Massachusetts مقدمے میں اس کیس کا فیصلہ کرنا پڑا۔
1918ء میں جب ہسپانوی فلو کی وبا پھیلی تو نیویارک کے شہریوں نے تو اپنے چہرے پر ماسک پہننا شرو ع کر دیے تھے مگر سان فرانسسکو کے چار ہزار شہریوں نے ماسک مخالف لیگ قائم کر لی۔ (شہر کے میئر جیمز رالف کو اپنے ہی محکمہ صحت کے ماسک کے بارے میں حکم کی خلاف ورزی کرنے پر پچاس ڈالر جرمانہ کیا گیا تھا) رفتہ رفتہ سائنسی طریقہ کار کا استعمال بڑھتا گیا اور شرح اموات میںکمی آتی گئی۔
آج نیویارک کے شہریوں کو ایک بار پھر اسی غیر یقینی کا سامنا ہے جس کا سامنا ان کے آبائو اجداد کو کرنا پڑا تھا۔ ہم سائنس دانوں کی بات سن کر رقم خرچ کرکے انسانی زندگیاں بچاسکتے ہیں یا ہم اپنے ہمسائے کو مرتا ہو ا دیکھ سکتے ہیں۔ عنقریب ہمیں کوئی ویکسین دستیاب ہو سکتی ہے یا اسی طرح کے کئی طریقہ علاج بھی آ سکتے ہیں جیسا کہ مونو کلونل اینٹی باڈیز جن کی مدد سے شرح اموات میں بہت زیادہ کمی آ جائے گی۔ ہمیں موت کے سامنے ہتھیار نہیں پھینکنے چاہئیں بلکہ ہم تاخیری حربے استعمال کر کے اسے شکست دینے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار وجود منگل 19 مارچ 2024
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار

نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر وجود منگل 19 مارچ 2024
نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر

اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل وجود منگل 19 مارچ 2024
اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل

اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر وجود پیر 18 مارچ 2024
اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

نازک موڑ پر خط وجود پیر 18 مارچ 2024
نازک موڑ پر خط

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر