وجود

... loading ...

وجود
وجود

لائق تحسین و قابل تقلید

بدھ 29 اپریل 2020 لائق تحسین و قابل تقلید

برادر ِ محترم ڈاکٹر لال محمد کاکڑ صاحب آرتھوپیڈک سرجن ہیں۔ اپنے شعبے میں کیا صوبہ اور ملک بھر میں پہچانے جاتے ہیں۔ کل وقتی پیشہ طب سے جڑے رہے ہیں۔ کوئٹہ کے سول ہسپتال میں 08اگست 2016کو وکلاء پرہونے والے خود کش حملے کے بعد ڈاکٹر لال محمد کاکڑ سماجی و علمی سرگرمیوں میں فعال ہوئے۔ اس سانحے میں ساٹھ وکیل شہید ہوئے اور ایک بڑی تعداد وکیلوں کی زخموں سے چُورہو گئی ۔ بڑے نامور، ماہر و زیرک اور نوجوان وکیل پیوند خاک ہو گئے۔ معروف قانون دان و متحرک وکیل رہنما باز محمد کاکڑ ایڈوکیٹ بھی شہداء میں شامل ہیں۔ باز محمد کاکڑ شہید ڈاکٹر لال محمد کاکڑ کے چھوٹے بھائی تھے۔ چناں چہ اس روح فرسا اور ناقابل فراموش سا نحہ کے بعد ڈاکٹر لال محمد کاکڑ نے باز محمد کاکڑ ایڈوکیٹ کے نام سے فاؤنڈیشن قائم کر لی۔اسطرح علمی،رفاعی اور سماجی طور پر بھی بیدار ہوئے۔ مختلف موضوعات و عنوانات کے تحت جا معات اور دیگر تعلیمی اداروں میں سیمینار منعقد کروائے، کتب میلے سجائے۔ یوں وکیل شہدا کی یاد میں ”شہداء آٹھ اگست پبلک لائبریری“ قائم کرنے میں بھی کامیاب ہوئے۔ یہ لائبریری شہید باز محمد ایڈوکیٹ فاؤنڈیشن کے تحت قائم ہے۔گزشتہ دنوں ڈاکٹر لال محمد صاحب نے آن لائن مذاکرے میں شرکت اور بولنے کی دعوت دی۔ جس کا اہتمام شہداء آٹھ اگست لائبریری میں کیا گیا تھا۔ موضوع کلام”آن لائن تعلیم اور لائبریری“تھی۔ مکرمی عبدالصبور کاکڑصاحب (سیکرٹری ماحولیات بلوچستان) بھی مدعو تھے۔ڈاکٹر لال محمد کاکڑ خود بھی شریک گفتگو تھے۔ طالبات وطلباء موجود تھے۔طویل گفتگو ہوئی،آن لائن سوالات بھی پوچھے گئے۔
یہاں مجھے خوشگوار حیرت یہ بھی ہوئی کہ امروزڈاکٹر لال محمد نے ڈیجیٹل لا ئبریری کا آغاز بھی کر دیا۔ فی الوقت ڈیجیٹل لائبریری میں دس کمپیوٹرز کی سہولت میسر ہے۔لائبریری حسب استطاعت معیار پر قائم ہے۔ طالبات کے لیے الگ کمرہ مختص ہے۔ جہاں ایک وقت میں بیس طالبات کے بیٹھنے، کتب بینی،امتحانات کی تیاری اور ریسرچ ورک کی سہولت موجود ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی ہمت ہے کہ وہ تنہا اس قدر بھاری ذمے مہ داری نبھارہے ہیں۔ اگرچہ چند قطب لائبریری کو ہد یہ بھی ہوئی ہیں۔مگر ضرورت مزید کتابوں کی ہے، اخراجات بھی زیادہ ہیں یعنی عمارت کا کرایہ، یوٹیلٹی بلز اور دوسرے لوازمات کی مد میں کوئی تین لاکھ روپے ماہانہ اخراجات ہیں۔ یقینا فی الوقت یہ سارا بوجھ ڈاکٹر لال محمد کے شانوں پر ہی ہے۔ مجھے مسرت ہوئی کہ وبا کے ان کٹھن ایام میں طلباء و طالبات کا لائبریری آنا جانا رہا۔ میرے ذہن میں میکانگی روڈ کی صادق شہید پبلک لائبریری و کلب، کاسی روڈ کی پبلک لائبریری و کلب کی یاد تازہ ہوگئی۔ جہاں محدود پیمانے پر ورزش اور کھیل کا سامان بھی ہوا کرتا تھا۔ علاقے کے نوجوان باقاعدگی سے جاتے۔ جنہیں مثبت سرگرمیوں کا کسی حد تک ماحول میسر تھا۔یہ لائبریریاں و کلب اب ماضی کا قصہ بن چکے ہیں۔ چناں چہ افلاس و ندارد کے اس دور میں اگر ڈاکٹر لال محمد کاکڑ جیسے تعلیم و کتاب دوست اور نوجوان نسل کے خیر خواہ شہری معاشرے کے بناؤ و سنوارنے میں مال و وقت کے ساتھ جہد و مسا عی میں لگے ہیں، تو کیا معاشرے کے اُن صاحب حیثیت افراد اور بڑے بڑے تاجر حضرات کا فرض نہیں بنتا کہ وہ ا سطرح کے علمی و تعلیمی گہوارے کو اپنے تعاون سے مہمیز دیں۔ وکلاء اور ان کی تنظیموں کی جانب سے اس میموریل لائیبریری کو بڑی حد تک سہارا مل سکتا ہے۔ سرِدست سرکار کی توجہ و عنایت کی ضرورت ہے۔ تاکہ شہداء آٹھ اگست لائبریری جو کہ اب ڈیجیٹلائز ہو چکی ہے خود کار ہو سکے۔بلا شبہ اس کے اثرات بڑے دورس ثابت ہوں گے۔
گورنر بلوچستان اما ن اللہ خان یاسین زئی وکیلوں کے خاندان سے ہیں۔وہ اگر چاہیں تو اس لائبر یری کے لیے قطعہ ارضی مختص کر سکتے ہیں، بلکہ عمارت کی تعمیر کے لیے فنڈ کا اجرا بھی کارِ گراں نہیں ہے۔ ڈاکٹر لال محمد کاکڑ کی یہ پیشرفت تحسین و ستائش کے لائق ہے۔ یقینا اِن کا یہ قدم قابل تقلید ہے۔ یہاں ذکر نوابزدہ حاجی لشکری رئیسانی کا بھی کرتے ہیں۔جن کی قبائلی و سیاسی معمولات ودلچسپیاں اپنی جگہ، ساتھ ہمہ وقت کسی نہ کسی سماجی و معاشرتی و علمی سرگرمی میں بھی مشغول و مصروف رہتے ہیں۔ نوابزدہ حاجی لشکری رئیسانی،صاحب مطالعہ،کتاب بین و کتاب دوست انسان ہیں۔ذاتی ذخیرہِ کتب جامعات، درس گاہوں اور لائبریریوں کو ہدیہ کر چکے ہیں۔ اب ان کامعمول کتابوں کا مطالعہ بعد ازاں لا ئبریوں کو ہدیہ کر نا ہے۔ ان کٹھن ایام میں نوابزادہ کو تھیلیسیما کے مریض بچوں کی فکر دامن گیر ہے۔ ان مریض بچوں کو خون خود بھی عطیہ کر چکے ہیں۔بلوچستان پیس فورم کے تحت ان کے صاحبزادے،، بھتیجوں اور دوسرے احباب و خیر خواہوں نے بھی خون عطیہ کیا ہے۔ یہ کارِ خیر تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ گویا عوام کو اس اہم پہلو پر متوجہ کرنے اور آگے بڑھنے کی شہ و ترغیب د ینے کی سعی میں لگے ہیں۔ یعنی یہ کہ عوام مشکل کی اس گھڑی میں تھیلیسیمیا کے عارضہ میں مبتلا بچوں کو فراموش نہ کریں۔ کہ انہیں ہر ممکن راہ سے خون کے عطیات پہنچا تے رہیں۔ رب کریم ڈاکٹر لال محمد کاکڑ اور نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی کو جزائے خیر دے۔ یقینا مجھ سمیت شہر کے ہر با سی کو خیر اور رفاہ عامہ کے کاموں میں حصہ لینا چاہیے کہ اس لمحہ اس کی ضرورت بڑھ کرہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟ وجود پیر 13 مئی 2024
فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟

بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف وجود پیر 13 مئی 2024
بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف

واحدسپرپاورکاگھمنڈ وجود پیر 13 مئی 2024
واحدسپرپاورکاگھمنڈ

سب '' بیچ'' دے۔۔۔۔ وجود اتوار 12 مئی 2024
سب '' بیچ'' دے۔۔۔۔

سینئر بزدار یا مریم نواز ؟ وجود اتوار 12 مئی 2024
سینئر بزدار یا مریم نواز ؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر