وجود

... loading ...

وجود
وجود

وائرس کہاں ہے؟

جمعرات 30 اپریل 2020 وائرس کہاں ہے؟

کورونا وائرس نے بنیادی طور پر سائنس پر انسانی ایمان کا امتحان لیا ہے۔ اس ظنی و قیاسی علم کے حوالے سے معمل گاہوں کی تصدیق کے تمام علمی دعووں کے شکوہ کو بھی مرجھا کر رکھ دیا ہے۔ کورونا وائرس کے حوالے سے جتنے بھی دعوے تھے سب خود سائنسدانوں کی آرا ء میں متضاد ثابت ہوتے رہے۔ ایک کی رائے دوسرے سے چیلنج ہوتی رہی۔ وہ علم جو تجربے کی تائید سے بروئے کار آتا ہوں، جس پر معمل گاہوں کی تصدیق کا دعویٰ سجا ہو، جس پر مشاہدے کی گوٹا کناری ہو، جو حواس خمسہ کے احاطے میں اپنا حُسن نکھارتا ہو، اس میں مختلف آراء کی تقسیم بھی کراہیت کے ساتھ گوارا کی جاسکتی ہے، مگر متضاد آرا ء کی گنجائش کیسے نکالی جاسکتی ہے؟کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ تجربہ بھی دھوکا دیتا ہے، معمل گاہیں بھی حتمی نہیں۔ مشاہدے فریب خوردہ ہوتے ہیں۔ حواسِ خمسہ چُوک کھاتے ہیں۔ پھر، پھر اس سائنس کا کیا کریں؟ عبدالحمید عدم کا پیرایہ اپنا رہا ہوگا، مگر یہاں اس کا لطف کیوں جانے دیں:

آگہی میں اک خلا موجود ہے
اس کا مطلب ہے خدا موجود ہے
ہے یقیناً کچھ مگر واضح نہیں
آپ کی آنکھوں میں کیا موجود ہے
ہر جگہ ہر شہر ہر اقلیم میں
دھوم ہے اس کی جو ناموجود ہے

ابھی یہ بھی دیکھنا باقی ہے کہ بدلتے دعوؤں میں کھڑا کورونا وائرس کا اونٹ مستقبل میں کون سی کروٹ لیتا ہے۔مغرب ممالک کے سنجیدہ وفہمیدہ سائنسی محققین ہی اب یہ کہنے لگے ہیں کہ ممکن ہے پورا کورونا وائرس ایک”ہاؤس آف کارڈ“ ثابت ہو۔ذرا ایک نظر ڈال لیں، ہمارے ساتھ کیا ہوتا رہا؟
٭ کورونا وائرس کے حوالے سے جو اعداد وشمار پیش کیے گئے وہ سب غلط ثابت ہوتے رہے، ہلاکتوں کے تناسب اور اموات کی شمار بندی میں بے ضابطگیاں ثابت ہوتی رہیں۔
٭لاک ڈاؤن کا اقدام مشکوک طور پر منوایا جاتا رہا۔ اس کا وائرس سے رشتہ اور پھیلاؤ کی توجیہات خود سائنس مسترد کرتی رہی۔
٭سائنس نے کورونا وائرس کے حوالے سے جو مختلف احتیاطی نصاب پڑھائے، وہ بھی مختلف رہے، اور تبدیل ہوتے رہے۔ اسی نصاب میں سے ایک نکتہ سماجی فاصلے کا تھا، کبھی تین فٹ، کبھی چھ فٹ، کبھی نوفٹ اور کبھی بارہ فٹ کے فاصلے کو ضروری بتایا جاتا رہا۔جہاں اختلاط موجود تھا، وہاں بھی ٹرانسمیشن کی شرحیں الگ الگ تھیں، ان الگ الگ فاصلاتی موقف سے ہمارے صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی اتنے متاثر ہوئے کہ وہ انچی ٹیپ لے کر مساجد میں کھڑے ہوگئے اور فٹوں اور انچوں میں فاصلے ناپتے رہے۔ فراغت میں ایسی مصروفیت دنیا کے کسی ملک کے کسی صدر کے حصے میں نہ آئی ہوگی۔
٭یہ ماہرینِ وبائیات اور محققین ہی تھے جو کووڈ۔19 کے مہلک اور غیر مہلک ہونے پر بھی تقسیم رہے۔ کسی نے کہا کہ یہ انتہائی مہلک ہے، جبکہ ایسے بے شمار سائنس دان بھی تھے جو اِسے غیر مہلک مانتے تھے۔
آغاز سے ہی تشنہ جواب سوال تاحال تشنہ ہی ہیں۔ہمیں ابھی تک سائنس قطعی طور پر یہ بتانے میں ناکام ہے کہ کووڈ۔19 اور لاک ڈاؤن میں باہم رشتہ کیا ہے؟ (اس پر ایک تفصیلی موقف کچھ سائنسدانوں کا سامنے آیا ہے جو خطرناک طور پریہ ثابت کرتا ہے کہ لاک ڈاؤن الٹا وائرس کے لیے حیات بخش ہے، اسے آئندہ موضوع بنائیں گے)۔ کووڈ۔19 کے ٹیسٹ کتنے قابلِ اعتبار ہیں؟ پھر یہ ٹیسٹ اصل میں کیا تعین کرتے ہیں؟ ابھی سائنس دان حتمی طور پراس نتیجے پر بھی نہیں پہنچے کہ آیا یہ وائرس واقعی بیماری کا سبب بنتا ہے یا نہیں؟
آئیے اس نکتے کے کچھ نئے پہلوؤں کو ٹٹول لیتے ہیں۔دنیا بھر میں مرکزی ذرائع ابلاغ پر جس بیانئے کو مختلف حکومتوں کی سرپرستی میں نمایاں کیا گیا، وہ یہ ہے کہ سارس کوو۔2 کا کورونا وائرس دراصل ایک ایسی بیماری کا سبب بنتا ہے جسے کووڈ۔19 کہاجاتا ہے۔ سائنس دان ابھی تک اس موقف کی اصابت کے پوری طرح قائل نہیں ہوئے۔ وہ اس موقف کو تاحال قطعی نہیں سمجھتے۔ ایک ایسا موقف جسے سائنس نے ابھی تک ہمہ گیر تائید مہیا نہیں کی اس کی بنیاد پر کیا ہورہا ہے؟ جلدی سے دیکھ لیں۔ لاکھوں، کروڑوں افرادکی اموات کے الٹے سیدھے تخمینے لگائے گئے۔پوری دنیا کے اکثر ممالک کو لاک ڈاؤن کی جانب دھکیل دیا گیا جس کے تحت اس سیارے کی تقریبا ایک تہائی آبادی کو مختلف قسم کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ سب ایک غیر معمولی معاشی قتل عام پر منتج ہوا، اس کے لیے معاشی ہولو کاسٹ کا لفظ پوری طرح کافی نہیں۔ شہری آزادیاں ردی کی ٹوکری میں ڈال دی گئی۔ عوام مبتلائے خوف کردیے گئے۔ ہمیں مختلف حیلوں بہانوں سے یہ بتایا اور سمجھایا جانے لگا کہ یہ دنیا کا ایک نیا معمول ہے، دنیا اب کبھی اپنے پرانے معمول کی طرف نہیں پلٹ سکے گی، وائرس سب کا پیچھا کرتا رہے گا اور ابھی کچھ بھی نہیں ہوا،بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ ذرا اس بیانئے پر غور کیجیے، سمجھ نہیں آرہا ہے کہ یہ ہمیں سمجھا رہے ہیں یا گلی کے لچوں لفنگوں اور غنڈوں کی طرح دھمکا رہے ہیں۔ اس دوران میں ہمیں اس مسئلے کے حل کی ہلکی ہلکی ڈھولکی سنائی جانے لگی۔ نجات، کسی نجات دہندہ کی آمد میں نہیں، بلکہ مکمل نگرانی کے ایک نظام کو قبول کرنے میں ہے۔ بائیو میٹرک پاسپورٹ کو ایک چِپ کی صورت میں قبول کیجیے۔ مشکوک ویکسین (جس پر بہت سے سوالات ہیں)جو ابھی تک سامنے نہیں لائی گئی، اس کی ایک یا دو خوراکیں ہی دنیا کی کل آبادی کو بلا چوں و چراں لینی پڑے گی۔ اُن ہزاروں کھربوں ڈالرز کے معاشی نقصان کی پیمائش ہندسوں میں ہو جائے گی مگر جو نقصان شرفِ انسانی کوکھونے کی صورت میں ہوگا، اس کی پیمائش اور تخمینہ دونوں ہی ناممکن ہے۔ کیا اس ہمہ گیر نقصان کی بدترین سطح پر رہتے ہوئے یہ سوال جائز نہیں کہ سب سے پہلے اس کا تعین تو کرلیجیے کہ کیا یہی وہ وائرس ہے جو حالیہ وبا (اگر اسے وبا کہنا درست بھی ہو)کا سبب ہے؟ اور خدا کے لیے ہمیں صحافتی پیرایے یا سیاسی بیانئے سے نہ بہلائیے، ٹھوس ٹھوس، ٹھیک ٹھیک سائنسی وجوہات دیجیے!چلیں جی مولوی کی نہیں سائنس کی مانتے ہیں۔
کورونا وائرس کے مکمل بحران اور مجموی بیانئے میں بڑھتی ہوئی آگہی نے بہت سے خلاء ثابت کردیے ہیں۔ سائنس کی ہی بہت سی آوازیں رائج مفروضوں پر سوالات اُٹھا رہی ہیں۔ جان ریپوپورٹ نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں کینیڈا کے ایک سائنسی محقق ڈیود کرو کے مختلف نتائج کے خلاصے کو شامل تحریر کرتے ہوئے یہ نشاندہی کی ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے، وہ سائنس نہیں ہے۔ ہمیں سیدھے ڈیوڈ کرو سے رجوع کرنا چاہئے، جنہوں نے اپنی تازہ تحقیق کو ”Flaws in Coronavirus Pandemic Theory“ کے عنوان سے قلمبند کیا ہے۔ اُنہوں نے اپنی تحقیق میں بنیادی سوال ہی یہ اُٹھایا ہے کہ ”کیا محققین نے واقعتا اُس وائرس کو دریافت کرلیا ہے جس کی بنیاد پر وہ کووڈ۔19 کی بیماری کا دعویٰ کرتے ہیں“؟
سائنسی محقق ڈیوڈ کرو نے نئے ”کورونا وائرس“ کے وجود پر ہی سائنسی سوال اُٹھا دیے ہیں۔ وہ اس حوالے سے کچھ انتہائی اہم تفصیلات دیتے ہیں۔ جو اس پورے مجموعی بیانئے اور کورونا وبا کے مرکزی دعووں کو بھَک سے اڑا دیتی ہیں۔ان کی تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دھوکے کے جس ماحول کو سائنس کے جس غلاف میں دکھایا جارہا ہے، وہ کہیں پر موجود ہی نہیں۔ اس دلچسپ نکتے پر بحث آئندہ کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔مگر یہ نکتہ بآلفاظِ دیگر ہمیں جون ایلیا سے لذت آشنا کرتا ہے، وہ بھی تو یہی کہہ گئے تھے:

وہ جو تعمیر ہونے والی تھی
لگ گئی آگ اس عمارت میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر