وجود

... loading ...

وجود
وجود

جے آئی ٹی رپورٹس ۔۔۔نقالوں سے ہوشیار رہیں

جمعرات 09 جولائی 2020 جے آئی ٹی رپورٹس ۔۔۔نقالوں سے ہوشیار رہیں

پاکستان کی سیاسی و انتظامی تاریخ میں یہ پہلی بار امر واقع ہوا ہے کہ بیک وقت ایک، دو نہیں بلکہ پوری تین جے آئی ٹی رپورٹس عوام کے مطالعہ کے لیے پیش کردی گئی ہیں۔قصہ مختصر کچھ یوں ہے کہ سندھ حکومت نے وفاقی وزیر برائے بحری امور علی زیدی کی جانب سے چیف سیکریٹری سندھ کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی دائر کردہ درخواست کے دباؤ میں آکر عذیر بلوچ، نثار مورائی اور سانحہ بلدیہ فیکٹری کی جے آئی ٹی رپورٹس جاری کر دیں۔ سندھ حکومت کی جانب سے تینوں جے آئی ٹیز کی رپورٹس محکمہ داخلہ سندھ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کے بعدسندھ حکومت کے ترجمان مرتضی وہاب کا کہنا تھا کہ’’ اِن تینوں جے آئی ٹی رپورٹس میں آصف علی زرداری کا نام کہیں درج نہیں ہے‘‘۔یہ جملہ پریس کانفرنس میں اتنی بار دہرایا گیا کہ گمان ہونے لگا کہ شاید جے آئی رپورٹس شائع ہی فقط اِس مقصد کے لیے کی جارہی ہیں کہ عوام الناس کو معلوم ہو سکے کہ اِن تینوں جے آئی ٹی میں آصف علی زرداری کا نام کہیں موجود نہیں ہے اور واقعی سندھ حکومت کی جانب سے جاری ہونی والی جے آئی رپورٹس میں پاکستان پیپلزپارٹی کے کسی بھی اہم رہنما کا نام موجود نہیں ہے ۔
خیر اگر سندھ حکومت کے نزدیک تینوں جے آئی رپورٹس کی بنیادی خوبی ہی یہ ہے کہ اِن میں پاکستان پیپلزپارٹی کا اعلیٰ قیادت کا نام نہیں ہے تو بھلا اِس پر پاکستانی عوام کو کیا اعتراض ہوسکتاتھا۔ پس! پاکستانیوں نے ایسی جے آئی ٹی رپورٹس ، جن میں آصف علی زرداری کا نام بھی کہیں نہیں لکھا ہوا ہے، پڑھنے کے لیے وہ عجلت اور بے تابی دکھائی کہ کئی گھنٹوں کے لیے وہ سرور ہی ڈاؤن ہوگیا ،جہاں پر سندھ حکومت نے جے آئی ٹی رپورٹس مطالعہ کے لیے رکھی تھیں ۔ اِس خبر کے منظر عام پر آجانے کے بعد کچھ ناعاقبت اندیش لوگوں نے سوشل میڈیا پر یہ پوسٹ بھی لگادی کہ’’جے آئی ٹی رپورٹس پڑھنے والوں کا بے تحاشا رش انٹرنیٹ سرور پراِس وجہ سے ہے کہ عوام بذات ِ خود تصدیق کرنا چاہتے ہیں کہ کیا واقعی تینوں جے آئی ٹی رپورٹس میں آصف علی زرداری کا نام موجود نہیں ہے ‘‘ ۔
ابھی عوام اِس سیاسی حیرانگی سے نکل ہی نہیں پائے تھے کہ سندھ حکومت کی جانب سے جاری ہونے والی تینوںجے آئی رپورٹس میں جناب آصف علی زرداری کا نام موجود نہیں ہے کہ اگلے ہی دن وفاقی وزیر ِ برائے بحری امور علی زیدی نے ایک اور جے آئی ٹی رپورٹ یہ کہتے ہوئے پیش کر دی کہ’’ آج آپ کے سامنے عزیر بلوچ کی جو جے آئی ٹی رپورٹ رکھ رہا ہوں،صرف یہ ہی اصلی ہے کیونکہ اِس رپورٹ کے ہر صفحے پراسپیشل برانچ، سی آئی ڈی، آئی ایس آئی، آئی بی، پاکستان رینجرز اور ایم آئی کے حکام کے دستخط ہیں، اس جے آئی ٹی رپورٹ میں اگر کسی کے دستخط نہیں تو وہ سندھ حکومت ہے، سندھ حکومت نے جو جے آئی ٹی جاری کی ہے وہ الگ ہے، سندھ حکومت کی جاری کی گئی جے آئی ٹی پر 4 صفحات پر دستخط ہیں، میرے پاس جو جے آئی ٹی ہے اس کے ہر صفحے پرعزیر بلوچ کے دستخط ہیں اور اس رپورٹ میں فریال تالپور، عبدالقادر پٹیل، شرجیل میمن، یوسف بلوچ، ذوالفقار مرزا اور نثار مورائی کا نام ہے ‘‘۔
مگر سچی بات تو یہ ہے کہ عوام وفاقی وزیر برائے بحری اُمور علی زیدی کی اِس پریس کانفرنس سے بھی شدید مایوس ہوئی کیونکہ اُن کی پیش کردہ مبینہ اصل اور مکمل جے آئی ٹی رپورٹ میں بھی پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین جناب آصف علی زرداری کا نام موجود نہیں ہے۔یعنی سندھ حکومت کے ترجمان جناب مرتضی وہاب کم ازکم اپنے اِ س دعوی پر تو کھرے اُترے کہ سندھ حکومت کی پیش کردہ تینوں جے آئی ٹی رپورٹس میں آصف علی زرداری کا نام نہیں ہے ۔ جہاں تک اِس بات کا تعلق ہے کہ اصل اور مکمل جے آئی ٹی کس کے پاس ہے ؟۔کیا سندھ حکومت کی جانب سے جاری ہونے والی جے آئی رپورٹس اصل اور مکمل ہیں؟ یا پھر وہ جے آئی ٹی رپورٹس اصل اور مکمل ہیں جنہیں وفاقی وزیر برائے بحری اُمور علی زیدی نے پیش کیا ہے؟۔ اِس عجیب و غریب تنازعہ کا فیصلہ یا تو وہ افراد کرسکتے ہیں جنہوں نے جے آئی رپورٹس مرتب کی ہیں یا پھر بقول علی زیدی ’’ چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کرتا ہوں کہ اس معاملے پر ازخود نوٹس لیں، جس کا بھی نام جے آئی ٹی میں ہے، اس سے تفتیش کی جائے‘‘۔بصورت دیگر جے آئی ٹی رپورٹس کی اصل اور نقل کا فیصلہ کرنے کے لیے حکومت ِ سندھ کی طرف سے ایک جے آئی ٹی بھی بنائی جاسکتی ہے۔
بہرکیف ایک بات طے اصل جے آئی ٹی 37 صفحات والی ہے یا 43 صفحات والی ۔ لیکن اِن رپورٹس میں جو بھی انکشافات کیے گئے ہیں ،اُنہیں پڑھنا ایک کمزور دل رکھنے والے شخص کے لیے تو قطعی ممکن نہیں ہے ۔ یہ جے آئی رپورٹس سندھ ،خصوصا کراچی کے معاشی ،سماجی ،اخلاقی و انسانی استحصال کی ایسی ہوش ربا ،ہولناک اور دل دہلادینے والے داستان ہے۔ جسے پڑھنے کے بعد کراچی میں گزشتہ چالیس برسوں سے حکمرانی کرنے والے نام نہاد سیاسی نمائندوں کو نفرت سے دھتکارنے کو من کرتاہے۔عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق عزیر بلوچ نے جاسوسی اور 198 افرادکو قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔جبکہ بلدیہ فیکٹری میں آتشزدگی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں آتشزدگی حادثہ نہیں دہشت گردی تھی،ایم کیو ایم رہنما حماد صدیقی اور رحمان بھولا نے 20 کروڑ روپے بھتہ نہ دینے پر فیکٹری میں آگ لگائی۔
دوسری جانب نثار مورائی کی جے آئی ٹی رپورٹ میں سندھ کے انتظامی اداروں میں مالی کرپشن کے لیے اختیار کیے سیاسی طریقہ واردات کی نقاب کشائی فرمائی گئی ہے ۔ عوام اچھی طرح جانتی ہے کہ یہ جے آئی ٹی رپورٹس آج تو بغیر کسی کاروائی کے مختلف سیاسی حیلوں اور بہانوں کے باعث داخل دفتر کردی جائیں گی ۔کیونکہ اِن جے آئی ٹی رپورٹس میں بیان کیے مجرموںکو کیفر کردار تک پہنچانے کی انتظامی طاقت نہ تو علی زیدی کے پاس اور نہ ہی سندھ حکومت کے پاس اتنا حوصلہ ہے کہ انہیں بچا سکے۔ لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ظلم ،قتل و غارت گری اور کرپشن کا بازار گرم کرنے والے مجرم اپنے انجام تک نہیں پہنچ سکیں گے ۔یقینا قدرت کی لاٹھی بے آواز ہے اور یہ لاٹھی مستقبل قریب میں عوام الناس پر سیاست کی آڑ میں ظلم وجبر کرنے والوں پر ضرور برسے گی ۔اِس بار عوام کو سیاسی بتوں سے نہیں ،صرف اپنے خدائے واحد سے اُمید ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار وجود منگل 19 مارچ 2024
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار

نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر وجود منگل 19 مارچ 2024
نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر

اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل وجود منگل 19 مارچ 2024
اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل

اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر وجود پیر 18 مارچ 2024
اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

نازک موڑ پر خط وجود پیر 18 مارچ 2024
نازک موڑ پر خط

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر