وجود

... loading ...

وجود
وجود

احتساب کا پرندہ مر رہا ہے۔۔۔! (راؤ محمد شاہد اقبال)

جمعرات 02 جنوری 2020 احتساب کا پرندہ مر رہا ہے۔۔۔! (راؤ محمد شاہد اقبال)

کبھی ماضی میں نیب کو دھمکی تو پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین جناب آصف علی زرداری نے لگائی تھی کہ ’’ نیب کے پر کاٹے بھی جاسکتے ہیں ‘‘ لیکن یہ کسی کے بھی وہم و گمان میں نہیں تھا کہ اِس دھمکی کو عملی جامہ احتساب کی علمبردار جماعت تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں پہنایا جائے گا اور یہ جامہ زیب تن بھی اِس شان ،آن ،بان سے کروایا جائے گا کہ ملک کے سادہ لوح عوام انگشت بدنداں رہ جائیں گے۔نیب کے قوانین میں ترامیم کا صدارتی آرڈیننس کا اچانک نفاذ ثابت کرتا ہے کہ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان اپنے ا حتساب کے نعرہ سے نظری طور پر نہ سہی مگر عملی طور پر پوری طرح سے دستبردار ہوچکے ہیں ۔ ویسے تو تحریک انصاف کے حکومتی ترجمان اپنی لچھے دار گفتگو سے ابھی بھی صبح و شام یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں کہ نیب قوانین میں ترمیم سے احتساب کے عمل پر کوئی منفی اثر مرتب نہیں ہوگا۔ لیکن اُن کے اس قسم کے وضاحتی بیانات پر یقین اس لیے بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اُن کے پاس اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے ایک بودی سی بھی دلیل نہیں ہے۔جبکہ نیب قوانین میں جس قسم کی ترامیم کردی گئیں ہیں اُن کو پڑھنے کے بعد تو منکشف ہوتا ہے کہ احتساب کے جسم سے اُس کی روح کو ہی نکال کر باہر پھینک دیا گیا ہے ۔ یعنی صدارتی آرڈیننس کے نفاذ کے بعد احتساب بھی مکمل طور ہومیو پیتھک طرز احتساب بنا دیا گیاہے کہ جس کا نہ تو مستقبل میں حکومت کو کو ئی فائدہ ہوگا اور نہ ہی اپوزیشن کو کوئی نقصان ۔بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ احتساب کا تماشا بنانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے تو کچھ بے جانہ ہوگا۔

اہم ترین سوال یہ ہے کہ آخر وزیراعظم پاکستان عمران خان کو نیب قوانین میں ترامیم کرنے کا آرڈیننس جاری کرنے کی ضرورت کیوںپیش آئی جب کہ پوری دنیا اچھی طرح سے جانتی ہے اِس آرڈیننس سے عمران خان کی ذات کو تو کسی قسم کا فائدہ ملنے والا نہیں ہے اور نہ اِس آرڈیننس کے نفاذ سے تحریک انصاف کو بطور جماعت فقیدالمثال عوامی مقبولیت حاصل ہوسکتی ہے تو پھر آخر کیوں ایک ایسا’’ احتساب شکن‘‘ اقدام اُٹھایا گیا جو صریح طور پر عمران خان کے سیاسی نظریات اور تحریک انصاف کے منشور کے یکسر مخالف ہے ۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان اپنی حکومت کے اتحادیوں اور اپنی جماعت میں دیگر سیاسی جماعتوں سے آنے والے’’سیاسی گماشتوں‘‘ کے ہاتھوں یرغمال بن کر بلیک میل ہورہے ہیں ۔اگر یہ اندیشہ درست ہے توپھر یقینا تحریک انصاف کے عام کارکنان کے لیے بہت ہی بُری خبر ہے ۔ویسے بھی نیب ترامیم میں آرڈیننس کے نفاذ کے بعد تحریک انصاف کے کھلاڑیوں کی ساری ’’سیاسی چہک مہک ‘‘ شدید ترین ’’سیاسی ڈپریشن‘‘ میں بدل گئی ہے۔ جب سے تحریک انصاف کی حکومت مسندِ اقتدار پر فائز ہوئی ہے تب سے اَب تک یہ پہلا موقع ہے کہ جب تحریک انصاف کے کارکنان کو اپنی جماعت کے دفاع کے لیے الفاظ تو بہت دُور کی بات ہے خیال بھی نہیں مل رہے ہیں ۔ جبکہ تحریک انصاف کے مخالفین کی جانب سے کوچہ و بازار میں کھلاڑیوں پر طرح طرح کے جملے کسے جاررہے ہیں ،بھد اُڑائی جارہی ہے اور وہ بے چارے خاموشی کے ساتھ ’’ٹک ٹک دیدم۔ دم نہ کشیدم ‘‘ کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔

کوئی مانے یا نہ مانے لیکن نیب ترمیمی آرڈیننس پر سب سے کمال کا ردعمل تو پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے آیا ہے کہ اکثر اپوزیشن رہنما فرما رہے ہیں کہ ’’عمران خان کو نیب کے پر ہر گز کاٹنے نہیں دیئے جائیں گے اور ہم اپنی آخری سانس تک نیب اور احتساب کے عمل کا تحفظ کریں گے‘‘۔ حالانکہ سچی بات تو ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ سال میں اپوزیشن رہنماؤں کو چین اور سکھ کا پہلا سانس ہی اِس آرڈیننس کے نفاذ کے بعد آیا ہے لیکن سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے مقابلہ میں ایک دوسرے کو مات دینے اور تحریک انصاف کی حکومت کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے کے لیے اپوزیشن کی طرف سے تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ جیسے احتساب کا عمل بیچ منجدھار میں رُکنے کا سب سے زیادہ افسوس بیچاری اپوزیشن کو ہورہا ہے۔جبکہ حقیقت میں ان رہنماؤں کے دل میں خوشی و شادمانی کے کتنے لڈو پھوٹ رہے ہیں اُس کا حساب کتاب تو شاید کسی عام کیلکولیٹر پر بھی لگایا نہیں جاسکتا۔ بہر حال حقیقت ِ احوال جو بھی ہو مگر ایک بات تو بالکل صاف ہے کہ نیب ترمیمی آرڈیننس کے تناظر میں اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے نیب کے حق میں کی جانے والی گفتگو بے چارے تحریک انصاف کے کارکنان پر بجلی بن کر گررہی ہے اور وہ دل ہی دل میں سوچ رہے ہیں کہ اُن پریہ کیسا کڑا سیاسی وقت آگیا ہے کہ اُنہیں اپوزیشن رہنماؤں کی طرف سے بھی احتساب کے فیوض و برکات پر ’’سیاسی لیکچرز‘‘ سننے کو مل رہے جبکہ اُن کی اپنی جماعت کے ترجمان احتساب کے جاری عمل میں مین میخ نکال رہے ہیں ۔

کچھ رجعت پسند جن کا خیال یہ تھا کہ چونکہ نیب آرڈیننس کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے،اس لیے ہوسکتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ اِس آرڈیننس کے خلاف حکمِ امتناع جاری کرکے اِس کو فوری طور پر نافذ العمل ہونے سے روک دے گی ۔اُن کے لیے بھی بُری خبر یہ ہے فی الحال لاہور ہائی کورٹ نے نیب آرڈیننس کے خلاف دائر کی گئی درخواست کو یہ اعتراض لگا کر واپس کردیا ہے کہ ’’سردیوں کی تعطیلات کے باعث فوری طورپر اِس درخواست کی سماعت نہیں کی جاسکتی لہذا عدالتی تعطیلات کے اختتام پر ازسرِ نو درخواست دائر کی جائے ‘‘۔یعنی تحریک انصاف کی حکومت نے نیب آرڈیننس کے نفاذ کا وقت بھی ’’ حسنِ سیاست ‘‘ سے ایسا مناسب منتخب کیا ہے کہ احتسابی اداروں کی مدد کے لیے ’’قانون ‘‘ بھی وقت پر حرکت میں نہ آسکے ۔ جونادان دوست اب تک یہ سمجھتے رہے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کے مشیرسوچ سمجھ کر کوئی کام نہیں کرتے یقینا اِس مرتبہ تو اُنہیں بھی منہ کی کھانا پڑی ہے ۔

لطف گناہ میں ملا اور نہ مزا ثواب میں
عمر تمام کٹ گئی کاوشِ احتساب میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

بھارت، سنگھ پریوار کی آئیڈیالوجی کالونی وجود جمعرات 18 اپریل 2024
بھارت، سنگھ پریوار کی آئیڈیالوجی کالونی

ایرانی حملے کے اثرات وجود بدھ 17 اپریل 2024
ایرانی حملے کے اثرات

دعائے آخرِ شب وجود بدھ 17 اپریل 2024
دعائے آخرِ شب

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر