وجود

... loading ...

وجود
وجود

چین کے معاملہ میں غلطی کہاں ہوئی؟

پیر 06 جولائی 2020 چین کے معاملہ میں غلطی کہاں ہوئی؟

وزیر اعظم نریندر مودی کے سواء ہندوستان کے کسی وزیراعظم نے بیجنگ کے زیادہ دورے نہیں کئے ہیں۔ انہوں نے جملہ 9 دورے کیے ، 5 مرتبہ ہندوستانی وزیر اعظم کی حیثیت سے اور 4 مرتبہ چیف منسٹر گجرات کی حیثیت سے ۔ نریندر مودی کے بارے میں یہ بھی بلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے چین کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کی بہت کوشش کی اور چینی قیادت کے ساتھ اس معاملہ میں وہ رابطے میں رہے ۔ جہاں تک ہندوستان اور چین کے درمیان 1962 کی جنگ کا سوال ہے پنڈت جواہر لال نہرو کے حامی اُسے ایک بہت بڑی غداری کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ لداخ 2020 معاملہ بھی ایسا ہی لگتا ہے ۔
آپ کو یاد ہوگا کہ پنڈت جواہر لال نہرو نے 1962 کی جنگ سے قبل چین کے ساتھ تعلقات خوشگوار بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی۔ وہ عظیم تر قدیم تہذیبی تصور کے خوبصورت فریب کی بنیاد پر تھی جبکہ مودی نے چین کے ساتھ جو قربتیں بڑھائی تھیں وہ نظریاتی طور پر کم اور شخصی زیادہ ہیں۔ چینیوں کے ساتھ مودی کی ملاقاتوں یا تعلقات کو تین سطحوں پر سمجھایا جاسکتا ہے ۔ پہلے تو یہ شخصی شکر گزاری کی بنیاد پر تھے ، آپ کو یاد ہوگا کہ جس وقت 2002 گجرات فسادات کے بعد مغربی ممالک نے مودی کا بائیکاٹ کیا تھا صرف 2 ایسے ممالک تھے جنہوں نے مودی کا بھرپور ساتھ دیا اور ان کی تائید و حمایت کی اور یہ دو ممالک چین اور جاپان تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ سال 2014 میں عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہونے کے فوری بعد مودی نے جس بڑے ملک کا پہلی مرتبہ دورہ کیا وہ کوئی اور ملک نہیں بلکہ جاپان تھا اور اس باوقار عہدہ پر فائز ہونے کے بعد مودی نے جس پہلے بڑے عالمی رہنما کا سرزمین ہند پر خیرمقدم کیا وہ چینی صدر ژی جن پنگ تھے ۔ احمد آباد میں مختلف مقامات پر دونوں رہنماؤں کی جو تصاویر لگائی گئی تھیں ان سے دونوں رہنماوں کے درمیان خصوصی تعلقات کا ثبوت ملتا ہے ۔ ان دونوں اہم قائدین نے ہندوستان اور چین کے درمیان عدم اعتماد کا جو طویل ترین سلسلہ تھا اسے ختم کرنے کا وعدہ کیا اور یہ وعدہ دال ۔ کھڑھی اور ڈھوکلا کھاتے ہوئے کئے گئے ۔ دوسری اہم سطح دونوں ملکوں کے درمیان کاروباری پہلو ہے جس نے اس تعلق کو بہت زیادہ اہم بنا رکھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے کبھی بھی چین کی سرکار کی جانب سے چلائی جانے والی خانگی کمپنیوں کی تعریف و ستائش کو چھپا نہیں رکھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب گجرات میں درخشاں گجرات چوٹی کانفرنس منعقد کی گئی تب چینی کمپنیوں کی ایک کثیر تعداد نے گجرات کا رخ کیا اور ریاست گجرات میں کروڑہا روپے کا سرمایہ مشغول کیا۔ تیسری سطح طاقتور ہندوتوا قوم پرستی کا مودی برانڈ ہے ۔ اس برانڈ کی جارحانہ چینی قوم پرستی کے زی ویژن میں بھی اپنی بازگشت سنائی دی۔ دو طاقتور رہنما جنہیں اپنی پارٹیوں یا اپنی جماعتوں پر مکمل کنٹرول حاصل ہے دونوں کے سیاسی عروج کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان میں کئی ایک باتیں مشترکہ ہیں۔
اس کے باوجود سفارتی تعلقات خاص طور پر وہ جو ہندوستان اور چین کی حیثیت سے بھری ہوئی تاریخ کو دیکھتے ہیں وہ تاریخ صرف شخصی کیمسٹری پر تعمیر نہیں کی جاسکتی ۔ مشرقی لداخ میں جو خونی جھڑپ ہوئی ہے اس سے صرف اس شخصی برانڈ کی حامل سفارتکاری پر روشنی پڑتی ہے جہاں ادارہ جاتی میکانزم ایک شخصیاتی مسلک کی قیمت پر ترک کیا۔ مودی کے دور کو بحیثیت وزیر اعظم سفر کے شوقین کی حیثیت سے دیکھا گیا نتیجہ میں ہندوستانی وزارت امور خارجہ کے بوجھ میں کمی آئی اور وہ وزیر اعظم کے طور دیومالائی مشن کے ضمیمہ سے زیادہ کچھ نہیں تھی ۔ پھر آیا وہ آنجہانی سشما سوراج ہو جنہوں نے پریشانی میں مبتلا ہندوستانیوں کے لئے مینارِ نور کا کردار ادا کیا یا پھر موجودہ وزیر خارجہ ایس جے شنکر جن کی مضبوط دانشورانہ صلاحیتوں اور سفارتی تجزیہ ایسا لگتا ہے کہ بہت کم شمار کیا گیا۔ پچھلے 6 برسوں کے دوران زیادہ تر توجہ مودی کی شبیہہ کو حالات کا رخ موڑنے والے اور کرشماتی لیڈر کی حیثیت سے فروغ دینے مرکوز کی گئی اور مودی کو ایک ایسا لیڈر بنانے پر توجہ دی گئی جس کا انداز اور مناظریات اکثر مادیت سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔
مودی کی طرز کارکردگی بالکل جداگانہ ہے اور جس طرح ژی جن پنگ نے کرشماتی شخصیت کا تاثر چھوڑا ہے اسی طرح نریندر مودی نے اپنے خامیوں اور مخالفین پر اپنی کرشماتی شخصیت کا تاثر چھوڑا ہے ۔ مثال کے طور پر سال 2015 میں اچانک ایک ڈرامائی فیصلہ کرتے ہوئے اُس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو مبارکباد دینے کے لئے لاہور پہنچ گئے ۔ اس سلسلہ میں قبل از وقت کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔ کسی کو کانو کان خبر نہیں ہوئی ان کا وہ دورہ پوری طرح غیر معلنہ تھا، اس طرح انہوں نے جس وقت امریکی صدر بارک اوبامہ اور ان کی اہلیہ مشعل اوباما نے ہندوستان کا دورہ کیا۔ پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خود طیرانگاہ پہنچ گئے تاکہ اوبامہ اور ان کی اہلیہ کا استقبال کرسکیں۔ اس وقت نریندر مودی اوباما کے ساتھ غیر معمولی اپنائیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ‘‘میرے دوست بارک’’ کہتے ہوئے ان سے گرمجوشانہ انداز میں بغلگیر ہوئے ۔ مودی کے اس منظر کو بھی نہیں بھلایا جاسکتا جب انہوں نے ڈونالڈ ٹرمپ فیملی کو احمد آباد کی سیرکروائی یا پھر ہیوسٹن میں بہت بڑی تقریب کے دوران جسے امریکہ میں ایک راک کنسرٹ یا موسیقی ریز پروگرام سے تعبیر کیا گیا اس میں تالیاں بجائیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ خطرناک سرخیاں اور فن سے بھرپور ایونٹ مینیجمنٹ 24×7 نیوز کوریج کو یقینی بناسکتا ہے لیکن جان توڑ سفارت کاری کا نعم البدل نہیں ہوسکتی بلکہ اس کے لئے میدان عمل میں اتر پڑتا ہے اور تعلقات کے شخصی تعلقات سے بالاتر بنانے کی ضرورت ہوتی ہے ۔
ہمیں یہ بھی نہیں فراموش کرنا چاہئے کہ لاہور میں مودی۔ شریف قربت کے اندرون چند ہفتے پٹھان کوٹ میں واقع ایک ائیرفورس اسٹیشن میں دہشت گردانہ واقعہ پیش آیا جس کے بعد 2016 میں سلسلہ وار خودکش دھماکوں کے واقعات پیش آئے ۔اب جب کہ ہمارے وزیر اعظم نے مالاپورم تفریحی مقام پر چینی صدر ژی جن پنگ کی میزبانی کئے ہوئے 8 ماہ سے بھی کم عرصہ ہوا ہندوستان نے لداخ میں چینی سپاہیوں کے ساتھ پرتشدد جھڑپ میں اپنے کئی سپاہیوں کو کھو دیا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر چین کے معاملہ میں غلطی کہاں ہوئی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار وجود منگل 19 مارچ 2024
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار

نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر وجود منگل 19 مارچ 2024
نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر

اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل وجود منگل 19 مارچ 2024
اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل

اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر وجود پیر 18 مارچ 2024
اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

نازک موڑ پر خط وجود پیر 18 مارچ 2024
نازک موڑ پر خط

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر