وجود

... loading ...

وجود
وجود

آیا صوفیاسیکولرزم کے خاتمے کا پیغام

منگل 14 جولائی 2020 آیا صوفیاسیکولرزم کے خاتمے کا پیغام

تاریخی بابری مسجد کو مندر بنانے کے فیصلے پر دنیا میں کوئی خاطرخواہ بحث نہ ہوئی لیکن آیا صوفیہ کے مسجد آیا صوفیہ بحالی کے اعلان پر پوری دنیا بالخصوص دنیائے عیسائیت میں صف ماتم بچھی ہے تو دوسری طرف عالم اسلام میں اس خبر سے خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے، ہاگیہ صوفیہ فتح ہونے تک مشرقی رومن سلطنت جسے بازنطینی سلطنت کا نہ صرف سب سے بڑا مذہبی مرکز تھا بلکہ بازنطینی سلطنت کے تمام اہم امور اسی عمارت سے چلائے جاتے تھے۔ اگر ارتغرل غازی ڈرامے میں کلیساوں کے کردار پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جنگوں میں یہ کلیسا جاسوسی، مشاورتی مراکز کے ساتھ ساتھ فوج کے لیے نرسری کا کردار ادا کرتے تھے اور جنگوں کے لیے مالی معاونت کا اہم زریعہ تھے۔ ہاگیہ صوفیہ یونانی زبان کے الفاظ ہیں جس کے معنی ہیں Holy Wisdom جسے ترکوں نے آیا صوفیہ کا نام دیا اس کے تاریخی پس منظر پہ نگاہ ڈالیں تو اسے 360ء میں قسطنطین نے لکڑی سے بنوایا تھا جو چھٹی صدی میں جل گیا تو قیصر جسٹینین اول نے 532ء میں ہاگیہ صوفیہ کو پختہ اور عالیشان عمارت بنوانا شروع کیا جس کی تکمیل میں چھ سال لگے اور روایت میں ملتا ہے کہ تکمیل کے بعد جب جسٹینین پہلی بار اس میں داخل ہوا تو اس نے تکبرانہ و گستاخانہ جملہ کہا ”سلیمانؑ میں تم پر سبقت لے گیا” اس کے بعد تقریباً ہزار برس تک یہ عمارت آرتھوڈوکس عیسائیت کا مرکز بنی رہی اور آخری بار 28 مئی 1453 کو مسیحیوں نے اس میں مذہبی رسومات ادا کیں، اگلے روز سلطان محمد دوم فاتحانہ اس میں داخل ہوا جو اس لمحے سے پہلے تک رومن سلطنت کے تاج و تخت کی علامت کے طور پر دیکھی جاتی تھی۔
اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مسلسل آٹھ سو سال تک مسلمان قسطنطنیہ فتح کرنے کے لیے لشکر کشی کرتے رہے لیکن یہ سعادت عثمانی سلطان محمد فاتح کو نصیب ہوئی جس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”تم ضرور قسطنطنیہ فتح کرلوگے،کیا ہی شاندار وہ امیر ہوگا اور کیا ہی شاندار وہ لشکر ہوگا”۔ قسطنطنیہ چونکہ سلطان کی طرف سے صلح کی پیشکش کے بعد بزور شمشیر فتح ہوا تھا، اس لیے مسلمان ان کلیساؤں کو باقی رکھنے کے پابند نہ تھے اور اس بڑے چرچ کے ساتھ جو توہمات اور باطل عقیدے وابستہ تھے انھیں بھی ختم کرنا تھا۔ اس لیے سلطان محمد فاتح نے اس چرچ کو مسجد میں تبدیل کرنے کا ارادہ کیا، چنانچہ اسے مال کے ذریعہ خریدا گیا، اس میں موجود رسموں اور تصاویر کو مٹا دیا گیا یا چھپا دیا گیا اور محراب قبلہ رخ کر دی گئی، سلطان نے اس کے میناروں میں بھی اضافہ کر دیا تھا۔ اس کے بعد یہ مسجد‘‘جامع آیا صوفیہ’’کے نام سے مشہور ہو گئی اور اسے استنبول میں پہلی شاہی مسجد کا درجہ حاصل ہوا جہاں 1517 سے باقاعدہ عثمانی خلیفہ اس کے ممبر سے خطبہ دینے لگے اور سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ تک تقریباً پانچ سو سال تک پنجوقتہ نماز ہوتی رہی۔ جنگ عظیم اول کے بعد ترکی کا کنٹرول سنبھال کر مصطفیٰ کمال پاشا نے سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کا اعلان کردیا جس پر علامہ اقبال نے کہا کہ ”چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا” وہ سیکیولرزم کی آڑ میں اسلام دشمنی میں اس حد تک آگے نکل گیا کہ اسلامی فرائض تک پر پابندی عائد کردی اور 24 نومبر 1934 کو جب اسے ”اتا ترک” یعنی ترکوں کا باپ کا خطاب ملا تو اسی دن ترک کابینہ نے مسجد آیا صوفیہ کو میوزیم بنانے کی منظوری دیدی۔ اور تقریباً 86 سال بعد ایک بار پھر آیا صوفیہ میں اذان کی گونج سنائی دینے لگی، ترک کونسل آف ا سٹیٹ کے آیا صوفیہ کی ملکیت سلطان محمد فاتح فاونڈیشن کے حق میں فیصلے کے فوراً بعد طیب اردگان نے خطاب کرتے ہوے آیا صوفیہ کو مسجد کے طور پر بحال کرنے اور 24 جولائی سے باقاعدہ نماز کا اعلان کردیا ہے جس پر اہلیان مغرب کے ساتھ ساتھ سیکیولر حلقوں میں چیخ و پکار مچی ہے جس کی اہم وجہ یہ نہیں کہ آیا صوفیہ کی عمارت کبھی چرچ ہوا کرتی تھی، ایک دو نہیں بیسیوں ایسے چرچ ہیں جن کو امریکا، برطانیا و دیگر یورپی ممالک میں مسلمانوں نے خرید کر مسجد بنایا ہوا ہے۔
اصل وجہ یہ ہے کہ جامع آیا صوفیہ اسلامی فتح کی علامت کے طور پر جانی جاتی تھی، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ یہ آرتھوڈوکس کرسچنٹی و رومن سلطنت پر ترک عثمانی سلطنت کی مذہبی و فوجی بلکہ ہر لحاظ سے برتری کی علامت ہے اور اس کی بحالی کے اعلان نے ایک بار پھر رومیوں کے زخم ہرے کردئیے ہیں اور مغربی طاقتیں اس موقع سے فائدہ اٹھا کر روس کو کمینزم کی بجائے آرتھوڈوکس کرسچن ریاست کے طور پر بحال کرنا چاہ رہے ہیں یہاں یہ ذکر اہم ہے کہ قسطنطنیہ کی شکست کے بعد بازنطینی اور آرتھوڈوکس مسیحی استنبول سے ماسکو منتقل ہوگئے تھے جہاں ان پر بعد میں کمیونزم کا رنگ چڑھ گیا۔ مغربی میڈیا مسجد آیا صوفیہ کے معاملے کو متنازعہ بنارہا ہے جسے روس نے فیصلے سے پہلے ہی ترکی کا داخلی مسئلہ قرار دیا تھا لیکن مغربی میڈیا کے غیرضروری طور پر اسے اسلامی و مغربی یعنی عیسائیت کی تہذیب کا مسئلہ بناکر پیش کررہا ہے جس پر روسی آرتھوڈوکس پیٹریارک نے اسے تمام کرسچن تہذیب کے لیے خطرہ قرار دیا ہے اور پاپ نے اس فیصلے پر گہرے رنج کا اظہار کیا ہے، اس کے علاوہ تمام دنیائے عیسائیت میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کیونکہ آیا صوفیہ کو بطور مسجد کی بحالی کھلا پیغام ہے کہ ترکوں نے کمال اتا ترک کے فلسفے کو دفن کرکے ایک بار پھر عثمانی سلطنت کو بحال کردیا ہے، بہت سے پاکستانی دانشور اسے اردگان کی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ قرار دے رہے ہیں جو یقیناً ترکی کے زمینی حقائق سے ناواقف ہیں، کمال اتا ترک کے سیکیولر ایجنڈے کے مسلط ہونے کے باوجود ترکوں کے دل سے مذہبی جذبات و عثمانی خلافت سے والہانہ وابستگی کبھی ختم نہ ہوئی یہی وجہ تھی کہ 1950 میں رپبلکن پارٹی مذہب کے نام پر کامیاب ہوئی اور اس کے بعد 60 کی دہائی میں بھی دائیں بازو کی جماعتوں کو کامیابی ملی، اور اس کے بعد بھی خواہ سلیمان دیمرل ہو یا طیب اردگان ترک عوام نے آیا صوفیہ اور عثمانی سلطنت کے فلسفے کے حق میں ووٹ دیا۔ اور اب آکر ترکوں کی دیرینہ خواہش پوری ہوئی تو اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے اسرائیل کے فرمانبردار سپوت لڑکھڑاتا امریکا و برطانیا کی جوڑی پس پردہ رہ کر مذہب کارڈ کھیل رہی ہے تاکہ روس سمیت پورے یورپ میں پھر سے طاقت کا محور کلیسا بن جائے تو یہ جوڑی بآسانی اپنے اہداف حاصل کرسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار وجود منگل 19 مارچ 2024
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار

نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر وجود منگل 19 مارچ 2024
نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر

اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل وجود منگل 19 مارچ 2024
اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل

اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر وجود پیر 18 مارچ 2024
اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

نازک موڑ پر خط وجود پیر 18 مارچ 2024
نازک موڑ پر خط

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر