وجود

... loading ...

وجود
وجود

سیاست دان اور ڈائپر بدل لینے چاہئے!

پیر 13 جنوری 2020 سیاست دان اور ڈائپر بدل لینے چاہئے!

پاکستان میں سب کچھ بدلتا رہتا ہے، صرف سیاست دان نہیں۔امریکی مصنف اور مزاح نگار مارک ٹوئن کا ایک فقرہ ضرب المثل بن گیا ہے

:
“Politicians and diapers must be changed often, and for the same reason.”

’’سیاست دان اور ڈائپرز یکساں سبب سے اکثر بدلے جانے چاہئے‘‘۔

پارلیمنٹ میں آرمی ایکٹ پر تین بڑی سیاسی جماعتوں کے یکساں رویہ اور ایک جیسی حمایت سے لگتا ہے کہ مارک ٹوئن کا فقرہ مزاح کے لیے نہیں بلکہ حقیقی شعور کا نتیجہ تھا۔ یہ ایک غیر معمولی بات نہیں کہ مسلم لیگ نون نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا اور پورے پاکستان پر اس کے اچھے بُرے اثرات بھی پیدا کیے مگر پارلیمنٹ میں اچانک اپنے ماضی کو دُہرایا اور آرمی ایکٹ کی حمایت کرکے اپنے نئے نعرے کے دھوکے میں مبتلا حامیوں کو ہکا بکا چھوڑ دیا۔کچھ لکھاری اسے ’’بڑے بے آبرو ہو کر بیانئے کو ہم بدلے‘‘قرار دے رہے ہیں۔ کچھ اسے افسانوی رنگ وروپ سے تعبیر کا مسئلہ بنا رہے ہیں۔ کچھ ’’ سیاسی رومان کا المناک انجام‘‘ قرار دینے کے باوجود ’’بیانیہ زندہ ہے‘‘ کے فریب خوردہ تصور سے الجھے ہوئے ہیں۔ کوئی نوازشریف کے انتخابی جلسوں میں گونجنے والے شعر، اے طائر لاہوتی اُس رزق سے موت اچھی ، کے ’’طائر لاہوتی‘‘ کو ڈھونڈ رہا ہے۔ ایک نے وفاقی وزیر کے الفاظ سے ’’جادو کی چھڑی ڈھونڈی‘‘۔اور ایک صاحب کو سیاست دانوں کو اچانک لاحق ’’چپ کی بیماری‘‘ ستانے لگی۔کہیں ’’الوداع ، میاں صاحب الوداع‘‘ کی گونج گمک بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ نون لیگ سے امیدیں باندھنے والے کالم نگار، تجزیہ کار اور دانشور کیا اُس کے ماضی کو فراموش کرگئے تھے۔ کیا اُنہیں نون لیگ کی سیاست کے مرکز ومحور سے واقفیت نہ تھی۔ کیا وہ رفاقت کے فریب میں اُن کی تاریخ پڑھنا بھول گئے تھے۔ کچھ اور نہیں نواب زادہ نصر اللہ خان اپنی زندگی کے آخر میں نوازشریف کے دھوکے کا زخم لے کر رخصت ہوئے۔

ذرا اپنی ماندہ یادداشتوں کو اُجاگر کریں۔جنرل مشرف کی جانب سے 12؍ اکتوبر 1999 کو ایک منظم جبر کے ساتھ اقتدار پر قبضے کے بعد یہ نواب زادہ نصر اللہ خان تھے جنہوں نے بحالی ٔ جمہوریت کا ڈول نئے سرے سے ڈالا تھا۔ اس سے قبل وہ نوازشریف کے اقتدار میں جمہوری جبر سے نالاں تھے اور جی ڈی اے کے پلیٹ فارم سے متحرک تھے۔ مگر جب پرویز مشرف کا جرنیلی جبر مملکت کے درودیوار سے کابوس کی مانند لپٹنے لگا تو اُنہوں نے اے آر ڈی کی بنیاد ازسر نو رکھی۔ نوازشریف کی مسلم لیگ نون اس کا سرگرم حصہ بنی۔ یہاں تک کہ ایک روز نوازشریف نے پرویز مشرف کے ساتھ ایک خاموش معاہدہ کیا اور جدہ جلاوطنی کی زندگی اپنے لیے پسند کر لی۔ اگر چہ شریف خاندان ہمیشہ اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکاری رہا یہاں تک کہ اس کے بیرونی ضامنوںسعودی انٹیلی جنس کے تب کے سربراہ شہزادہ مقرن اور لبنان کے سابق وزیراعظم کے بیٹے سعد حریری نے ستمبر 2007 میں اس معاہدے کی کاپی ہوا میں لہرائی تھی۔ بعدازاں اس معاہدے کے حوالے سے یہ بحث جاری رہی کہ نوازشریف کی جلاوطنی کا معاہدہ پانچ سال کے لیے تھا کہ دس سال کے لیے تھا۔ نوازشریف کے باب میں ہمیشہ یہ بات پاکستان کے مقتدر حلقوں سے سنائی دیتی ہے کہ وہ کسی معاہدے کی پاسداری نہیں کرتے۔الغرض نوازشریف کی جدہ روانگی پر نواب زادہ نصراللہ خان نہایت دل گرفتہ اور دل شکستہ تھے۔ بالاخر صحافیوں نے تب اُن کے گھر کا رخ کیا اور نوازشریف کی جدہ جلاوطنی سے متعلق دریافت کیا۔ اُنہوں نے تب جو شتابی ارشاد کیا وہ شریف خاندان کی سیاسی تشریح کے لیے ایک وجدانی تفہیم رکھتا ہے۔ نواب زادہ کے الفاظ تھے:
’’عمر بھر سیاست دانوں سے معاملہ کرتے رہے پہلی بار تاجروں سے واسطہ پڑا، وہ ہمیں بیچ باچ کر چلے گئے‘‘۔
ونسٹن چرچل نے دوٹوک کہا تھا

:
’’Politics is not a game. It is an earnest business.‘‘
(سیاست ایک کھیل نہیں ، یہ ایک سنجیدہ کاروبار ہے)

معلوم نہیں ہماری لکھاری تجزیہ کار کہاں سے شریف خاندان میں نظریاتی آن بان ڈھونڈ لائے تھے۔ تاریخ نے پلٹ کر ان کی بصیرت وبصارت پر کاری وار کیا ہے۔ اس میں شریف خاندان کا کوئی قصور نہیں ۔ اُنہوں نے وہی کیا جو وہ تاریخی طور پر کرتا آیا ہے۔بدقسمتی سے صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے جولائی اور اگست سے شروع ہونے والے شریف خاندان کے ساتھ خاموش معاملات پر دھیان دینے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ جب کالم نگار نوازشریف کے گرد جعلی عزیمت کی داستانیں بُن رہے تھے تو وہ جیل سے اُکتا کر ایک مرتبہ پھر اپنا ماضی دہرانے کو کمر بستہ ہوچکے تھے۔ ایک طرف کہا جا رہا تھا کہ باقی صوبوں سے سیاست کی آبرو بڑھاتے جنازے اُٹھے مگر پنجاب ا س تاریخ سے محروم ہے۔ نوازشریف یہ سوچتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دینے کے بیانئے کے لیے اگر ایک جنازہ پنجاب کی جیل سے اُٹھتا ہے تو تاریخ کادھارا مڑ جائے گا۔ یہ پیر کی اپنی اڑان نہ تھی بلکہ یہ مرید تھے جو پیر کو ہوا میں اڑا رہے تھے۔ اس جعلی اور پرفریب چھوی کو تراشنے والے تاریخ ، صحافت اور معروضیت کے مجرم ہیں۔ ان کے الفاظ حرمت ناآشنا ہیںاوران کا شعور محض دسترخوانی ہے۔ درحقیقت نوازشریف انتہائی خاموشی سے اگست میں جیل کے اندر کچھ اہم ملاقاتوں کے ذریعے دل یاشکم میں سے شکم کا راستا چُن چکے تھے۔ ڈیل کے رخ ورخسار سنوارنے والے اچھی طرح جانتے تھے کہ نوازشریف اب جیل مزید نہیں گزارسکتے۔ چنانچہ اُن کے پاس جیل سے نجات کا پروانہ تھمانے کی پیشکش ہی سب سے بڑی تھی ۔ باقی ذیلی امور طے کرنے میں کچھ زیادہ وقت نہ لگاتھا۔ نوازشریف اپنی بیٹی کو بھی ساتھ لے جانے میں کامیاب نہ ہوسکے تھے۔ جب یہ معاملات سِریّت کی تہہ داریوں سے اُبھریں گے تو راز کھلے گا کہ کس طرح مریم نواز کو بطور ضمانت یہاں روکا گیا۔ اور کیسے نوازشریف کو یہ یاد دلایا گیا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک کیوں اور کن وجوہات کے باعث ناقابلِ اعتبار ہیں۔ اُنہیں تمام طے شدہ معاملات پر پوری طرح عمل درآمد کرنے کا اعتبار پیدا کرنے پر مریم نواز کی بیرون ملک روانگی کا یقین دلایاگیا۔ ان معاملات پر جتنا بھی غور کیا جائے تو یہ راز کھلتا ہے کہ سیاست کتنی بے حیا ہوتی ہے۔

 

یہ راز بھی اب منکشف ہونے کے قریب ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ ایک اسٹیبلشمنٹ حامی اور دوسرا مخالف چہرہ درحقیقت ایک ہی منصوبے کا حصہ ہے۔ شریف خاندان کو یہ دوچہرے رکھنے کا ہمیشہ فائدہ ہوتا رہا ہے ۔ اُن کے لیے کبھی ایک چہرہ اور کبھی دوسرا چہرہ کسی نہ کسی شکل میں مفید ثابت ہوتا آیا ہے۔ مگرآرمی ایکٹ کی حمایت کے حوالے سے اب یہ فاصلہ کم سے کم ہو گیا ہے۔ درحقیقت اس کی حمایت کے لیے جو پیغام مسلم لیگ نون کے رہنماؤں کو لندن سے ملا وہ نوازشریف کی جانب سے تھا،شہباز شریف کی جانب سے نہیں۔ اس دفعہ یہ پیغام راز میں نہیں رہا۔ اور خواجہ آصف کو پارٹی کے اندر جاری مسلسل مخالفت کے باعث صاف لفظوں میں پیغام کی وضاحت کرنا پڑی۔ درحقیقت خواجہ آصف کا یہ رویہ نوازشریف کی صاحبزادی کو زیادہ نہیں بھایا۔ اُنہوں نے پارٹی اجلاس سے قبل کچھ ایم این ایز کے ذریعے اس حمایت کا ملبہ خواجہ آصف اور شہبازشریف پر ڈالنے کی کوشش کی مگر یہ کوشش بھی کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس طرزِ سیاست پر غور کریں تو اندازا ہوتا ہے کہ کس طرح سیاست میں بے وفائی کا عنصر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ اور کیوں اقتدار کی سیاست خاندان کو نگل لیتی ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس سیاست کی تاریخ کے وارث نوازشریف یہ نعرہ لگاتے رہے کہ وہ اقتدار کی نہیں اقدار کی سیاست کرتے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ شریف خاندان اپنی ہر طرح کی متضاد اور متناقض سیاست کے لیے اپنے حامیوں سے یکساں حمایت چاہتے ہیں۔ اُنہیں اپنی ضرورت کے مطابق جب ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانا ہوتا ہے تو تب اُس کی حمایت بھی درکار ہوتی ہے اور جب بوٹ کو عزت دینی ہوتو اس کی حیلہ جوئی بھی چاہئے ہوتی ہے۔ یہ کام زرخرید ذرائع ابلاغ اور دسترخوانی قبیلہ تو کرسکتا ہے مگر آزاد صحافت اور خوددار قبیلے کے لیے یہ روش قے آور ہے۔ مارک ٹوئن کا مشورہ غلط نہیں سیاست دان اور ڈائپر بدل لینے چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار وجود منگل 19 مارچ 2024
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار

نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر وجود منگل 19 مارچ 2024
نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر

اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل وجود منگل 19 مارچ 2024
اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل

اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر وجود پیر 18 مارچ 2024
اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

نازک موڑ پر خط وجود پیر 18 مارچ 2024
نازک موڑ پر خط

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر