وجود

... loading ...

وجود
وجود

وزیراعظم صاحب چورن ختم ہورہا ہے !

بدھ 05 فروری 2020 وزیراعظم صاحب چورن ختم ہورہا ہے !

شبر زیدی بھی رخصت ہوئے! شاعر نے کہا تھا:جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سوجا !! موصوف اقوال تو حضرت علیؓ اور مالک بن اشترکے سنایا کرتے، مگر عمل ، عمل !! تاریخ کا وہ چمکتا فقرہ ادھورا چھوڑتے ہیں، جس میں کہا گیا تھا : دل علیؓ کے ساتھ مگر تلواریں ۔۔۔۔ شبر زیدی میں کیا خوبی تھی، باتیں خوب بناتے تھے۔ اب اُنہیں رخصتی کا ایک آبرومندانہ جواز بھی چاہئے! ہر ایک کو درکا ر ہوتا ہے۔ نہیں بھائی، صرف بیماری نہیں۔ کوئی دن جائے گا کہ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کے ساتھ اُن کے اختلافات کی ایک کہانی منظرعام پر آئے گی۔ پھر موصوف کو اپنی دنیا میں واپس آنا ہے جہاں اُنہیں تاجر طبقوں کے غلط سلط ہندسوں کا بھار اُٹھانا ہے۔ جس ایف بی آر سے پلٹے ہیں اُنہیں اپنے گاہکوں کے لیے غچہ دینا ہے، چنانچہ وہ اپنی رخصتی کی کہانی میں تاجر طبقے کے ساتھ زیادتیوں کا تڑکا بھی لگائیں گے۔ یہی ہوتا آیا ہے۔ آگے بھی دور دور تک کچھ بدلتا دکھائی نہیں دے رہا۔

وزیراعظم عمران خان کی نگاہیں اُن پر پڑیں۔ پھر عمران خان نے وہی کیا جو وہ کرتے ہیں۔ ان کی خوب تعریفیں کیں۔ یہاں تک کہ اُنہیں ایف بی آر میں تبدیلی کے نعرے کو حقیقت میں ڈھالنے کا راستا بتا دیا۔ ان کے ذریعے خزانہ بھر جانے کی نوید جاں فزا سنادی۔ یہ وہی صاحب تھے، جو شوکت خانم کے آڈٹ کا اپنی فرم کے ذریعے بوجھ اُٹھاتے تھے۔عمران خان نے کوئی ’’خوبی‘‘ تب پائی ہوگی۔مسئلہ صرف اتنا نہیں۔ کسی بھی شعبے میں عمران خان کی کوئی مہارت ثابت نہیں ہورہی۔ اور اُن کی ٹیم میں دور دور تک کوئی ایک بھی فرد ایسا دکھائی نہیںدیتا جو ہماری مایوسیوں کی تیرہ تر، دراز تراور محیط تر رات کو صبح آئندہ کا سورج دکھا سکے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا کہ شبر زیدی نے رخصت چاہی جب آئی ایم ایف کا ایک وفد صرف دو دن بعد پاکستان پہنچا۔عالمی اداروں کے سازشی ٹولے دنیا کی ترقی پزیر اور تیسری دنیا کی معیشتوں کو انتہائی بے رحمی سے نشانا بناتے ہیں۔ ان کا طریقہ واردات اب اتنا مخفی نہیں رہا۔ جان پرکنز نے اپنی دومعرکتہ آلارا کتابوں ’’کنفیشن آف این اکنامک ہٹ مین‘‘ اور ’’دی سیکرٹ ہسٹری آف ڈی امریکن امپائر‘‘ میں راز فاش کردیے۔ یہ کتابیں ہمیں ملکی واقعات کو سمجھنے کا ایک درست تناظر فراہم کرتی ہیں۔ عالمی اداروں کے نشانے پر رہنے والے کسی بھی ملک میں اکنامک ہٹ مین یا اقتصادی غارت گر کیسے بروئے کار آتے ہیں؟یہ پیشہ ور افرادملکوں کو اُن کی اپنی معیشت کی طاقت سے کیسے محروم کرکے حاشیہ بردار رکھتے ہیں؟کیسے یہ غارت گر ملکوں کے منافع کا ستیاناس کرتے ہیں اور اسے عالمی اداروں کے کھاتوں میں منتقل کرتے ہیں؟اپنے اہداف کو پورا کرنے کے لیے یہ ہر چیز کرتے ہیں۔ اس کے لیے جعلی مالیاتی رپورٹیںتیار کی جاتی ہیں۔ انتخابی دھاندلیوں کے ذریعے مرضی کی حکومتیں بنائی جاتی ہیں۔اس میں استحصال کا ہر طریقہ رو اہوتا ہے۔ جنسی ترغیبات ، رشوت، یہاں تک کہ قتل وغارت گری کو بھی اپنے اہداف کی تکمیل کے لیے جائز سمجھا جاتا ہے۔ جان پرکنز نے اپنی پہلی کتاب میں منکشف کیا ہے کہ ایکواڈور کے صدر رولڈوس اور پناما کے صدر عمر توری جوس کو خوفناک فضائی حادثے میں اس لیے قتل کیا گیا تھا کیونکہ وہ کارپوریٹ ٹولے اور بینکنگ سربراہوں کے ساتھ اپنی حکومتوں کے گٹھ جوڑکے مخالف تھے۔ درحقیقت اپنی ہی ’’حکمت عملیوں‘‘ سے پیدا ہونے والی’’ خرابیوں ‘‘کو دور کرنے کے لیے یہ اپنے ہی ’’بندوں‘‘ کو اپنے زیرِ ہدف ملک میں تعینات کراتے ہیں۔ پھر ان’’ خرابیوں ‘‘کو ’’ٹھیک‘‘ کرنے کے بہانے یہ نئی نئی ’’خرابیوں ‘‘ کی افزائش کرتے ہیں۔ اور معیشت کو ایک ایسے منحوس گرداب میں دھکیل دیتے ہیں، جہاں ہر معاشی تدبیر ایک دائرہ کاٹ کر اُسے واپس’’ قرضے ‘‘ کے حل پر دھکیلتی اور رقوم کو ایک ہاتھ سے دے کر واپس اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے۔ تیسری دنیا کے اکثر ممالک کے ساتھ عالمی مالیاتی اداروں نے اسی طرح ’’ہاتھ‘‘ کیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کی سب سے فاش غلطی یہ تھی کہ اُنہوں نے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ اور گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر کو قبول کیا۔ اُدھار لیے گئے یہ معاشی منیجرز درحقیقت جان پرکنز کے’’ اکنامک ہٹ مین‘‘ہیں۔ وزیراعظم پورا دن بے نتیجہ اجلاسوں میں کھپاتے ہیں، وہ پاکستان کے کسی بھی ماہر اقتصادیات کے ساتھ دس منٹ کی ایک نشست تو کر ہی سکتے تھے جو اُنہیں بتاتا کہ کس طرح عبدالحفیظ شیخ نے ماضی میں معیشت کو قرضوں کی دلدل میں خاموشی سے دھکیلا ہے۔ اسلام آباد میں کسی بھی بیوروکریٹ سے معلوم کیا جائے تو وہ بتاتا ہے کہ ملکی تعمیر کی کسی بھی پالیسی پر اُن کی توجہ حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ وہ ایک ’’مہمان اداکار‘‘ کے طور پر بروئے کار رہتے ہیں۔ اور صرف عالمی مفادات سے وابستہ معاشی دائروں پر نگاہ رکھتے ہیں۔ اگر یہ بات وزیراعظم عمران خان کو اب بھی سمجھ نہیں آئی تو کب آئے گی؟گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر تو ایک قومی شرم کی طرح ملک میں آئے ہیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ مصر سے بلائے گئے اس مہمان فنکار کی خود مصر میں’’ کارکردگی‘‘ پر بھی ایک نظر نہیں دوڑائی گئی کہ کس طرح موصوف نے وہاں افراطِ زر میں اضافہ کیا اور مقامی کرنسی کا بیڑہ غرق کیا۔ گورنر اسٹیٹ بینک اور چیئر مین ایف بی آر کی تعیناتیاں مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو مقرر کرنے کے فوراً بعد عمل میں آئی تھیں۔ انتہائی شرمناک بات یہ ہے کہ ان تینوں مناصب پر تقرریاں کرتے ہوئے پاکستان نے اپنے قومی وقار کا ذرا بھی لحاظ نہیں کیا۔ ان تینوں مناصب پر تعینات طارق باجوہ ، جہانزیب خان اور اسد عمر کو تب اُٹھا کر پھینکا گیا جب وہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کے ایک حتمی دور میں داخل ہو رہے تھے۔ اچانک وزیر خزانہ کے منصب سے پہلے اسد عمر کو فارغ کیا گیا اور پھر باقی دومناصب پر بھی تبدیلیاں لائی گئیں۔ یوں لگتا ہے کہ سوچ کا کسی عمل سے ہمارا کوئی علاقہ نہیں۔ بس الل ٹپ اقدامات اور عالمی اداروں کے احکامات پر ہمارا گزارا ہے۔ ریاست جتنا وقت پاکستانی شہریوں کو اپنے ڈھب پر لانے میں خرچ کرتی ہے، اگر اس کا نصف بھی معاشی خودمختاری حاصل کرنے پر صرف کرے تو آئی ایم ایف کا وفد یوں دندناتا پھرے نہ پاکستان کو عبدالحفیظ شیخ اور باقر رضا جیسے لوگوں کو بھوگنا پڑے اور نہ ہی شبر زیدی ایسے لوگوں کے نام پر ’’چورن‘‘ بیچنے کی ضرورت پڑے۔ قومی ریاستوں میں سیاسی بحرانوں کی جڑیں اکثر معاشی ناہمواریوں کی زمین میں پیوست نکلتی ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ معاشی خود کفالتی کے بغیر سیاسی آزادی کا خواب پورا ہو گیا ہو۔ پاکستان کو اپنے سیاسی ارادے کو بے قید کرنا ہے تو ایک معاشی انقلاب برپا کرنا ہوگا۔ اس کے لیے موجودہ بندوبست تو ہر گز موزوں نہیں۔

وزیراعظم عمران خان کے پاس اپوزیشن کے ہنگام بیچنے کو چورن بہت تھا۔ وہ اکثر کہا کرتے کہ اُن کے پاس ایک ٹیم ہے۔ یادش بخیر ماضی گزیدگی کے باعث وہ دہراتے کہ کرکٹ میں اُن کی کامیابی دراصل ٹیم کی تشکیل میں اُن کی مہارت کا نتیجہ ہوتی۔ اب آشکار ہے ، سیاست میں اُن کی ناکامی ٹیم کی تشکیل میں ناکامی کے باعث ہے۔ معاشی حوالے سے اسد عمر کی ہی مثال لے لیجیے! تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے سے قبل ہی عمران خان نے اگر کسی کانام بطور وزیر مشتہر کردیا تھا تو وہ اسد عمر ہی تھے۔ یہ اُن کی ناکامی تھی کہ وہ اسد عمر کی ناکامیوں اور سیاست میں آنے سے قبل مختلف اداروں میںاُن کی پیدا کردہ خرابیوں سے آگاہ نہیں تھے۔ پھر بھی بطور وزیرخزانہ ان کے نام کا اعلان بار بار کیا گیا ۔ عمران خان چند ماہ میں ہی اُن سے وزارت خزانہ کا استعفیٰ لینے پر مجبور ہوگئے۔ موصوف اپنے دورِ وزارت میں اپنا صدر نیشنل بینک لے کر آئے، مگر نیشنل بینک سے ہرروز سنائی جانے والی بدعنوانیوں کی آوازیں ختم نہیں ہو سکیں۔ ایک بوڑھے شخص کو صرف نوکری سے دلچسپی ہے، وہ تبدیلی کا جوش کیسے دکھا سکتے ہیں۔ چنانچہ ہر روز بینک کے اندر جاری بھدنامے عام ہوتے جارہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا ہر دعویٰ جھوٹا، ہر وعدہ کچا اور ہر کھلاڑی ناکام کیوں ہورہا ہے؟ شبر زیدی کی رخصتی نے اس سوال کو اور زیادہ بلند آہنگ کردیا ہے۔ وزیراعظم کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اپوزیشن کے طویل دور میںوہ جو چورن بیچتے تھے، وہ اب ختم ہوتا جارہا ہے۔ آگے کیا کریں گے!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر