وجود

... loading ...

وجود
وجود

’’ مابعدالبرسات‘‘

بدھ 08 جولائی 2020 ’’ مابعدالبرسات‘‘

دوستو،کراچی میں جب بھی بارش ہوتی ہے، اخلاق احمد مرحوم کا گایا یہ ہٹ سانگ۔۔ ساون آئے، ساون جائے۔۔بہت یاد آتا ہے۔۔ لیکن حیرت انگیزطور پر پورا کراچی ’’غیراخلاقی‘‘ طور پر’’مابعدالبرسات‘‘ معاملات پر جب تبصرہ کرتا ہے تو پھر یقین کریں ، ساون ،برسات یا بارش کا سارا مزہ کرکرا ہوجاتا ہے۔۔ بڑے شہروں میں جب برسات ہوتی ہے تو لوگ انجوائے کرتے ہیں، کراچی والے ٹینشن میں پڑجاتے ہیں کہ اب بجلی غائب ہوگی، سڑکوں پر پانی کھڑا ہوگا، بدترین ٹریفک جام ہوگا، گٹر ابلیں گے، نالے جام ہوجائیں گے۔۔کرنٹ لگنے سے معصوم شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔۔ یہ سب کچھ ہر بارش کے بعد ہوتا ہے لیکن کسی کو پرواہ نہیں کہ ان مسائل کا تدارک بھی کیا جائے۔۔۔محکمہ موسمیات کی پیشگوئی کے عین مطابق پیر سے کراچی میں بارشوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔۔اورایک ہفتے جاری رہنے کا امکان ہے۔۔ اس سے پہلے کراچی میں گرمی کی شدت کا یہ حال تھا کہ ۔۔ غریب آدمی کے ڈھیلے ڈھالے کپڑے بھی پسینے کی وجہ سے کڑک کاٹن کے بن جاتے ہیں۔کپڑوں پر بارش پہلے ہوتی ہے ان پر بادل بعد میں نظر آتے ہیں۔جبین نیاز پسینوں سے زمین پر سجدے کے نشان چھوڑ کر بندگی کا حق ادا کرتی ہے۔ مومن ہو یا کافر اس موسم میں ہمہ وقت باوضو رہتا ہے۔کافر نگاہیں ٹھنڈی ٹھنڈی زلفوں کی چھاؤں تلاش کرنے لگتی ہیں۔
اس سے بڑا لطیفہ کیا ہوگا کہ محکمہ موسمیات کی جانب سے بارش کی پیشگوئی کی خبر پر حکومت سندھ اور بلدیہ کراچی نے ملازمین کی چھٹیاں منسوخ کردیں اور برساتی نالوں کی صفائی کی تصویریں بھی جاری کردیں۔ کیا ایک دن میں تمام برساتی نالوں کی صفائی ممکن ہے۔یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ بعض فصلوں کے لیے یہ بارش آکسیجن کا درجہ رکھتی ہے مگر یہ بھی مستند حقیقت ہے کہ حشرات الارض خاص طورپر مچھروں کے لیے بھی یہ اکسیر کا حکم رکھتی ہے گویا دونوں فصلوں کی پیداواراسی بارش کا فیضان ہے۔بارشوں سے گلیا ں تو جل تھل ہو ہی جاتی ہیں ، سڑکیں بھی سیلابی نظر آتی ہیں۔ پیدل، (عقل سے نہیں) چلنے ولا بہ امر مجبوری سڑکوں پر چلے گا کیونکہ فٹ پاتھ تو پہلی ہی بارش میں گدھے کے سرسے سینگ کی طرح غائب ہوجاتی ہیں۔ اب ہوتا یہی ہے کہ ہر پیدل چلنے ولا آنے جانے والے ٹریفک کو بھی راستہ دیتا ہے اور خود بھی زبانی ہارن دے کر پاس کرتا ہے۔ بارش کے موسم میں متوسط طبقہ جلدی جلدی گھر بھاگنے کی کوشش کرتا ہے کہ دیکھیں کمرے کی چھت سے کتنے آبشار بہہ رہے ہیں۔ رہ گئے امراء تو فکر کی کوئی بات نہیں کیونکہ گھر سے نکلے تو کار، دفتر سے نکلے تو کار، اگر خراب ہوگئی تو بے کار، عموماً اس طبقے کے لوگ بارش میں بھیگنے کو ترستے ہیں۔ہمارے ہاں جو موسم پسند کیا جاتا ہے مغرب والے اس سے نفرت کرتے ہیں اور ہمارے ہاں برسات ،بادل اور بارش کا سن کر حیران ہوتے ہیں کیوں کہ وہاں کے لوگ سورج کی روشنی کو ترستے ہیں اس لیے اس موسم میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں ہوتی جب کہ ہمارے ہاں اس موسم میں رومانس کا احساس جاگتا ہے۔ہجرو فراق اور مسرت و شادمانی کے شعر کہے جاتے ہیں۔گزشتہ سال تو لاہور میں اتنی زیادہ بارش ہوئی کہ پیرس دھل گیا اور نیچے سے لاہور نکل آیا۔۔
لیجنڈ مزاح نگار مشتاق یوسفی ’’موسموں کا شہر‘‘ میں فرماتے ہیں۔۔ہم نے کراچی کے ایک قدیم باشندے سے پوچھا کہ یہاں مون سون کا موسم کب آتا ہے؟ اس بزرگ باراں دیدہ نے نیلے آسمان کو تکتے ہوئے جواب دیا کہ چار سال پہلے بدھ کو آیا تھا۔یہ کہنا تو غلط ہوگا کہ کراچی میں بارش نہیں ہوتی۔ البتہ اسکا کوئی وقت اورپیمانہ معین نہیں لیکن جب ہوتی ہے تو اس انداز سے گویا کسی مست ہاتھی کو زکام ہوگیا ہے۔ سال کا بیشتر حصہ میں بادلوں سے ریت برستی رہتی ہے لیکن چھٹے چھ ماہے دو چار چھینٹے پڑ جائیں تو چٹیل میدانوں میں بہو بیٹیاں ایک دوسرے کو دیکھنے کے لیے نکل پڑتی ہیں۔ اس قسم کا موسم بے تحاشا ‘‘رش’’ لیتا ہے۔وہ انگریزی فلمیں جن میں بارش کے مناظر ہوتے ہیں کراچی میں خوب کامیاب ہوتی ہیں۔ جغرافیہ پڑھنے والے بچے انہیں خود دیکھتے اور والدین کو دکھاتے ہیں۔ صاحب استطاعت والدین اپنے بچوں کو بارش کا مطلب سمجھانے کے لیے راولپنڈی لے جاتے ہیں اور انہیں وہ ہرے بھرے لان بھی دکھاتے ہیں جن پر پانی ‘‘روپیہ’’ کی طرح بہا یا جاتا ہے۔۔۔یادگار کے پاس ایک لہوری دوست اپنے دوست کو اپنے تجربات بتاتے ہوئے کہہ رہا تھا۔۔ میں نے بیس سال میں ایک بات نوٹ کی ہے۔۔ دوست نے پوچھا ، وہ کیا؟؟۔۔ پہلا دوست کہنے لگا۔۔ جب بھی لاہور میں سیاہ بادل آتے ہیں ، برستے ضرور ہیں۔۔ہم نے لاہور میں جتنی برسات دیکھی وہ کراچی میں اب تک نہیں دیکھی۔۔کراچی میں تو کبھی ’’اتفاق‘‘ سے سیاہ بادل آبھی جائیں تو صرف ’’غرارے‘‘ کرکے چلے جاتے ہیں۔۔یا پھر ’’نامعلوم افراد‘‘ کی طرح مشرق سے آکر مغرب کی طرف ’’روپوش‘‘ ہوجاتے ہیں۔۔
دو پاگل چھت پر سو رہے تھے کہ اچانک بارش ہو گئی۔۔ایک پاگل نے اٹھ کر دوسرا سے کہا۔۔چل اوئے اندر چل، آسمان میں سوراخ ہوگیا ہے۔۔دوسرے پاگل نے آنکھیں کھول کر ابھی پہلے والے کو گھورا ہی تھا کہ اتنے میں زوردار آواز کے ساتھ بجلی کڑکی، بجلی چمکتے ہی، دوسرا پاگل کہنے لگا۔۔ چل یار سوجا، ویلڈنگ والے بھی آگئے ہیں۔۔برسات کے حوالے سے برصغیر پاک و ہند میں کئی سپرہٹ گانے معرض وجود میں آئے ہیں اور آج بھی بارش کے موقع پر کچھ منچلے اونچی آوازمیں وہ گیت بجاتے ہیں۔۔ بارش کا موسم ہو یا بارش ہو، کراچی والوں کی واحد تفریح ساحل سمندر پہنچنا ہوتا ہے۔۔ لیکن بارش کے بعد تو گلی گلی،سمندر بہہ رہا ہوتا ہے۔۔برسات کی ایک خوبصورت رات میں شبنم سے بھیگتے ہوئے ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے ایک پھول نے دوسرے پھول سے کہا۔۔انّی دیا! ٹکراں تے نہ مار!
اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔اللہ سے دعا ہے ہم انسانوں کو موسم برتنے کی صلاحیت دے ہر موسم حسین ہے اگر ہم میں اسے سلیقے سے گزارنے کا ہنر ہے۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار وجود منگل 19 مارچ 2024
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار

نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر وجود منگل 19 مارچ 2024
نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر

اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل وجود منگل 19 مارچ 2024
اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل

اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر وجود پیر 18 مارچ 2024
اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

نازک موڑ پر خط وجود پیر 18 مارچ 2024
نازک موڑ پر خط

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر