وجود

... loading ...

وجود
وجود

عالمگیر وبا کے بعد عالمی جنگ ضروری ہے؟

پیر 11 مئی 2020 عالمگیر وبا کے بعد عالمی جنگ ضروری ہے؟

جس رفتار سے دنیا میں کورونا وائرس کے سیاہ بادل آہستہ آہستہ چھٹتے جارہے،اُس سے دوگنی رفتار سے دنیا کے اُفق پر عالمی جنگ کے امکانات روشن ہوتے جارہے ہیں۔خدشہ ہے کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے فوراً بعد ہی دنیا کے کئی ممالک چوتھی عالمی جنگ میں مصرو ف ہوجائیں گے اور لگتا یہ ہے کہ یہ عالمی جنگ کورونا وائرس کے نام پر لڑی جائے گی۔ جس کا آغاز امریکا کی مختلف ریاستوں کی عدالتوں میں چین کے خلاف مقدمات دائر کرنے سے شروع بھی ہوگیا ہے۔ امریکا کی جانب سے با ربار اس بات کا اس الزام کا اعادہ کیا جارہے کہ چین نے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے معاملے میں جان بوجھ کر لا پرواہی اور غفلت سے کام لیا، جس سے عالمی معیشت خاص طور پر امریکا کو بڑے معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑاہے۔واضح رہے کہ چین کے خلاف تازہ ترین مقدمے کا اعلان ریاست میزوری کے اٹارنی جنرل نے یہ الزام لگاتے ہوئے کیا کہ چینی عہدیدار کورونا وائرس کی اس وبا کے ذمہ دار ہیں، جس سے دنیا بھر میں لاکھوں افراد متاثر ہوئے۔ اس سے کروڑوں لوگ بے روزگار ہوئے اور اپنی معیشت سمیت دنیا کے دوسرے ملکوں کی معیشتوں کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔یاد رہے کہ چین کے خلاف کورونا وائرس سے متعلق سرکاری طور سے ریاستی سطح پر ہونے والا یہ پہلا مقدمہ ہے۔ وگرنہ اِس سے پہلے چین اور امریکا کے درمیان کشیدہ سیاسی معاملات کورونا وائرس پر صرف لفظی گولہ باری تک ہی محدود تھے۔
دوسری جانب چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے اپنا سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی ریاست کی جانب سے چین کے خلاف دائر ہونے والا یہ مقدمہ بدنیتی پر مبنی ہے، جس کی کوئی حقیقی یا قانونی بنیاد نہیں ہے۔صرف چینی وزارتِ خارجہ ہی نہیں بلکہ دنیا کے بیشتر قانونی ماہرین کا بھی یہی خیال ہے کہ اس قسم کے مقدمات اکثر سیاسی مقاصد یا تشہیر کے حصول کے لیے ہوتے ہیں کیونکہ خود مختار ملکوں کو دوسرے ملکوں کی عدالتوں میں لائے جانے سے عمومی طور پر استثنٰی حاصل ہوتا ہے۔جبکہ امریکا کے فارن سوورن ایمیونیٹیز ایکٹ میں بھی اس لا سوٹ کا تذکرہ موجود ہے۔ جس کے تحت اس بات پر حدود عائد ہوتی ہیں کہ آیا ایک دوسرے خود مختار ملک پر امریکا کی وفاقی یا ریاستی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کا بھی یہاں اطلاق نہیں ہو سکتا، کیونکہ جب تک ملکوں کے درمیان کوئی ایسا معاہدہ نہ ہو جس کے تحت کسی ملک کو دوسرے ملک کی عدالتوں میں طلب کیا جاسکے یہ معاہدہ غیر موثر ہوتا ہے۔مگر تشویش کی بات یہ ہے کہ چین کے خلاف دائر ہونے والے اِس مقدمہ کو فقط ایک امریکی ریاست کے اٹارنی جنرل کی جانب سے فقط سستی شہرت حاصل کرنے کی خواہش اِس لیئے نہیں قرار دیا جاسکتا کہ امریکا نمائندگان کی جانب سے کانگریس میں باقاعدہ ایک ترمیمی بل لانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کے تحت جراثیمی ہتھیاروں سے متعلق مقدمات پر امریکی قانون میں دیئے گئے خصوصی استثنٰی کو ختم کیا جاسکے۔اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا کورونا وائرس پھیلانے کی ذمہ داری چین کے کھاتے میں ڈالنے کے لیئے کسی بھی حد تک جاسکتاہے۔
صرف یہ ہی نہیں بلکہ بعض اعلیٰ امریکی اہلکاروں کی جانب کورونا وائرس کے معاملہ پر بین الاقوامی عدالت انصاف سمیت اقوام ِ متحدہ سے رجوع کرنے کی بھی اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ یہ بالکل ویسا ہی اقدام اُٹھانے کی راہ تلاش کی جارہی ہے جیسا یک طرفہ اقدام نائن الیون کے بعد عراق پر حملہ آور ہونے کے لیئے اُٹھایا گیا تھا۔ اس سلسلے میں چین کی ایک انٹیلی جنس رپورٹ میں عالمی سطح پرصورت حال کی ایک تاریک تصویر پیش کی ہے۔ جس کے مطابق کورونا وائرس اب تک دنیا بھر میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ افراد کی جان لے چکا ہے۔ ان میں 85فیصد کے قریب اموات امریکا اور یورپ میں ہوئی ہیں۔ چینی ذمے داران کو پیش کی گئی مذکورہ انٹیلی جنس رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے کورونا وائرس کے معاملہ پر چین کو عالمی سطح میں معاندانہ صورت حال کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اسی طرح جیسا کہ 1989 میں ٹیانمین اسکوائر پر مظاہروں کے دوران ہوا تھا۔اس رپورٹ کو China Institutes of Contemporary International Relations نے تیار کیا ہے۔ یہ ریاستی سلامتی کی وزارت کے زیر انتظام ایک تحقیقی ادارہ (تھنک ٹینک) ہے۔ رپورٹ کے دیگر مندرجات کے مطابق حالیہ بڑھتی ہوئی معاندانہ لہر چین کو کسی بھی وقت امریکا کے مقابلے پر لا کر کھڑا کر سکتی ہے۔جس کے لیئے چین کو بروقت تیاری کرلینی چاہیے۔
اِس رپورٹ کو تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے کے عین بیچ نئی عالمی جنگ کا ایک سنجیدہ اشارہ قرار دیا جاسکتا ہے۔یعنی بیجنگ اور واشنگٹن کے مابین جاری لفظی و قانونی جنگ، کسی بھی وقت براہ راست فوجی جنگ میں بدل سکتی ہے۔اگر دنیا کی دو بڑی طاقتوں اور اُس کے اتحادیوں کے درمیان یہ عالمی جنگ شروع ہوجاتی ہے تو دنیا کے لیئے بڑی ہی بدقسمتی کی بات ہوگی کیونکہ اِس کا سادہ سا مطلب تو یہ ہوا کہ کورونا وائرس کی عالمگیر وبا سے بھی بین الاقوامی طاقتوں نے کوئی خاص سبق حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی ہے اور کورونا وائرس کا شکار ہونے والے لاکھوں افراد کی لاشیں اُٹھانے کے بعد بھی عالمی جنگ کی خواہش عالمی رہنماؤں کے دل میں بدستور موجود ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ دنیا کو اپنے قیمتی اور مہلک ہتھیاروں سے تباہ کرنے کی حضرت انسان کی دیرینہ خواہش کب پایہ تکمیل تک پہنچتی ہے۔ گزشتہ دو،تین ماہ سے بس کورونا! کو تو یوں ہی فضول میں بدنام کیا گیا،وگرنہ اِس دنیا کے لیئے سب سے زیادہ خطرناک وائرس تو عالمی بالادستی کے خواب دیکھنے والے عالمی رہنما ہیں، جو اپنے خواب کی تعبیر پانے کے لیئے پورے کرہ ارض کو خاکستر بنانے کے لیئے اپنی تیاری مکمل کیئے بیٹھے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر