وجود

... loading ...

وجود
وجود

افغانستان، امن معاہدہ اور گماشتے

منگل 19 مئی 2020 افغانستان، امن معاہدہ اور گماشتے

منگل بارہ مئی2020کوکابل کے’’دشت برچی‘‘ علاقے میں ایک ہسپتال میں داعش کے مسلح دہشتگردوں کا گھْسنا، خون کی ہولی کھیلنا اور افغانستان کے صوبہ ننگرہار کے ضلع شیوہ میں ایک جنازے میں خودکش حملے کے بعد امریکی اور بھارتی کاسہ لیسوں نے داعش گروہ کی بجائے ان حملوں کے لیے طالبان کی تحریک کو مورد الزام ٹھہرانے کا منظم ابلاغی پروپیگنڈہ شروع کردیا۔ حالانکہ ان کے خالق،مربی و کفیل امریکا نے متعدد بار کہا کہ یہ حملے داعش نے کیے۔جبکہ خود طالبان نے دنیا سے ان واقعات کی غیر جانبدارانہ اور وسیع تر تناظر میں تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے بلاشبہ دنیا کے سامنے اس ہولناکی کی حقیقت عیاں ہے۔ مابعد کابل انتظامیہ کے صدر اشرف غنی نے افغان عوام کی ہمدردیاں بٹورنے اور اپنی نام نہاد حب الوطنی باور کرانے کے لیے طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کی پَخ چھوڑ دی۔حالانکہ افغان اور دنیا کے منصف اقوام و عوام پر یہ امر پوری طرح مترشح ہے کہ امریکا نے 08اکتوبر 2001ء سے افغانستان پر فوجی تسلط قائم کر رکھا ہے۔ اور کرائے کے ٹٹوؤں پر مشتمل فوج تشکیل دے کر ملک کی آزادی اور خود مختاری کی جدوجہد کرنے والوں کے آگے کھڑی کردی۔ یہ جنگ تو انیس سالوں سے افغان عوام پر مسلط کی گئی ہے۔ نیٹو، امریکی اور کرائے کی افغان فوج اور دوسری فورسز نے کونسا ظلم اور سفاکیت ہے جو اس عرصہ افغان عوام پر نہیں ڈھایا ہے؟۔ ان سالوں میں افغان عوام فضائی، ڈرون اور دوسری عسکری مہم جوئیوں کا نشانہ بنتے آرہے ہیں۔آبادیاں مسمار کی گئیں۔ بموں کی ماں جیسے بم کا تجربہ اس درماندہ ملک پر کیا گیا۔یہاں تک ہزاروں افغان عوام خواتین اور بچے شہید ہوچکے ہیں۔ 29فروری2020ئ کو قطر کے دار الحکومت دوحہ میں مذاکرات کے بعد گویا امریکا دنیا کے آگے تسلیم کرچکا ہے کہ ان کی حیثیت افغانستان میں جارح اور قابض کی ہے۔ اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے قطر کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر سے آدھے گھنٹے کی ٹیلیفونک گفتگو میں بھی تسلیم کیا کہ طالبان اپنے ملک اور قوم کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ مگر اشرف غنی جیسے چیلے اور وہ جو بزعم خود افغانستان کی دانش اور رہنمائی کے منصبوں پر بیٹھے ہیں،بڑی بے شرمی کے ساتھ آزادی اور حریت کی اس جنگ کو دہشتگردی سے تعبیر کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ قابض افواج نے فوجی انخلاء کا وقت دے رکھا ہے اور تسلیم کیا کہ پانچ ہزار طالبان قیدی دس مارچ تک رہا کردیئے جائیں گے۔جس کے فوراً بعدبین الافغان مذاکرات شروع ہوں گے۔ اور رفتہ رفتہ امن عمل اپنے منطقی نتیجے تک پہنچ جائے گا۔ دس مارچ کی تاریخ کب کی گزرچکی ہے اورآقا کی رضا کے برعکس کابل انتظامیہ اس راہ میں روڑے اٹکارہی ہے۔ لیت و لعل کی سیاست پر گامزن ہے حالانکہ طالبان اپنے پانچ ہزار وابستگان کی فہرستیں جملہ کوائف سمیت حوالے کرچکے ہیں۔ اس دوران کابل انتظامیہ بعض ایسے قیدی بھی رہا کرچکی ہے جنہیں طالبان نے اپنا ماننے سے انکار کیا ہے۔افغان طالبان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ کابل قیدیوں کی رہائی کی آڑ میں ان افراد کو چھوڑ چکا ہے جن کی وابستگی داعش گروہ سے ہے۔ گویا امروز افغانستان کے اندر امن اور بین الافغان مذاکرات میں تعطل کی وجہ کابل انتظامیہ کی ہٹ دھرمی اور اقتدار سے چمٹے رہنے کی ہوس ہے۔ اشرف غنی کے طالبان کے خلاف بھر پور حملے کی پَخ چھوڑے جانے کو افغانستان کی بعض سیاسی شخصیات نے بھی غیر سنجیدہ عمل کہاہے۔ اشرف غنی اتنے جری ہیں تو وہ کابل انتظامیہ کے دوسرے صدر عبداللہ عبداللہ سے نمٹتے جو الگ صدارت کی کرسی پر براجمان ہیں اور انہیں قانون کی گرفت میں لاتے۔
شنید میں ہے کہ دونوں صدور کے درمیان شراکت اقتدار پر اتفاق رائے عنقریب ہونے والا ہے۔ جس میں عبداللہ عبداللہ اچھا خاصا اور مو ثر حصہ بٹورنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ کسی خیر خواہ نے پوچھا کہ کابل میں ہسپتال پر حملہ کس کی کارروائی ہے؟ میں نے بتایا کہ یہ انہیں میں سے ہیں جنہوں نے افغانستان کے ساتھ پاکستان کے چپہ چپہ اور قریہ قریہ میں بم دھماکے کیے ہیں۔ پاکستان کے عسکری مراکز، پولیس دفاترو سینٹرز، سیاسی اجتماعات، سیاسی کارکن و رہنمائ ، مساجد و امام بارگاہوں، خانقاہوں، درگاہوں،گرجا گروں،، ہسپتالوں، عدالتوں اور ہر شخص اور طبقے کو نشانہ بنایا ہے۔ اور یہی لوگ افغانستان میں کابل انتظامیہ کی این ڈی ایس اور بھارت کے جاسوسی ادارے کے فنڈ پر وجود قائم کیے ہوئے ہیں۔ ان جاسوسی مراکز میں یہ منصوبہ بندیاں کرتے ہیں انہیں سبوتاڑ اور مردم کشی کا ٹاسک دیا جاتا ہے۔ اس شراکت کے نتیجے میں کوئٹہ میں افغان طالبان تحریک کے امیر مولوی ہبتہ اللہ اخوندزادہ کے بھائی مولوی حمد اللہ کو جمعہ کی نماز کے دوران بم دھماکا کرکے قتل کردیا۔ اور یہ گروہ کئی مختلف نوعیت کی سفاک کارروائیاں کرچکا ہے۔مقصد را اور اْس کی رکھیل این ڈی ایس کا افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا ء کا مطالبہ کرنے والی تحریک کو سبوتاڑ کرناہے۔ اس کام کے لیے صحافیوں، ادیبوں اور دانشور وں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ جو قابض افواج اور بھارتی اثر و نفوذ اور غلبہ کی خدمت اور جَنبہ داری پر مامور ہیں۔ غیر ملکیوں اور کابل انتطامیہ کی شان میں قصیدہ گوئی کرتے ہیں،کتابیں لکھوائی جاتی ہیں۔ مختلف نام سے سیاسی تنظیمیں بنائی گئی ہیں جو افغانوں کی مزاحمت کو عوام میں مشتبہ بنانے کے مکروہ پروپیگنڈے کررہی ہیں۔
فی الواقعی اس سارے بندوبست کو بھارتی جاسوسی ادارے کے فنڈز میسر ہیں۔ ان کے ذریعے اخبارات، ٹی وی چینلز اسی طرح سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر منفی ابلاغ کیا جاتا ہے۔جو بادی النظر میں داعش وغیرہ جیسے گروہ کی حمایت اور کمک ہے۔ طالبان افغانستان میں داعش کے ٹھکانے ختم کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ مگر انہیں کابل انتظامیہ، ان کے جاسوسی کے ادارے این ڈی ایس اور را کی پناہ حاصل ہے۔ داعش کا افغانستان میں اب کہیں بھی مضبوط گڑھ نہیں رہا ہے۔ حیف کہ داعش کے کارندوں کو کابل میں ’’انٹیلی جنس سروس گیسٹ ہاؤس‘ جیسے مقامات میں محفوظ رکھا گیا ہے۔ مثال کے طور پر گزشتہ ماہ اپریل کے وسط میں داعش خراسان کے سربراہ عبداللہ اورکزئی عرف اسلم فاروقی نے خود کو افغان فورسز کے حوالے کیا اور کابل حکومت نے بڑی بے شرمی سے دعویٰ کیا کہ اس کمانڈر کو آپریشن کے دوران ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ حالانکہ وہ خود ان کے پاس گیا ہے کیونکہ طالبان ان کے تعاقب میں تھے۔ جنہوں نے افغانستان کے علاقوں زابل، جوزجان، ننگرہار، کنڑ اور دوسرے مقامات میں داعش کی بیخ کنی کی ہے۔ چناں چہ کنڑ کے علاقے میں عبداللہ اورکزئی طالبان کے ہاتھوں شکست کے بعد کابل انتظامیہ کی پناہ میں چلے گئے۔ اسلم فاروقی نے طالبان سے معاف کرنے کی درخواست بھی کی تھی۔ مگر طالبان نے اس ظالم اور سفاک شخص کی معافی قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس طرح صوبہ جوزجان کے ضلع ’’دزراب‘‘میں داعش کے خلاف طالبان نے آپریشن کیا۔ ان کے چند لوگ حراست میں لے لیے۔ داعش کے سرکردہ کمانڈروں نے کابل انتظامیہ سے فوراً رابطہ کیا جنہوں نے ہیلی کاپٹر بھیج کر ان کمانڈروں کو طالبان کے ہاتھ لگنے سے محفوظ کرلیا۔ ننگر ہار میں داعش پر حملہ کیا تو ایک مرتبہ پھر کٹھ پتلی فورسز داعش کی مدد کو پہنچ گئیں۔ بات یہ ہے کہ دراصل اشرف غنی اور دوسرے گماشتے امن مذاکرات کامیاب ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے۔ ان گماشتوں نے انیس بیس سالوں میں زبان پر ایک بار بھی افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کی بات ادا نہیں کی۔ ان گماشتوں اور حواریوں نے افغانستان کی آزادی اور خود مختاری کے لیے جدوجہد کرنے والے افغان حریت پسندوں کے لیے مسائل ہی کھڑے کیے ہیں۔ بھارتی جاسوسی ادارے را کی رکھیل این ڈی ایس نے کابل سے لے کر پاکستان کے شہر کوئٹہ اور پشاور تک گماشتے پال رکھے ہیں۔ یقینا آنے والے دنوں میں ان سامراجی اور بھارتی گماشتوں کا ضرور احتساب و محاسبہ ہوگا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر