وجود

... loading ...

وجود
وجود

آٹھ منٹ ،اور۔۔۔!

جمعرات 02 جولائی 2020 آٹھ منٹ ،اور۔۔۔!

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں واقع بازارِ حصص، پاکستان ا سٹاک ایکسچینج کی عمارت پر شدت پسندوں کی جانب سے کیے جانے والے حملے کی ناکام کوشش میں چار حملہ آوروں سمیت دس افراد ہلاک ہو گئے ۔بظاہر اِس حملے کی ذمہ داری کالعدم شدت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کی بغل بچہ جماعت مجید بریگیڈ نے قبول کرلی ہے مگر حقیقت احوال یہ ہے کہ دہشت گردی کے اِس واقعہ کے پس پردہ بھی بھارتی خفیہ تنظیم’’ را ‘‘ہی ملوث ہے ،جس کی باقاعدہ تصدیق قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے بھی فرمادی گئی ہے ۔سب سے حیران کن با ت یہ ہے کہ ا نتہائی منظم انداز میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر حملے اور اس پر قبضے کی خواہش لے کر آنے والے 4 دہشت گرد صرف 8 منٹ کی کارروائی کے دوران ہی اپنے منطقی انجام کو پہنچا دیئے گئے۔ دہشت گردوں نے صبح دس بجے کے قریب پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی عمارت میں پارکنگ کے راستے سے داخل ہونے کی کوشش کی،یہ ہی وہ وقت ہے جب اِس عمارت میں کاروباری سرگرمیاں اپنے عروج پر ہوتی ہیں۔جبکہ کراچی سٹاک ایکسچینج کا دفتر کراچی کی ’’وال سٹریٹ‘‘ کہلائی جانے والی اہم ترین شاہراہ آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع ہے ،جہاں پرا سٹیٹ بینک آف پاکستان، پولیس ہیڈ کوارٹر سمیت دیگر معروف بینک اور میڈیا ہاؤسز کے مرکزی دفاتر بھی موجود ہیں۔اس کے علاوہ سندھ رینجرز کا مرکزی دفتر بھی ڈھائی کلومیٹر کے فاصلے پر ہی ہے۔ یعنی اگر کسی بھی وجہ سے دہشت گردوں کا پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو یرغمال بنانے کا منصوبہ کامیاب ہوجاتاتو کراچی پوری طرح سے مفلوج بھی ہوسکتاتھا۔ہزار شکر کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے چار محافظوں اور کراچی پولیس کے اہلکاروں نے اپنی جان پر کھیلتے ہوئے دہشت گردوں کی طرف سے کی جانب سے ہونے والی اندھا دھند فائرنگ اور دستی بموں کے حملوں کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہ کرتے ہوئے سخت اور انتہائی بروقت جوابی کارروائی کی ۔جس کا حتمی نتیجہ تمام دہشت گردوں کی ہلاکت اور بھارتی خفیہ ایجنسی را اور این ڈی ایس کی ایک اور بڑی ناکامی پر منتج ہوا۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر ہونے والے دہشت گردی کے اِ س واقعہ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اہلیت و صلاحیت کی دھاک ایک بار پھر سے دنیا بھر پر ثابت کردی اور عالمی ذرائع ابلاغ اِس واقعہ کی کوریج کے دوران انتہائی واضح لفظوں میں اُن آٹھ منٹ کا بار بار تذکرہ کرتے رہے ،جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے باہم یکجا ہوکر ملک دشمن عناصر کے مذموم مقاصد کو پوری طرح سے خاک میں ملانے کی سعی پیہم کی ۔خاص طو ر پر نجی سیکیورٹی کمپنی سے تعلق رکھنے والے چار اہلکار جس طرح سے دہشت گردوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر مزاحم ہوئے ،اُسی کی بدولت یہ ممکن ہوسکا ، دہشت گردوں کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی عمارت میں داخل ہونے سے بہت پہلے ہی روک لیا گیا ۔ دلچسپ با ت یہ ہے کہ اتنی بڑی دہشت گردی کی کارروائی ہونے کے باوجود عمارت کے اندر حصص کی لین دین کی کاروباری سرگرمیاں ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں روکی گئیں ۔ویسے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے ایک تسلسل کے ساتھ ملک بھر میں دہشت گردی کی کاروائیوں کو آغاز سے قبل ہی انجام تک پہنچاتے آرہے ہیں ۔ لیکن دہشت گردی کی منظم کارروائی کو کس طرح سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ابتداء میں ہی ناکام بنادیا جاتاہے ۔ اِس کا عملی مشاہدہ پہلی بار عوام الناس نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں ہونے والی دہشت گردی کی ناکام کارروائی پر ملاحظہ کیا۔
یاد رہے کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر ہونے والے دہشت گرد حملہ میں ملوث بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) پہلی مرتبہ 1970 کی دہائی کے اوائل میں وجود میں آئی تھی جب سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے پہلے دور حکومت میں بلوچستان میں ریاست پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت شروع کی گئی تھی ۔بی ایل اے کی ذیلی تنظیم مجید بریگیڈ کو مجید بلوچ نامی شدت پسند کے نام پر تشکیل دیا گیا تھا ،جس نے 1970 کی دہائی میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پر دستی بم سے حملے کی کوشش کی تھی۔تاہم2006 میں حکومتِ پاکستان نے بلوچ لبریشن آرمی کو کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کر لیا گیا۔یہ تنظیم بھارت کی مدد سے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کی بھی مخالفت کرتی رہی ہے اور اس نے اپنی حالیہ کارروائیوں میں پاکستان میں چینی اہداف کو تواتر کے ساتھ نشانہ بنایا ہے۔بی ایل اے کی جانب سے اگست 2018 میں سب سے پہلے جس خودکش حملے میں سیندک منصوبے پر کام کرنے والے افراد کی جس بس کو نشانہ بنایا گیا تھا اس پر چینی انجینیئر بھی سوار تھے۔اس کے بعد کالعدم بی ایل اے نے نومبر 2018 میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ یہ حملہ تین خود کش حملہ آوروں نے کیا تھا۔اس حملے کے بعد ہی قندھار کے علاقے عینو مینہ میں ایک مبینہ خودکش حملے کی خبر آئی اور گزشتہ برس مئی میں گوادر میں پرل کانٹینیٹل ہوٹل پر بی ایل اے کے مجید بریگیڈ کے ارکان نے ایسا ہی ایک حملہ کیا تھا۔
عجیب بات یہ ہے پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر حملہ آور دہشت گرد ’’مسنگ پرسن ‘‘کی اُس فہرست میں بھی شامل ہیں جس فہرست کی بنیاد پر گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان کی سیکورٹی کے ضامن اداروں کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں قانونی اور الیکٹرانک میڈیا پر بھرپور پروپیگنڈہ مہم چلائی جارہی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب کوئی’’ مسنگ پرسن‘‘ کسی دہشت گردی کی کارروائی میں براہِ راست شامل پایا گیاہے۔ اِس سے پہلے بھی دہشت گردی کے کئی واقعات میں بے شمار دہشت گرد بطور’’ مسنگ پرسن ‘‘شناخت کیے جاچکے ہیں ۔ یعنی اِس کا سادہ سا مطلب تو یہ ہوا کہ ’’مسنگ پرسن ‘‘ کی تلاش کے نام پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف مہم چلانے والی غیر ملکی این جی اوز اور اُن سے وابستہ مشہور ومعروف سیاسی وسماجی شخصیات کے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ’’سلیپنگ سیلز ‘‘ کے ساتھ وابستہ ہونے کے امکانات کو کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا مستقبل میں وطن ِ عزیز پاکستان کو آٹھ منٹ کی مزید دہشت گرد کارروائیوں سے بچانے کا واحد حل یہ ہی ہے کہ ایک لمحہ کی تاخیر کیے بغیر غیر ملکی این جی اوز کی چھتری تلے کام کرنے والی سماجی شخصیات کو بھی آٹھ منٹ کے لیے سہی بہرحال پوچھ گچھ ضرور کی جائے ۔ اُمید ہے کہ جس طرح دہشت گرد وں نے آٹھ منٹ میں شکست تسلیم کرلی تھی بالکل ویسے ہی دہشت گردوں کے یہ سہولت کاربھی آٹھ منٹ میں اپنے سارے آقاؤں کے نام اور اُن کے منصوبے ایک ایک کر کے بیان کردیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار وجود منگل 19 مارچ 2024
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار

نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر وجود منگل 19 مارچ 2024
نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر

اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل وجود منگل 19 مارچ 2024
اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل

اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر وجود پیر 18 مارچ 2024
اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

نازک موڑ پر خط وجود پیر 18 مارچ 2024
نازک موڑ پر خط

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر