وجود

... loading ...

وجود
وجود

ڈرانا ، دھمکانا ہمیشہ کام نہ کریگا! (پی چدمبرم)

پیر 30 دسمبر 2019 ڈرانا ، دھمکانا ہمیشہ کام نہ کریگا! (پی چدمبرم)

جھارکھنڈ کے انتخابی نتائج کے دوسرے روز 24 دسمبر کو کئی اخبارات میں دو نقشے شائع کیے گئے ۔ 2018ء میں بی جے پی کا ہندوستان کی 29 ریاستوں میں سے 21 میں اقتدار تھا۔ 2019ء کے ختم ہوتے ہوتے یہ تعداد گھٹ کر 15 ہوگئی۔ 2018ء میں بی جے پی کی 69.2 فی صد آبادی اور ملک کے 76.5 فی صد علاقے پر حکمرانی تھی۔ ختم 2019ء تک یہ اعداد گھٹ کر 42.5 فی صد (آبادی) اور 34.6 فی صد (علاقہ) ہوگئے ۔ بڑی ریاستوں(بیس یا زیادہ لوک سبھا نشستوں کی حامل) میں سے بی جے پی کا صرف تین میں پارٹی چیف منسٹر ہے ۔کرناٹک، گجرات اور اترپردیش۔ تین دیگر بڑی ریاستیں …آندھرا پردیش، بہار اور ٹاملناڈو… این ڈی اے کی طرف ہیں، لیکن کب تک وہ یونہی رہیں گے ، غیریقینی امر ہے ۔

پہلا اقدام تین طلاق کو مجرمانہ فعل قرار دینے والا بل رہا۔ نہ کانگریس اور نا ہی دیگر پارٹیوں نے تین طلاق کو ممنوع قرار دینے کی مخالفت کی۔ وہ صرف اس فقرہ کے خلاف رہے جو شوہر کو جیل بھیجتا ہے ۔پھر بھی وہ مباحث کے اختتام پر اس طرح پیش کیے گئے جیسے کہ غلط اور بُرے عمل کی حمایت کی گئی۔ اگلا اقدام بے رحمانہ این آر سی عمل کا آسام میں نفاذ رہا جس نے 19,06,657 افراد کو ’غیرشہری ‘یا ’بے مملکت ‘لوگ بنا دیا۔ 5 اگست کو بی جے پی نے دستورِ ہند پر عدیم النظیر حملہ چھیڑتے ہوئے وادیٔ کشمیر کے 7.5 ملین افراد کو غیرمعینہ محاصرے میں ڈال دیا، ریاست جموں و کشمیر کے ٹکڑے کردیے اور اسے تین خطوں کو دو مرکزی زیرانتظام علاقوں تک گھٹا دیا۔ قطعی حملہ جمہوریہ کے بنیادی صفات پر شہریت (ترمیمی) بل یا سی اے بی کی منظوری کے ذریعے کیا، جسے 72 گھنٹوں کے اندربقیہ مرحلوں کی تکمیل کے ساتھ قانون بنا دیا گیا۔

مزاحمت کا آغاز
یہ حرکتیں جمہوری طور پر منتخب لیڈروں کی نہیں ہوسکتیں ، یہ دھماکے اور دباؤ ڈالنے کی حرکتیں ہیں۔ لغت میں ’bullying‘ کی تعریف یوں ہے کہ جبر و استبداد سے کام لینا یا تنگ کرنے اور ستانے کی دھمکی دینا، جارحانہ طور پر غلبہ حاصل کرنا یا ڈرانا و دھمکانا ہے ۔ ایسی حرکتیں کرنے والے مشورہ پر کان نہیں دھرتے ، وہ برعکس رائے کو تسلیم نہیں کرتے ، وہ اختلاف رائے کو برداشت نہیں کرتے ، اور وہ کبھی غلط نہیں ہوتے ۔ ڈرانے دھمکانے والے تب ہی کامیاب ہوتے ہیں جب آپ خود کو ڈرانے دھمکانے کا موقع دیں۔ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ این ڈی اے II کے ابتدائی چھ ماہ میں اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ یہی کچھ پیش آیا ہے ۔
مزاحمت کے ابتدائی اشارے مغربی بنگال میں دیکھنے میں آئے ۔ ممتا بنرجی نے اسی طرح کا عمل کیا جیسا اُن کو بی جے پی کی طرف سے سامنا کرنا پڑا تھا۔ مزید ڈھٹائی کے ساتھ مزاحمت کی قیادت مسٹر شرد پوار نے مہاراشٹرا کے الیکشن میں کی۔ نتائج کے بعد جب مسٹر پوار نے مزاحمت اور سیاسی ہنرمندی کے امتزاج سے کام لیا، تب انھوں نے بی جے پی کو پہلی بڑی شکست سے دوچار کیا۔ ان ہی دنوں سی اے بی کو پارلیمنٹ سے بلا کی تیزی سے گزار دیا گیا اور ملک بھر میں طلبہ کے احتجاج پھوٹ پڑے ۔ مہاراشٹرا کی کامیابی اور مخالف سی اے بی احتجاجوں نے بلاشبہ جھارکھنڈ کے انتخابات میں جے ایم ایم اور کانگریس کے سیاسی ورکرز کو نئی توانائی بخشی۔ اندرون پندرہواڑہ (12 تا 24 دسمبر) قوم کو اپنی اصل مل گئی اور وہ ڈرانے دھمکانے والوں کے مقابل اُٹھ کھڑی ہوئی۔

ملک یہاں سے کدھر کی طرف بڑھے گا؟ مسٹر مودی کے پاس 4 سال 5 ماہ کی میعاد باقی ہے ۔ لہٰذا، دہلی میں قیادت کی تبدیلی کی توقع کرنا دانشمندی نہیں۔ بعض مبصرین کے مطابق یہ ممکن ہے کہ عوام کی مزاحمت مسٹر مودی کو اپنی روش بدلنے پر مجبور کرسکتی ہے ، مگر مجھے تحفظات ہیں۔میری رائے میں مسٹر مودی کو جو چیز روش بدلنے پر مجبور کرے گی وہ بعض ریاستی مقننہ جات کیلئے انتخابات کے نتائج ہوں گے ، جہاں 2020ء اور 2021ء میں چناؤ ہونے ہیں ۔(2022ء اور 2023ء کے انتخابات کو فی الحال خارج رکھتے ہیں)۔ آنے والے دو سال میں مقررہ ریاستی اسمبلی انتخابات کا شیڈول یوں ہے :
2020ء … دہلی (جنوری ۔ فروری)۔بہار (اکتوبر۔ نومبر)
2021ء … جموں و کشمیر (فروری۔ مارچ)۔آسام، کیرالا، پڈوچیری، ٹاملناڈو اور مغربی بنگال (اپریل۔ مئی)

مذکورہ فہرست کی ہر ریاست میں بی جے پی قابل شکست ہے ۔ مسٹر امیت شاہ نے ایسا وہم پیدا کردیا ہے کہ بی جے پی ناقابل شکست پولیٹیکل مشین ہے ۔ بے شک، بی جے پی کی اپنی طاقتیں ہیں جن کو پیسہ کی طاقت سے تقویت حاصل ہے ، لیکن یہ بھی تمام سیاسی پارٹیوں کے معمول کی کمزوریوں سے متاثر ہے جیسے گروپ ازم، ناراضگیاں، پارٹی امیدواروں کے خلاف الیکشن لڑنا، اور جن ریاستوں میں وہ برسراقتدار پارٹی ہے ، وہاں مخالف حکومت عنصر کا پایا جانا۔ گزشتہ دو ماہ میں بی جے پی ہریانہ میں کمزور پڑی، مہاراشٹرا میں اقتدار تک پہنچتے پہنچتے رہ گئی اور جھارکھنڈ میں شکست کھاگئی۔ اس کامیابی کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے بشرطیکہ غیربی جے پی پارٹیاں الیکشن والی ہر ریاست میں طاقتور ترین پارٹی کا ساتھ دیں۔ مثال کے طور پر اس کا مطلب ہوگا کہ آسام، کیرالا اور پڈوچیری میں کانگریس، ٹاملناڈو میں ڈی ایم کے کو غیربی جے پی پارٹیوں کی حمایت ملنا چاہئے ۔ بہار اور مغربی بنگال کیلئے ریاست کی حد تک مخصوص مفاہمت و اتحاد طے کرنا پڑے گا۔ موجودہ حالات میں بی جے پی کی مذکورہ ریاستوں میں کہیں بھی جیت یقینی نہیں ہے ۔قطعی مقصد لوک سبھا الیکشن 2024ء ہے ۔ ہندو راشٹرا کو بڑھاوا دینے کی روش کو 2024ء سے پہلے پہلے ضرور روک دینا چاہئے ۔ اور ہندوستان کے دستور کو 2024ء تک ضرور بچا لینا چاہئے جیسا
کہ ابراہم لنکن نے امریکا میں 1865ء میں کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر