وجود

... loading ...

وجود
وجود

کراچی کے لیے معاہدے

منگل 14 جنوری 2020 کراچی کے لیے معاہدے

متحدہ قومی موومنٹ کی تبدیلی سرکار سے علیحدگی کی دھمکی کس قدر کار گر ہوگی اس کا اندازہ فوری طور پر تو نہیں لگایا جاسکتا لیکن اس سے پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کو اپنے’’ سیاسی قد ‘‘کا اندازہ ضرور ہوگیا ہوگا کہ ان کی حکومت اپنے پائوں پر نہیں بلکہ اتحادی جماعتوں بالخصوص ایم کیو ایم کے کاندھوں پر کھڑی ہے ۔متحدہ کے کنونیئر خالد مقبول صدیقی کی جانب سے گذشتہ روز کی جانے والی پُر ہجوم پریس کانفرنس میں تبدیلی سرکار کے لیے ایک واضح پیغام تھا کہ وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ سنجیدہ نہیں ہیں جبکہ ان کی جانب سے ایک بار پھر انتخابات میں دھاندلی ہونے کا معاملہ بھی اٹھایا گیا ہے جو کہ حکومت مخالف جماعتوں کا ایک واضح موقف ہے جبکہ کراچی میں ایم کیو ایم کی انتخابی نشستوں پر کٹ لگا ہے اور پی ٹی آئی کو اپ سیٹ کامیابی ملی ہے ۔دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر متحدہ کے تحفظات دور کرنے کے لیے پی ٹی آئی کے ایک وفد نے وفاقی وزیر اسد عمر کی قیادت میں ایم کیو ایم کی قیادت سے رابطے شروع کردیئے ہیں یعنی کراچی کی سیاست میں ایک نئے’’ رحمان ملک‘‘ کا ظہور ہونے جارہا ہے ۔بہر کیف ایم کیو ایم اور تبدیلی سرکار کے درمیان روٹھنے اور منانے کا سلسلہ تو چلتا ہی رہے گا جیسا کہ ماضی میں پیپلز پارٹی کے ساتھ ایم کیو ایم یہی کرتی آئی ہے ۔سیاسی اتحاد ہوتے رہتے ہیں لیکن یہ اتحادحکومت کی تشکیل کے لیے ہو تو وہ انتہائی نازک ہوتے ہیں ،جیسا کہ اس وقت تبدیلی سرکار اور ایم کیو ایم کے اتحاد کا معاملہ ہے ۔اس سے پہلے کہ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے حکومتی اتحاد کے حوالے سے کوئی حتمی رائے قائم کی جائے یہ جان لینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم نے پی ٹی آئی کی حکومت سازی میں کن شرائط پر ساتھ دیا ہے ۔

 

پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے درمیان ایک 9نکاتی معاہدہ 3اگست 2018کو ہوا تھا جس پر دونوں فریقین کے دستخط بھی موجود ہیں ۔ پی ٹی آئی کے چیئر مین وزیر اعظم عمران خان کی نجی رہائشگاہ بنی گالہ میں ہونے والے اس معاہدے میں دونوں فریقین کے درمیان یہ طے پایا تھا کہ کراچی آپریشن کا ازسر نو جائزہ لیا جائے گا ،حکومتی عہدوں پر شفاف تقرریاں کی جائینگی ،محصول چنگی نظام کے خاتمے کے بعد شہروں کو ہونے والے نقصانات کا ازالہ کیا جائے گا ،شہری حکومت (کراچی)کو وفاق سے فی الفور فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا ،پولیس کے نظام میں اصلاحات لائی جائے گی ، حیدر آباد میں یونیورسٹی قائم کی جائے گی اور انتخابی حلقوں میں الیکشن آڈٹ کرایا جائے گا ۔یہ تھے وہ 9نکات جو ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے درمیان اتحاد کے باعث بنے لیکن گذشتہ ڈیڑھ برس سے زائد کا عرصہ گذرجانے کے باوجود تبدیلی سرکار کسی ایک نکتہ پر بھی عملدرآمد نہیں کرسکی ہے جبکہ کاروبار حکومت محض یقین دہانیوں پر چلایا جارہا ہے ۔ بلا شبہ کراچی کی سیاست ملکی سیاست پر براہ راست اثر انداز ہوتی رہی ہے یہی وجہ ہے کہ1988سے ایم کیو ایم کو ملکی سیاست میں ایک نمایاں حیثیت حاصل رہی ہے جس کا بر ملا اظہار عملی طور پر ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی جانب سے کیا جاچکاہے ۔

 

بہر کیف عام انتخابات 2018میں کراچی سے پی ٹی آئی کی غیر معمولی کامیابی کسی بڑے سیاسی معجزے سے کم نہیں ہے اس کے باوجود پی ٹی آئی کی حکومت کی جانب سے کراچی اور اس کی عوام کی فلاح بہبود کے لیے کچھ نہ کیا جانا سمجھ سے بالا تر ہے جبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کراچی میں انتخابی کامیابی کے بعد پی ٹی آئی کراچی پر غیر معمولی توجہ دیتی اور خود کو ایم کیو ایم کے متبادل کے طور پر پیش کرتی لیکن بد قسمتی سے پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کا وژ ن یہاں بھی سطحی نوعیت کا ثابت ہوا اور وہ اس امر کا ادراک ہی نہیں کرسکی کہ ایم کیو ایم اور اس کے درمیان جو معاہدہ ہوا ہے اگر اس پر عملدرآمد کیا جاتا ہے تو اس صورت میں ایم کیو ایم سے زیادہ خود پی ٹی آئی کو اس کا سیاسی فائدہ ہوگاجو کراچی کی سیاست میں پی ٹی آئی کو حقیقی کردار دینے کی ضمانت بن سکتا ہے ۔معاملہ کچھ یوں ہے کہ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت ایم کیو ایم کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو محض ایک سیاسی معاہدے کے طور پردیکھ رہی ہے اور یہی اس کی سب سے بڑی سیاسی ناکامی ہے ۔بہر کیف سیاست کیا ہوتی ہے اس کا مظاہرہ پچھلے دنوںپیپلز پارٹی کے نوجوان قائد بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے دیکھا گیا ہے جو اس بات کو پہلے سے ہی بھانپ گئے تھے کہ پی ٹی آئی اپنی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے ہچکچہاٹ کا شکار ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی جانب سے ایم کیو ایم کو سندھ حکومت میں شمولیت کی دعوت دیدی گئی جس پر ایم کیو ایم کے حلقوں میں مشاورتی عمل شروع ہوگیا ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ایم کیو ایم کراچی کے وسیع تر مفاد میں کیا قدم اٹھاتی ہے ۔

 

جہاں تک کراچی میں ایم کیو ایم کو اپنی ماضی کی طرح کی پوزیشن برقرار رکھنے کا معاملہ درپیش ہے تو اسے فوری طور کسی حتمی فیصلہ کی جانب بڑھنا ہوگا کیونکہ لٹکے ہوئے فیصلے نہ صر ف کراچی بلکہ خود ایم کیو ایم کے لیے بھی نقصان دہ ہونگے ۔جہاں تک پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے معاہدے کا تعلق ہے تو یہ ایک اچھا اور قابل تعریف معاہدہ ہے لیکن یہ ایک غیر فطری معاہدہ بھی ہے جو دو مختلف سوچ اور نظریات کی حامل جماعتوں کے درمیان ہوا ہے جس کا انجام یہی ہونا ہے جو اس کا ہونے جارہا ہے ۔آخر میں پیپلز پارٹی ،پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم سمیت دیگر جماعتوں کے قائدین کے سامنے یہ سوال رکھ رہا ہوں کہ کراچی اور اس کے عوام کی فلاح بہبود کے لیے آخر کسی معاہدے کی ضرورت کیوں کر پیش آتی ہے اور کب تک کراچی کو معاہدوں کی بھینٹ چھڑایا جاتا رہے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر