وجود

... loading ...

وجود
وجود

تخریبی اشتراک !

جمعه 17 جنوری 2020 تخریبی اشتراک !

جمعہ 10 جنوری کوکوئٹہ کے علاقے سیٹلائٹ ٹائون کے قریب اسحاق آباد کی ایک مسجد میں خودکش دھماکے میں پندرہ نمازی جاں بحق ہوگئے،متعدد زخمی ہوئے۔ یہ سانحہ نماز مغرب کی ادائیگی کے دوران پیش آیا۔ دوسری صف میں کھڑے بد بخت دہشتگرد نے جسم سے بندھے بم کا دھماکا کردیا ۔یقینا مسلمان تھا، جس نے اپنے کلمہ گو مومن بھائیوں کو خون میں نہلا یا۔ زندگی کے ساتھ اپنی آخرت بھی برباد کردی۔ ذمہ داری داعش نامی گروہ نے قبول کرلی ۔جن سے وابستہ افراد کسی دوسری دنیا کی خلوق نہ ہیں۔

افغانستان کے بعض علا قوں میں کمین گاہیں رکھتے ہیں ۔بلوچستان کے اندر لشکر جھنگوی وغیرہ کے لوگ اور سابقہ قبائلی علاقوں کے شدت پسند مسلح گروہوں سے وابستہ افراد ان سے تعلق رکھتے ہیں۔ پاکستان کے اندر ان کا نیٹ ورک نہیں رہا ہے۔ البتہ شخصی ارتباط و روابط ضرور ہیں۔ پیش ازیں سات جنوری کو کوئٹہ کے میکانگی روڈ پر دھماکا کیا گیا جس میں دو شہری جاں بحق، کئی زخمی ہوئے۔ یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ دہشتگردوں نے پھر سے اپنے لوگ سبوتاژ کے لیے متحرک کرد یے ۔ افغانستان کے اندر داعش نامی گروہ کی شناخت مبہم نہیں ہے۔ وہاںکے اہم افراد اسی طرح افغان طالبان بارہاکہہ چکے ہیں کہ ان افراد کو امریکی سی آئی اے اور کابل انتظامیہ کی حمایت حاصل ہے۔افغان طالبان قابض افواج کے ساتھ ان کو بھی ایک لمحہ برداشت نہیں کرتے۔ کئی بار انہیں جانی و مالی نقصان پہنچا چکے ہیں۔ طالبان اس گروہ کا محاصرہ کرتے ہیں، تو امریکی ، نیٹو اور افغان فورسز طالبان پر فضائی حملہ کرکے انہیں فرار کا موقع دیتی ہیں ۔ امریکی نمائندے زلمے خلیل زا د اعتراف کرچکے ہیں کہ طالبان کو داعش کی سرکوبی میں کامیابیاں ملی ہیں۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی مختلف اوقات پکار اٹھے ہیں کہ افغانستان میں داعش کی سرپرستی ہورہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس صورتحال میں نئی دہلی لا تعلق ہے۔

دراصل بھارت افغانستان کے اندر کلیدی کردار کا حامل ہے۔جو کابل انتظامیہ کی پوری عمل داری میں بے لگام ہے ۔ بندوبست اور منصوبوں کا ہدف اگر پاکستان ہے، تو ساتھ افغانستان کے اندر امن عمل کو سبوتاژ کرنے کی سعی بھی کرتا ہے ۔ اس ضمن میں’’ را ‘‘اور کابل انتظامیہ کے درمیان ارتباط و ہم آہنگی ہے۔ یہ امر بھی مبالغہ سے خالی ہے کہ کابل انتظامیہ کی’’ این ڈی ایس‘‘ امریکی ’’سی آئی اے‘‘ اور بھارتی ’’را‘‘ کے ایک شعبہ کے طور پر کام کرتی ہے۔ ایسے ہی جیسے سابقہ ’’خاد‘‘ کی حیثیت روسی اتحاد کے’’ KGB‘‘ کی تھی ۔ نور محمد ترہ کئی ، ببرک کارمل اور ڈاکٹر نجیب اللہ روسی مشیروں ، معاونین اور کے جی بی کے ماتحت تھے۔ ان کی ہر وزارت روسی معاونین و مشیر چلاتے تھے ۔

کابل ریڈیو اور سرکاری ٹی وی کے اندر تک روسی بیٹھے ہوئے تھے۔ موجودہ کابل رجیم بھی تحتُ الاثر ہے ،بھارتی اور امریکی Proxies ہیں، بیرونی ہدایات پر عمل کی پابند ہیں ۔ اپنے عوام اور ملک کے مفادات سے زیادہ انہیں واشنگٹن اور نئی دہلی کی رضا مقدم ہے۔ چناں چہ کوئٹہ کے اس خودکش حملے کے بعدجاسوسی کے ان اداروں نے حملہ کی تشہیر اپنے مقصد کی تحت کرلی۔ یقینی طور پر دھماکے سے ’’را ‘‘اور ’’این ڈی ایس‘‘ لا تعلق نہ ہیں۔

اس گروہ اور بعض افغا ن ابلاغی حلقوں نے خبر اُڑائی کہ’’ طالبان کے شیڈو چیف جسٹس شیخ عبدالحکیم زخمی ہوگئے۔ اور کوئٹہ شوریٰ کے حلیم احمد خان،گل آغا اخوند اور امان اللہ سمیت ان کے جنگجو جاں بحق ہوگئے۔ مزید یہ کہ عبدالطیف اور نظر محمد نامی افراد جوطالبان کے لیے فنڈز اکٹھے کرنے پر مامور تھے، بھی چل بسے ۔ نیز بھونڈا پروپیگندہ یہ بھی کیا کہ مسجد میں طالبان کی میٹنگ ہورہی تھی۔ جس میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور منشیات کے اسمگلر بھی شریک تھے‘‘۔ پہلی با ت تو یہ ہے کہ دھماکے میں نشانہ بننے والوں میں کوئی بھی نامعلوم الاسم شخص نہ تھا ۔تمام کی شناخت ولدیت سمیت ہوچکی ہے۔ جن میں چھ افغان باشندے تھے ۔ اس محلے کے رہائشی بلوچستان پولیس کے آفیسر ڈی ایس پی امان اللہ اسحاق زئی بھی جاں بحق ہوئے۔ یہ محلے کی مسجد ہے ، اہل محلہ نماز ادا کرتے ہیں۔

دوئم ،طالبان افغانستان کے غالب حصے پر کنٹرول رکھتے ہیں انہیں یہاں میٹنگ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ رہی یہ بات کہ آئی ایس آئی کے لوگ شریک تھے تو پھر تو یہ اجلاس کوئٹہ چھائونی جیسے محفوظ مقام پر ہونا چاہیے تھا۔ سوئم بلوچستان و کوئٹہ کے اندر ہزاروں لاکھوں افغان باشندے مقیم ہیں۔ اور روزانہ ہزاروں افغان باشندے پاکستان آتے اور جاتے ہیں۔ افغان سرکاری اداروں و محکموں کے ملازمین کے رشتہ دار اور خاندان کے افراد یہاں رہائش رکھتے ہیں۔ وہاں کے بڑے بڑے سیاستدان ،معتبرین اور اراکین پارلیمنٹ کے خاندان یہاں سکونت پذیر ہیں۔

یعنی تجارت پیشہ ہوں یا سرکاری لوگ سب کا پاکستان آ نا جانا رہتا ہے۔ گویا نہ آنے کی قید کسی پر نہیں ہے۔یہاں کی مساجد اور مدارس میں افغان طلباء تعلیم کی غرض سے مقیم ہیں۔بعینہ عصری تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں۔بلکہ افغان قومی کرکٹ ٹیم کے بیشتر کھلاڑی پاکستان میں پلے بڑھے ہیں۔ ان کی تعلیم ،تربیت حتیٰ کہ کرکٹ سے وابستگی بھی پاکستان میں ہی ہوئی ہے ۔سوافغانستان کی اس بڑی سیاسی و مزاحمتی تحریک کا افغان عوام ہی حصہ ہیں ۔ان کے وابستگان کی پاکستان میں رہائش حیرانگی و اَچنبھے کی بات ہرگز نہیں ہے۔ نہ شیخ عبدالحکیم اس دھماکے میں زخمی ہوئے ہیں ۔ دہشتگردی میں اسحاق آباد کے معلوم لوگ جان سے گئے ہیں۔ ذمہ داری کوئی بھی قبول کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مردم کشی ’’را‘‘ اور اس کے طفیلی افغان جاسوسی کے ادارے’’ این ڈی ایس‘‘ نے کی ہے ۔

پاکستان کے نقصان و بدنامی کی کوشش کے ساتھ، مقصد امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے میں رخنہ ڈالنا بھی ہے۔چند ماہ قبل کو ئٹہ کے کچلاک کی ایک مسجدمیں طالبان تحریک کے امیر مولوی ہبتہ اللہ اخوندزادہ کے بھائی حافظ احمداللہ کو بم دھماکے میں قتل کردیا ۔بعض پشتون سیاسی مکتبہ فکر کا اس نوع کی دہشت گردی کی مذمت سے گریز بھی عیاں کرتا ہے کہ ان واقعات میں ہمسایہ ممالک کے ادارے ملوث ہیں ۔ گویانئی دہلی اور کابل کے پاکستانی Proxies کا داعش وغیرہ اور ’’را‘‘ و ’’این ڈی ایس‘‘ کے اشتراک و تخریبی عملیات پر سوال نہ اُٹھانا بھی ایک سوال ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار وجود منگل 19 مارچ 2024
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار

نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر وجود منگل 19 مارچ 2024
نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر

اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل وجود منگل 19 مارچ 2024
اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل

اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر وجود پیر 18 مارچ 2024
اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

نازک موڑ پر خط وجود پیر 18 مارچ 2024
نازک موڑ پر خط

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر