وجود

... loading ...

وجود
وجود

کیا واقعی ’’میرے پاس تم ہو‘‘۔۔۔!

جمعه 07 فروری 2020 کیا واقعی ’’میرے پاس تم ہو‘‘۔۔۔!

کئی برسوں سے ہمارے ہاں یہ مباحثے جاری تھے کہ ہماے ملک میں پاکستانی ڈرامے دیکھے کیوں نہیں جاتے ؟لیکن گزشتہ دو ،چار سالوں سے جیسے ہی پاکستانیوں نے پاکستانی ڈرامے دیکھنا شروع کردیئے ہیں تو آج کل ہمارے ہاں بڑے زور و شور کے ساتھ یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ آخر پاکستانی ڈرامے اتنے ذوق وشوق سے دیکھے کیوں جارہے ہیں ؟۔کل تک آوازیں بلند ہوتیں تھیں کہ ہمارے ملک میں ایساڈرامہ لکھنے والے لکھاری ہی نہیں ہیں جن کے لکھے ہوئے ڈرامے پاکستانی ناظرین کے ذوق کی تسکین کرسکیں مگر اَب جب کہ خلیل الرحمن قمر، ہاشم ندیم ،عمیرہ احمد جیسے رائٹر ز کے لکھے ہوئے ڈرامے نہ صرف پاکستانیوں بلکہ پڑوسی ملک کے ناظرین کی تفریح طبع کے معیار پر اُتر رہے ہیں تو پھر ہمارے کئی سنجیدہ قسم کے دانشوروں کی رنجیدہ رنجیدہ سے چیخیں بصورت دہائی سنائی دے رہی ہیں کہ اِن ’’ڈائجسٹ رائٹرز‘‘ کے لکھے ہوئے ڈراموں کو مقبولیت کے نئی بلندیاں کیوں عبور کرنے دی جارہی ہیں ؟۔یعنی پہلے اچھا ڈرامہ نہ لکھنا اور نہ بنانا جرم ہوا کرتا تھا اور اَب ایک مقبول ڈرامہ لکھنا اور بنانا جرم قرار دیا جارہا ہے۔بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ پاکستانی ڈرامہ کی مقبولیت کا توڑ کرنے کے لیے حکومت سے اپیلیں کی جارہیں ، عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے جارہے ہیں اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سامنے گزارشات پیش کی جارہی ہیں کہ خدارا کسی بھی طرح یا تو ڈرامہ کو آن ائیر ہونے سے روک دیا جائے یا پھر کم ازکم ڈرامہ کے ’’ڈائجسٹ رائٹر ‘‘ کو پابند کردیا جائے کہ اپنے ڈرامے میں ایسے موضاعات پر قلم کشائی نہ کرے ،جسے ملاحظہ کرنے کے بعد کسی ناظر کی دل میں ڈرامہ دیکھنے کی ایسی خواہش بیدار ہو۔جیسی خواہش ڈرامہ ’’میرے پاس تم ہو‘‘ دیکھنے کے بعد ہوئی ہے۔

اگر خدا سوچنے کی توفیق دے تو پھر پاکستانی ڈرامے ’’میرے پاس تم ہو‘‘ پر تنقید کرنے والوں کو اِس متعلق بھی ضرور سوچنا چاہئے کہ آخر فنون ِ لطیفہ کی کوئی صنف اَب چاہے وہ ڈرامہ ہو ،شاعری ہو یاکچھ اور آخر عوام میں مقبول کیوں ہوتی ہے؟۔بلاشبہ ڈرامہ ہو شاعری کسی بھی معاشرے میں اُسی وقت ہی مقبولیت حاصل کرتی ہے جب معاشرے کی اکثریت کو محسوس ہوتا کہ اِس ڈرامہ یا شعر میں اُس کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کرنے کا حق ادا کردیا گیا ہے۔ ایک ایسا ڈرامہ یا شعر جو اپنے ناظر یا سامع کی حسِ ادراک کو متاثر ہی نہ کرسکے وہ آخر کیوں مقبول ہوگا۔ڈرامہ ہو یا شعر ہر شخص اُس میں اپنی ذات کا تعلق یا مطابقت تلاش کرتا ہے ۔جب اُسے وہ فکری تعلق اور ذاتی واردات کسی ڈرامہ یا شعر میں نظر آجاتی ہے تو پھر وہ اُسے پسندیدگی کے مقامِ جلیلہ پر فائز کردیتا ہے۔ یہ پسندیدگی پھر اُسے کسی شعر کو بار بار دہرانے اور کسی ڈرامے کو بار بار دیکھنے پر مجبور کردیتی ہے۔ اِس ڈرامہ لکھنے والے کا تو بس اتنا سا ہی کمال ہوتا ہے وہ اپنی تحریر میں ایسے موضوع کو مرکز و محور بنائے جسے معاشرے کی اکثریت دیکھنا چاہتی ہو،سننا چاہتی ہو اور بار بار پڑھنا چاہتی ہو۔ میرے خیال میں بس یہ ہی وہ تخلیقی غلطی ہے جو ’’میرے پاس تم ہو ‘‘ ڈرامہ کے خالق جناب خلیل الرحمن قمر سے سرزد ہوگئی ہے۔

خلیل الرحمن قمر کی یہ ’’ڈامائی غلطی ‘‘ کچھ اِس لیے بھی ناقابلِ معافی ہے کہ ایسا ڈرامہ، میں نہیں لکھ سکتا ،میرے ساتھ بیٹھا ہوا کاغذ کے کاغذ سیاہ کرنے والا دانشور نہیں لکھ سکتا اور سب سے بڑھ کر اپنے کالموں کی سیاسی کاٹ سے عام قاری کا دل چھلنی کر دینے والا کالم نگار بھی نہیں لکھ سکتا ۔آپ تصور کریں کہ خلیل الرحمن قمر کاگناہ کتنا بڑا ہے کہ پرائم ٹائم 8 بجے کا وہ وقت جو بڑی محنت اور تگ و دو کے بعد نیوز اینکرز اور سیاسی تجزیہ کاروں نے مل کر پاکستانی ڈرامے سے چھین لیا تھا۔ اَب ٹی وی اسکرین کے وہی سنہری لمحات ایک بار پھر سے ناظرین نے پاکستانی ڈرامے کو تفویض کرنا شروع کر دیئے ہیں ۔ لہٰذا نیوز چینلوں پر یہ بحث تو بنتی ہے کہ خلیل الرحمن قمر نے ’’میرے پاس تم ہو ‘‘ کے اسکرپٹ میں موضوع کے ساتھ انصاف سے کام نہیں لیا ۔حیرانگی تو اِس پر ہوتی ہے کہ یہ بات وہ ٹی وی اینکرز اور سینئر تجزیہ کار کر رہے ہیں جو گزشتہ 10 سالوں سے مسلسل فقط ایک ہی موضوع ’’سیاست ،سیاست‘‘ کی گردان کیے جارہے ہیں بغیر ایک لمحہ کا توقف کیے اور یہ سوچے بغیر کہ ٹی وی ناظرین کو سیاسی معلومات کے بھاری بھرکم و سنسنی خیز اسکرپٹ کے ساتھ تفریح طبع کے لیے کچھ ہلکی پھلکی ’’نان اسکرپٹڈ‘‘ قسم کی زود ہضم غذا بھی درکار ہوتی ہے ۔

سچی بات تو یہ ہے کہ ’’میرے پاس تم ہو‘‘ ڈرامہ میں نے بالکل بھی نہیں دیکھا کیونکہ بچپن سے پڑھنے کا اتنا زیادہ شوق ہے کہ اتنا وقت ہی نہیں بچ پاتا کہ پڑھنے کے علاوہ بھی کوئی ڈھنگ کا کام کرسکوں لیکن اِس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ اگر ڈرامہ دیکھنے کا شوق مجھے نہیں ہے تو ہر وہ پاکستانی جو ڈرامہ دیکھ رہا ہے ،وہ قابلِ گردن زنی اور اُس کا پسندیدہ ڈرامہ میری نظروں میں قابلِ مذمت ہے ۔بھئی ہر شخص کا اپنا رجحان اور اُس کے مطابق اپنے مشاغل ہوتے ہیں اور کیا یہ ضروری ہے کہ اپنے ساتھ رہنے والے ہمراہی سے تعلق کو استور رکھنے کے چکر میں دوسرا اپنے پسندیدہ مشاغل ترک کرکے کسی اور کے پسندیدہ مشغلہ کو اختیار کرلے۔ بہرحال ہمارا معاشرتی المیہ ہی یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص دوسرے کی فکر ،خیال اور عمل کو تبدیل کرنے کی خواہش تو رکھتا ہے لیکن خود اپنی صحیح یا غلط فکر،خیال اور عمل پر نظرثانی کرنے کا نہ تو حوصلہ رکھتا ہے اور نہ ہی اُمنگ۔ہمارے اِسی قومی طرزِ عمل کا سامنا فی الحال خلیل الرحمن قمر اور اُن کے ڈرامے ’’میرے پاس تم ہو ‘‘ کو کرنا پڑرہاہے۔

معاملہ صرف ڈرامے اور لکھاری کے طرزِ تحریر یا موضوعاتی انتخاب پر تنقید تک ہی محدود ہوتا تو پھر بھی کوئی اتنی بڑی بات نہیں تھی ،کیونکہ اُردو اَدب میں ہمیشہ تنقید کامطلب تنقیص کے بجائے ستائش اور اصلاح مراد لیا جاتاہے ۔ لہٰذا ہمارے ہاں عام دستور ہے کہ لکھنے والا اپنے خرچہ پر ہی اپنی تخلیق پر ’’تنقیدی نشستوں ‘‘ کا خصوصی اہتمام کرتا ہے اور اُن’’تنقیدی نشستوں ‘‘میں اپنی تخلیق پر ہونے والی تنقید کی نشرو اشاعت پر خوشی و مسرت کا اظہار فخریہ انداز میں کرتا ہے۔ مگریہاں ’’میرے پاس تم ہو ‘‘ کے رائٹر اور اداکاروں کو سوشل میڈیا سے الیکٹرانک میڈیا تک میں تنقید کے بجائے تنقیص یا یوں سمجھ لیجئے کہ تذلیل کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔خاص طور سوشل میڈیا پر تو ڈرامے کے کرداروں پر ایسی ایسی پھبتیاں کسی جارہی ہیں کہ ذرا سا بھی کمزور اخلاق رکھنے والا شخص اُن عبارتوں کو مکمل نفسِ مضمون کے ساتھ پڑھنے کا حوصلہ نہیں کرپاتا۔’’میرے پاس تم ہو‘‘پاکستانی ڈرامے کی تاریخ میں واحد ایسا ڈرامہ ہے جو اپنے ناظرین کے دلوں پر ہی راج نہیں کر رہا بلکہ اپنے مخالفین کے حواسوں پر بھی پیر تسمہ پاکی طرح سوار ہوگیا ہے۔یقینا خلیل الرحمن قمر مبارکباد کے مستحق ہیں کہ آج ہر پاکستانی کو یہ محسوس ہورہا کہ واقعی ’’میرے پاس تم ہو‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر