وجود

... loading ...

وجود
وجود

کورونا وبا، قومی ادارے تیاری کریں

هفته 11 اپریل 2020 کورونا وبا، قومی ادارے تیاری کریں

کوروناوائرس سے جڑے موضوعات اور اس وبائی مرض کے اہداف کا پورا ماجرا ابھی رہتا ہے۔ مگر دامنِ خیال فوری ایک عملی موضوع کی جانب کھینچا جاتا ہے، یہ ایک فوری غور طلب مسئلہ ہے کہ پاکستان کو اب کیا کرنا چاہئے؟ اس سوال پر غور میں ایک لمحہ تاخیر بھی نسلوں اور صدیوں کا بھوگ مانگ سکتی ہے۔

پاکستان کی المل ڈھلمل سیاست اور کمزور سیاسی ارادے نے قومی وجود کو کورونا سے پہلے ہی کورونا لاحق کررکھا ہے۔تبدیلی کی ہر کوشش ماضی کی تحویل میں جاکر پہلے سے زیادہ مکروہ صورت میں ظاہر ہونے لگتی ہے۔ پاک فوج نے کورونا وبا کے ایاّم میں کمزور سیاسی ارادے کے درمیان مستحکم مقام سے عملی ضرورتوں کے ساتھ پیش قدمی دکھائی۔یہ اُن لوگوں کے لیے بھی اُمید کی ایک کرن تھی جو پاک فوج کے سیاسی کردار پر تیوری چڑھاتے دکھائی دیتے ہیں۔ درحقیقت زندگانی عمل سے ہے۔ مگر یہ کافی کیسے ہو سکتا ہے؟ روزمرہ کے مسائل ایک طرف، درحقیقت کورونا وائرس نے ایک اور طرح کے خطرے کی گھنٹی بجائی ہے۔ کوئی مرگلہ کی پہاڑی سے چیخ کر بتائے کہ پاکستان نے جن حالات میں ایٹمی پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا،یہ لمحہ اس سے زیادہ ریاضت کا تقاضا کرتا ہے۔

دنیا مکمل تبدیل ہوچکی۔ عالم کی پیشانی پر ایک نئے نظام کی سرخی اُبھر رہی ہے۔پڑھیے! خدارا اِ سے پڑھیے!!
دنیا کے بدلتے تقاضوں میں جنگ کے حالیہ نظریات بھی برقرار نہ رہ سکیں گے۔ اب ایک اور طرح کی جنگ کی تیاری کے لیے پاک فوج اپنے بہترین دماغوں کو جھونک دے۔ حکومت مکمل مدد کے لیے آگے بڑھے۔ پاکستان کو ایک اعلیٰ درجے کی فوری حیاتیاتی لیبارٹری درکار ہے۔ اور وطنِ عزیز کے گنے چنے وائرولوجسٹ کو نئی جنگ کے فرنٹ پر سپاہیوں کی طرح بروئے کار لانے کا وقت آگیا۔یہ ضرورت تمہید میں ہی بیان کردی گئی۔ مگر اس کا پسِ منظر اچھی طرح تول،ٹٹول اور کھول کھنگال لینا چاہئے۔ یاد رکھیں ایک نئی جنگ ہماری دہلیز پر کھڑی ہے۔یہ ہم سے ایک دوسرے کو کورونا وائرس سے بچانے اور سڑکوں پر کھڑے ہو کر راستے محفوظ بنانے اور راشن بانٹنے سے کہیں زیادہ کا تقاضا کررہی ہے۔ وقت کی جادو نگری میں شب وروز کا طلسم ٹوٹنے لگا ہے۔

ہنری کسنجر کی ایک مشہور کتاب ”A World Restored“دراصل نپولیائی جنگوں کے بعد سفارت کاروں کی اُن کوششوں کا احاطہ کرتی ہے جس نے دنیا کو دوبارہ بحال کیا۔بعد کے ادوار میں کسنجر دنیائے سفارت میں ایک تمثال (آئیکون) بن کراُبھرا۔ دنیا کے تمام بڑے دانشور اس امر پر متفق نظر آتے ہیں کہ کورونا وبا کے بعد اب دنیا پہلے کی مانند کبھی بحال نہ ہو سکے گی۔ گویا دنیا کی بحالی کا تصور اب تحلیل ہو رہا ہے۔ کورونا وبا کے انجام سے قطع نظر ایک نئی دنیا کی تشکیل روحِ عصر بن چکی ہے۔ چنانچہ بڑے دماغ اس نئی دنیا کو سوچنے سمجھنے میں مصروف ہیں۔ ہنری کسنجر نے اِسے بھانپ لیا ہے۔ چنانچہ چھیانوے سال کی عمر میں بھی اُنہوں نے ایک جھرجھری لی ہے۔ ہنری کسنجر نے گزشتہ جمہ کو ”وال اسٹریٹ جرنل“میں ایک نئے عہد کا سورج نکالتے ہوئے لکھا:دنیا کے قائدین کے لیے یہ ناگزیر ہو چکا کہ وہ مشتعل وبا سے نمٹتے ہوئے کورونا کے بعد کے نئے عالمی فرمان کی جانب پیش قدمی کریں۔

اس میں ناکامی دنیا کو نذرِ آتش کردے گی“۔ کسنجر کے خیال میں جس طرح کورونا کے مرض میں وینٹی لیٹر کی ضرورت ہے ٹھیک اسی طرح کورونا وبا کے بعد ”نئے عالمی فرمان“ کی ضرورت ہوگی۔کسنجر کے خیالات امریکی بالادستی کے سانچے میں اُبھرتے ہیں۔اس لیے وہ اپنے موقف میں اس لاچاری سے باہر نہیں نکل پاتے۔ اُن کے نزدیک کورونا کے بعد ایک نئے ”معاشی عالمی فرمان“ کی ضرورت بھی ہوگی۔ امریکا کو اس پر ابھی سے قدم بڑھانا ہوگا۔ امریکا کے لیے چین ایک دشمن ہی ہوگا۔ چنانچہ کسنجر نے واضح لکھا ہے کہ ہم چین ہر بھروسا نہیں کرسکتے۔ کسنجر امریکا کو کہتا ہے کہ امریکیوں کو زندہ رکھنے والی ادویات کا کنٹرول چین کے پاس ہے۔ یہ انحصار کیسے درست ہوسکتا ہے۔ یہاں ٹہر کر برسبیل ِ تذکرہ اپنا جائزہ بھی لے لیتے ہیں۔ کسنجر کا یہ خیال قومی ریاست سے مکمل وفاداری کے باطن سے اُبھرتا ہے۔ ہمارا حال کیا ہے۔ پاکستان کو سوچنا چاہئے کہ ہماری ادویات کا انحصار بھارت پر کیوں ہے؟ ہمیں یہاں فارما مافیا کے سفاک اورناعاقبت اندیش حریصوں نے پہنچایا ہے۔ فارماسوٹیکل کمپنیوں اور ڈریپ کی ملی بھگت نے ہماری ادویات کے سارے منظر نامے پر پنجے گاڑ رکھے ہیں، ان کی تال میل ہمیں کسی دن بہت خطرناک موڑ پر اپاہج حالت میں کھڑا کردے گی۔ ہمیں کچھ نئی فارما سوٹیکل کمپنیوں کی ضرورت ہے۔ اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ اس مارکیٹ کو زیادہ گہرائی کے ساتھ کنٹرول کیا جائے اور منڈی کی قوتوں کے ہاتھ میں قومی ریاست کے مستقبل کو یرغمال نہ بننے دیا جائے۔

ذرا سوچئے! ”نئے عالمی فرمان“کی تشکیل و ترتیب میں بھی کسنجر کی توجہ پوری طرح ہیلتھ کے نظام پر کنٹرول اور کورونا وبا کے ایام میں اس کے تباہی کے مضمرات پر مرکوز ہے۔ وہ نئے نظام میں ویکسین پر ریاستی کنٹرول کی بات کررہے ہیں۔ اس باب میں یورپی ملکوں کا ردِ عمل دیکھ لیں۔ کورونا وائرس کی وبا کے بعد کسی بھی ملک نے اپنی اتحادی سیاست اور معیشت کی بھاگیداری پر توجہ نہیں دی۔ چند دنوں میں یورپی یونین سخت گیر قومی ریاستوں کے طور پر اپنی اپنی آہنی دیواروں میں ایک دوسرے سے لاپروا تھیں۔ تمام یورپی ریاستوں نے اپنی اپنی سرحدیں یکطرفہ طور پر بند کردیں۔یہاں تک کہ طبی پوشاکوں میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ حصہ داری گوارا نہیں کی۔ ان کے اسٹورز بھی ذخیرہ اندوزی کی طرف مائل نظر آئے۔اٹلی اور اسپین نے کورونا وبا کے بدترین حالات کے ہنگام میں اپنے شمالی پڑوسیوں کو مدد کے لیے پکاراتو ان دوست ملکوں نے انہیں ٹرخادیا۔ یورپی یونین کی عدالت ِ انصاف نے گزشتہ ہفتے فیصلہ دیا کہ پولینڈ، ہنگری اور جمہوریہ چیک نے 2015 میں مہاجر بحران کے دوران پناہ گزینوں کو منتقل کرنے سے انکار کر کے یورپی یونین کا قانون توڑ دیا تھا۔ تینوں ممالک نے اس پر کوئی معذرت کی ضرورت محسوس نہیں کی۔یونان نے گزشتہ ماہ شامی مہاجرین کو اپنی سرزمین پر داخل ہونے سے بزور طاقت روکا۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق یونانی فوج اور مسلح افراد نے پناہ گزینوں اور تارکین وطن کوچھینا جھپٹی کے علاوہ جنسی تشدد کا بھی نشانا بنایا، یورپی یونین بڑی حد تک خاموش رہا۔کسنجر کے نزدیک ان واقعات کا ایک بڑا تناظر ہے، ریاستیں اپنے اپنے مفادات کے تحت پرانے معاہدوں سے باہر نکلتی نظر آتی ہیں۔ جس میں یورپی یونین کا مستقبل بھی داؤ پر لگا ہوا ہے۔ کورونا وبا کے بعد کی دنیا اپنے نئے خدوخال، رخ ورخساراور نقش ونگار کی تلاش میں ہوگی۔ اس نئی دنیا کی تشکیل بھی بڑی حد تک کورونا وبا کو جنم دینے والے دماغوں کی صوابدید سے جڑی ہے۔یہ دماغ قومی ریاستوں کے تصور کو اپنے عالمگیر مقاصد کے ماتحت رکھنا چاہتے ہیں۔

کورونا وائرس قومی ریاست کی طاقت کے ایک نئے تصور کی داغ بیل ڈال رہا ہے۔ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے وائرس کا شکار ہونے سے ذرا قبل کہا کہ اس سے تو کوئی ایک ریاست نبر د آزما نہیں ہوسکتی، اس کے لیے ”عالمی حکومت“ کی ضرورت ہے۔عالمی حکومت کا یہ تصور کسی ”اتحادی سیاست“ کے ذہن سے نہیں اُبھرتا بلکہ یہ ایک سخت گیر تصور کی ماتحتی میں قومی ریاستوں کو بہت پھسپھسی اور پلپلی حالت میں رکھتا ہے۔ اس کا سیاق وسباق انتہائی منفی ہے اور عالمی شطرنج کی گہری چالوں سے آلودہ ہے۔ مگر یہ کھیل کا بس ایک ہدف ہے۔ حیاتیاتی جنگ نے اس کی راہ ہموار کرنا شروع کردی۔ قومی ریاست کی طاقت کو تحفظ دینے کے لیے اس نوع کے ہتھیاروں کی مضبوط ڈھالیں اب ہمیشہ درکار رہیں گی۔ ہمیں کمر کس لینی چاہئے، ہم ایک نئے عہد میں داخل ہورہے ہیں۔ اس نئے عہد کی جھلک کسنجر نے اپنے تناظر میں دیکھی ہے، مگر ہمیں اپنی قومی ریاست کے مقاصد کے ماتحت تیاریاں شروع کرنی چاہئے۔ اگلی ایک دہائی عالمی منچ پر قومی ریاستوں کے مقام کی کھینچا تانی کی نذر ہو جائے ہوگی۔ جس میں وائرس بھی ہمارے ساتھ موجود رہیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کچہری نامہ (٣) وجود پیر 06 مئی 2024
کچہری نامہ (٣)

چور چور کے شور میں۔۔۔ وجود پیر 06 مئی 2024
چور چور کے شور میں۔۔۔

غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا وجود پیر 06 مئی 2024
غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا

بھارت دہشت گردوں کا سرپرست وجود پیر 06 مئی 2024
بھارت دہشت گردوں کا سرپرست

اک واری فیر وجود اتوار 05 مئی 2024
اک واری فیر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر