وجود

... loading ...

وجود
وجود

چور دی ماں

هفته 18 اپریل 2020 چور دی ماں

دیہاتی نے جانور ذبح کیا خون کے چھینٹے اس کے لباس پر پڑے وہ اسی لباس میں اپنے گھر آیا تو بیوی نے خون آلود لباس دیکھ کر استفسار کیا۔ دیہاتی نے ایک لمحے کے لیے سوچا اس کے دماغ میں سکیم آئی کہ بیوی سے جھوٹ بولتا ہوں میں بھی دیکھوں وہ اس بات کو کہاں تک چھپاتی اور راز رکھتی ہے۔ اس نے کہا کہ اللہ کی بندی مجھ سے کوئی شخص قتل ہوگیا ہے اور یہ اس کے خون کے چھینٹے ہیں۔ بیوی یہ سن کر گھبرا گئی خاوند نے اس سے وعدہ لیا کہ وہ اس بات کو ہمیشہ کے لیے راز رکھے گئی اگر ایسا نہ کیا تو میں پھانسی چڑھ جاؤں گا۔ بیوی نے وعدہ کرلیا خاوند نے اپنے کپڑے تبدیل کیے اور کسی کام سے گھر سے نکل گیا۔ بیوی نے تھوڑی دیر تو اس بات کو راز رکھنے کی کوشش کی لیکن یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ وہ اس پر عمل بھی کرگزرتی۔ اس کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگے آخرکار اپنی سب سے قریبی سہیلی کو اس وعدے کے ساتھ سارا وقوعہ بیان کردیا اور اس سے یہ وعدہ بھی لیا کہ وہ اسے “راز” ہی رکھے گی کچھ ہی دنوں میں بات پورے گاؤں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ بات نکلتے نکلتے مقامی تھانے تک جاپہنچی اور “تھانیدار” نے پولیس نفری کے ساتھ دیہاتی کو قتل کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ جب تھانیدار اس شخص کو لے جانے لگا تو پیچھے اس کی بیوی نے آواز دی کہ واپسی پہ میرے لیے چوڑیاں لیتے آنا۔ بیوی کی یہ “فرمائش? سن کر دیہاتی مسکرا دیا۔ پولیس نے اسے گرفتار کرلیا اور گاڑی میں بٹھاکے ہتھکڑی لگانے لگی تو وہ پھر مسکرادیا۔ پولیس نے اسے قتل کے الزام میں قاضی کے سامنے پیش کیا۔ قاضی نے صفائی کا موقع دیا نہ اس شخص کی بات سنی جس پر قتل کا الزام عائد کیا گیا اور قتل کے الزام میں پھانسی کی سزا سنادی۔ جب اس شخص نے پھانسی کی سزا سنی تو وہ کٹہرے میں کھڑا مسکرادیا۔ قاضی نے اسے مسکراتے دیکھ کر مسکرانے کی وجہ پوچھی۔ تھانیدار نے قاضی سے بات کرنے کی درخواست کی۔ اجازت ملنے پر تھانیدار نے کہا جناب قاضی صاحب یہ بندہ جب گھر سے نکلنے لگا تھا تب مسکرایا تھا اور جب میں نے اسے ہتھکڑی پہنائی یہ تب بھی مسکرایا اب آپ نے سزائے موت سنائی تب بھی مسکرایا۔ تھانیدار کی بات سن کے قاضی نے “ملزم” سے تینوں جگہ مسکرانے کی وجہ پوچھی تو وہ دیہاتی کہنے لگا۔ قاضی صاحب میں نے اپنی بیوی کا امتحان لینے کے لیے کہ وہ کتنا راز رکھ پاتی ہے۔ میں نے جانور کے خون کو انسانی خون کہہ دیا۔ بیوی نے سچ مان کے راز رکھنے کی بجائے پورے گاؤں کو بتادیا۔ جب پولیس مجھے گرفتار کرکے لے جانے لگی تو بیوی نے صورتحال سمجھنے کی بجائے چوڑیوں کی فرمائش کردی۔ میں اس کی “عقلمندی ” پر بھی مسکرادیا۔ تھانیدار صاحب نے بغیر کسی تحقیق یا تفتیش کے مجھے ہتھکڑی لگائی میں تب مسکرایا۔ مجھے آپ کی عدالت میں پیش کیا گیا آپ نے نہ مجھ سے کچھ پوچھا نہ کوئی ثبوت دیکھا اور پھانسی کا حکم سنادیا۔ میں تب بھی مسکرایا کہ میری بیوی۔ گاؤں والوں۔ تھانیدار اور آپ کی “عقل ” ایک برابر ہے۔ یہ کہانی یوں لگتی ہے جیسے پاکستان کے سیاسی۔ انتظامی اور عدالتی نظام کی عکاسی کے لیے گھڑی گئی ہے۔ اس کہانی کا مرکزی کردار عوام ہیں۔ جنہیں جب اور جہاں چاہے “سزا” سنادی جاتی ہے اور وہ صرف “مسکرا” دیتے ہیں۔ وطن عزیز پہ کیا کیا تجربات کیے گئے کہ ماضی میں جھانک کے دیکھیں تو ہر دور پہ “مسکرا”دیں۔ ایسے ایسے عجوبے حکمران مسلط کیے گئے کہ اللہ کی پناہ۔ ان دنوں بھی اس ملک پر “تھانیدار” کے کندھوں پہ بیٹھ کر آنے والا “حکمران “ہے۔ جس کی کل کائنات “یوٹرن ” قرار پائی ہے۔ فیصلہ سازی کا جو فقدان اس دور میں دکھائی دیتا ہے اس نے پاکستان کے پچھلے تمام حکمرانوں کو “فرشتہ” بنادیا ہے۔ دو قدم آگے اور چار قدم پیچھے ہٹنا حکومتی پالیسی قرار دی جاچکی ہے۔ وزیراعظم پاکستان اور کچھ کریں یا نہ کریں ایک کام باقاعدگی سے کرتے ہیں کہ ہر ہفتے اپنے ترجمانوں کا اجلاس بلاکے بریفنگ دیتے ہیں کہ “راز،کیسے رکھنا ہے۔ ان میں سے کئی ترجمان باقاعدہ سرکاری خرچ پر یہ “راز” افشاء کرتے ہیں۔ فیصلہ سازی کا یہ عالم ہے کہ ایک لمحے پہلے کیا ہوا فیصلہ اگلے لمحے الٹ جاتا ہے۔
ہم نے گزشتہ تین ہفتوں میں قومی سطح پہ جن ابہام کی پرورش کی تھی اس کا نتیجہ سامنے آ گیا۔ “لاک ڈاؤن اور کرفیو“کے درمیان فرق کی لاحاصل بحث کے بعد اب“لاک ڈاؤن اور جزوی لاک ڈاؤن“کے درمیان فرق کی نئی بحث کا آغاز کیا ہی گیا تھا کہ علما اور تاجروں نے فورا”تقریباً مکمل بغاوت کا اعلان کر دیا ہے اور خود کو ریاستی نظم و ضبط سے بالاتر قرار دے دیا ہے۔ اب لاک ڈاؤن ہو گا اور نہیں بھی ہو گا۔ اموات ہونگی بھی اور نہیں بھی ہونگی۔ مریض بڑھیں گے بھی اور نہیں بھی بڑھیں گے تاآنکہ کورونا کی موزی وبا ھمارے مستقبل کا فیصلہ کر دے گی۔
ہماری قادر مطلق سے دعا ہونا چاہیے کہ ہماری حماقتوں سے اغماض فرماے اور ہمیں اس مصیبت سے نکالے جس سے نکلنے کے لیے ہمارے پاس علم، عزم اور قیادت کی دولت ہرگز نہیں۔ جب سارے ماہرین بکواس کر رہے تھے کہ شرح سود کم کرو دنیا کی بلند ترین انٹرسٹ ریٹ پاکستان جیسی معیشت کو کھا جائے گی تب کانوں پر جوں تک نہ رینگی اب جب معیشت کورونا وائرس کے رحم و کرم پر ھے اب دوسری بار شرح سود میں کمی کر دی۔ اب حالتِ نزاع میں پیناڈول کا کیا فائدہ؟
اس ٹیم کی ناعاقبت اندیشی لے ڈوبے گی ہمیں!
جب چینی گندم کی ایکسپورٹ کو روکنا تھا۔ نہ روکا۔ بعد میں رپورٹیں پبلک کرنے کا شوہدا پن جب کماد, کپاس, گندم کی زرعی پالیسی بنانا تھی۔
نہ بنائی۔ بعد میں ٹیکسٹائل سیکٹر کو پیکیج دینا بے سود جب IMF کے پاس جانا تھا۔ سب پیٹ رہے تھے۔ نہ گئے۔ معیشت کا بیڑا غرق کر کے IMF پروگرام لے اب کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تاریخ کی بلند ترین سطح پہ
مہنگائی, بیروزگاری, غربت اور کاروباری مایوسی کی انتہا کر دی اب ساری نااہلیاں کورونا پہ ڈال کے پھر سیاسی ریسکیو تلاش کرو گے کیا فائدہ ملا چلتے پاکستان کو پنکچر کر کے ڈرائیور بدلنے کا؟
“عالیجاہ ” آپ بہت عقل مند ہوں گے لیکن عوام اب اتنی بھی بھولی نہیں وہ آپ کے ہر فیصلے پر “مسکرا” دیتی۔ آپ معیشت کی بربادی کو کورونا کے پردے میں لپیٹیں یا پھر سابقہ حکمرانوں کی کرپشن کا چورن بیچیں اب لوگ سیانے ہوگئے ہیں اب ان کا مطالبہ ہے کہ “چور” کی بجائے اس کی “ماں ” کو پکڑنا پڑے گا۔ اب “تھانیدار ” ہو یا “قاضی” اس زمینی حقائق کے مطابق فیصلے کرنے ہوں گے نہیں تو یہ ملک نہیں چل سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر